تھیلے سے شاپر تک کا سفر/مرزا مدثر نواز

وہ شہری سہولیات سے کوسوں دور چھوٹے سے گاؤں میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا۔ زمیندار گھرانوں کے بچے عمومی طور پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے اور میٹرک کے بعد یا اس سے پہلے ہی تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں لیکن وہ سکول و کالج کی گھر سے دوری کے باوجود سائیکل کی سواری کی بدولت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ تعلیم کے بعد روزگار کے سلسلے میں یورپ کا انتہائی کٹھن و خطرناک غیر قانونی سفر کیا اور اس میں کامیاب رہا لیکن کچھ عرصہ بعدناگزیر وجوہات کی بدولت واپس اپنے وطن لوٹ آیا۔ ملازمت کے حصول کے لیے کوششیں شروع کیں اور سکول ٹیچر بھرتی ہو گیا۔ چونتیس سال تک روزانہ سائیکل پر تقریباً بیس کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ ان کے سائیکل کی نشانی یہ تھی کہ اس کے ہینڈل پر کپڑے کا ایک مضبوط تھیلا لٹکا ہوتا تھا جو سکول کے ضروری کاغذات یا سکول سے واپسی پر سودا سلف رکھنے کے کام آتا تھا۔ سخت سردی ہو یا سخت گرمی‘ تھیلے والا سائیکل سکول شروع ہونے کے وقت سے پہلے سکول میں موجود ہوتا اور سائیکل والے نے کبھی بھی سکول سے غیر ضروری رخصت حاصل نہیں کی۔

کمرہ جماعت میں کئی طالبعلم ہوتے ہیں لیکن استاد کو نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے یا پھر زیادہ سوالات سے توجہ حاصل کرنے والے طالبعلم ہی یاد رہتے ہیں۔ اسی طرح طالبعلموں کو بھی صرف وہی استاد یاد رہ جاتے ہیں جن میں کچھ منفرد خصوصیات ہوں جیسا کہ دوستانہ رویہ‘ پڑھانے کا انداز وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے میٹرک کے اساتذہ میں کچھ منفرد صفات کی حامل ایک ایسی ہی شخصیت تھی جن کا نام ماسٹر محمد الیاس ہے جو آج بھی اس دور میں پڑھنے والے ہر طالبعلم کو یاد ہوں گے۔ الگ سیکشن ہونے کی وجہ سے میں نے بذات خود ان سے کوئی مضمون نہیں پڑھا لیکن ان کو پڑھاتے ضرور دیکھا تھا اور دوستوں سے بھی ان کی کافی تعریفیں سننے کو ملتی تھیں۔ وہ فیس دے کر ٹیوشن پڑھنے کے سخت مخالف اور اس بات کے قائل تھے کہ استاد سکول اوقات کے علاوہ طالبعلموں کو پڑھانے پر فیس نہ لے۔

ماسٹر محمد الیاس کی اسی منفرد شخصیت کے سحر کی بدولت ہم پچیس سال بعدان سے ملنے ان کے گاؤں پہنچے تو پتہ چلا کہ یا تو وہ گاؤں کی مسجد میں ملیں گے یا قبرستان میں قرآن پڑھتے ہوئے۔ بالآخر وہ ہمیں مسجدسے قبرستان والے راستہ پر مل گئے، لیکن آج ان کے ہاتھ میں سائیکل کی بجائے سہارا دینے والی چھڑی تھی اور سائیکل پر لٹکے ہوئے کپڑے کے تھیلے کی بجائے ہاتھ میں ایک شاپر تھا جس میں چند سیپارے تھے۔ چستی آج بھی پہلے کی طرح برقرار تھی اور چلتے ہوئے وہ ہم سے بہت آگے تھے۔ مختصر سی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد کے متولی ہیں‘ قبرستان و جنازہ گاہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور عصر و مغرب کے درمیان روزانہ اپنی اہلیہ کی قبر پر قرآن کا کچھ حصّہ پڑھ کر ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ صبح کے اوقات میں مویشیوں کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ بات چیت کے دوران ہم نے ان کے چہرہ و آنکھوں سے جھلکتی وہ باتیں بھی نوٹ کیں جو وہ اپنی زبان پر آنے کے باوجود ہمیں کہہ نہ سکے۔ آخر میں شفیق بزرگوں والی بات دہرائی کہ پتر اگر رکنا ہے تو ست بسم اللہ‘ آج میرے مہمان بنولیکن اگر نہیں رکنا تو اندھیرا ہو رہا ہے اور رستہ بھی محفوظ نہیں‘ اس کے علاوہ بارش کا بھی سماں ہونے والا ہے لہٰذا جلدی سے اپنے گھر کی طرف نکلو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مختصر سی ملاقات کے بعد جہاں حد درجہ خوشی محسوس ہوئی وہیں بڑھاپے کی تکالیف و مصائب و تنہائی کا سوچ کر اور تھیلے سے شاپر تک کے سفر میں سمٹی ہوئی کئی دہائیوں پر مشتمل مسلسل جدوجہد و مشکلات کے تصور سے دل آج بھی افسردہ ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دنیا دارالآزمائش ہے۔ ہر قسم کے مسائل سے آزادی صرف جنت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ دنیا میں موجود ہر آدمی کو مختلف مسائل کا سامنا ہے‘ کوئی مالی و معاشی تنگی کا شکار ہے تو کوئی کاروباری مسائل پر پریشان‘ کوئی اولاد نہ ہونے سے دکھی ہے تو کوئی اولاد کی نافرمانی سے تنگ وغیرہ وغیرہ۔
؎ امراض سے کسی کا بڑھاپا ہے اک وبال
آلام سے کسی کی جوانی ہے پائمال
اس کو ہے خوف ننگ اسے نام کا خیال
روزی سے کوئی تنگ کوئی عشق سے نڈھال۔ (جوش ملیح آبادی)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply