تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے فیصلے پرجمہوری ، سیاسی اور انسانی حقوق کے حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک کی ایک بڑی پارلیمانی اور مقبول سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے عمل کو جمہوری اصولوں کے منافی ایک آمرانہ اور جمہوریت کش قدم قرار دیاجا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اس فیصلے کو افسوسناک، شرمناک اورا حمقانہ کہہ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے راہنماوں نے پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کو مایوس کن اور سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلے کی توہین سے تعبیر کیا ہے۔ یاد رہےگذشتہ روز مسلم لیگ ن حکومت کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تاڑر نے ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف پر پابندی لگانےکا اعلان کیاہے۔ انہوں نے کہا وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد تحریک انصاف پر پابندی لگا کرسپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا جائےگا۔
ن لیگی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے تحریک انصاف پر پابندی کے اعلان پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے، این پی، جماعت اسلامی اور حکومت سے باہر دیگر سیاسی جماعتوں کے رااہنماوں نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی مخالفت کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان نے کہا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت نے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ترجمان کے مطابق پیپلز پارٹی اپنا آفیشل موقف پارٹی اجلاس میں مشاورت کے بعد جاری کرے گی۔ سیاسی جماعتوں کے مخالفانہ رد عمل کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تحریک انصاف پر پابندی کے لئے پارلیمنٹ میں اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔ جبکہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے ایک بیان میں کہا تحریک انصاف پر پابندی کافیصلہ حتمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ایسا فیصلہ سیاسی اور اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
سیاسی جماعتوں کے مخالفانہ رد عمل نے حکومت کو تذبذب کا شکار کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وفاقی وزراء پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کو اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے مشروط کررہےہیں۔ بعض حلقے وفاقی وزراء کے بیانات کو ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت حکومتی پسپائی کہہ رہے ہیں ۔ اس پس منظر میں سیاسی امور کے وفاقی مشیر رانا ثناء اللہ کا دی نیوز کو بیان بڑا معنی ٰخیز ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے موجودہ صورت حال میں دو ہی آپشنز ہیں ، اول، بات چیت کرنا، دوم، حکومتی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ملک کو عمران خان اور پی ٹی آئی کی منفی سیاست سے بچایا جائے۔
وفاقی وزراء کے بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی بحث چھیڑ کر حکومت دوسرے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جن میں سیاسی دباو بڑھا کر عمران خان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے لئے پیغام بھی شامل ہے۔ ریاستی ادارے اور حکومت اپنی تمامتر کاوشوں کے باوجود ۹۔ مئی کی متشدد کاروایئوں میں ملوث کسی فرد کو سزا دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کے علاوہ آئے روز متعد مقدمات میں عمران خان کی بریت بھی مقتدرہ اور حکومت کے لئے ندامت کا باعث بن رہی ہے۔ اس لئے حکومت اور مقتدرہ کی پہ در پہ ناکامیوں کو اعلیٰ عدلیہ کے کھاتے میں ڈالنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ عمران خان کے ساتھ عدلیہ کا بظاہر نرم رویہ بھی حکومت اور مقتدرہ کے لئے مسلسل تشویش کا باعث رہا ہے۔ عمران خان کا سیاسی قوتوں سے مذاکرات پر آمادہ نہ ہونا بھی اسی کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ برملا کہا جاتا ہے کہ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین، راہنماوں اور کارکنوں کی متشددانہ سوچ اور کاروائیاں روز بروز بڑھتی رہی ہیں۔ جبکہ ریاستی جبر اور پابندیوں کے باوجود ۸۔ فروری کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی شاندار کامیابی نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے حوصلوں کو مزید تقویت پہچائی۔
مقتدرہ کے سربراہ پر بار بار تنقید کرنے کے باوجود عمران خان صرف اور صرف مقتدرہ کے سربراہ سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حکومتی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ جبکہ مقتدرہ کے سربراہ اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سیاسی مذاکرات کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ حکومت اور عمران خان کے درمیان مذاکرات شروع نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا جوں کی توں ہے۔ اس پس منظر میں رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اگر اب عمران خان بات چیت نہیں کرتے تو ریاستی طاقت سے کریک ڈاون کیاجائے گا۔
بظاہر لگتا ہے کہ ن لیگی حکومت کو تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے لئے سیاسی جماعتوں سے مطلوبہ حمائت ملنے کے امکانات کم ہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ دوسری جانب عمران خان کے صرف مقتدرہ سے مذاکرات کرنے مگر حکومت سے بات چیت نہ کرنے کے موقف کو بھی
کسی قسم کی سیاسی حمائت میسر آنے کا امکان نہیں ہے۔ حکومت کے خلاف عمران خان موثر سیاسی متحدہ محاذ نہیں بنا پائے۔ مولانا فضل الرحمن نےبھی پی ٹی آئی کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی حامی نہیں بھری۔ کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافے اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود حکومت
کے خلاف بڑی عوامی تحریک چلنے کے حالات نظر نہیں آتے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب تک حکومت مخالف تحریک پنجاب کے گلی کوچوں میں نہیں ابھرے گی، تب تک ملک میں ن لیگی وفاقی حکومت کو ہلانا مشکل ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف ایک متحرک اور موثر وزیر اعلیٰ ثابت ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے والد میاں نواز شریف کی نگرانی میں پنجاب میں اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ نواز شریف اپنی وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے ادوار میں مقتدرہ کی مدد سے پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا کر چکے ہیں۔ اب وہی حربے پنجاب سے پی ٹی آئی کے اثرات کو مٹانے کے لئے برتے جا رہے یں۔ یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ مریم نواز شریف کس قدر پنجاب سے پی ٹی آئی کے اثرات کم کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

مستقبل قریب میں ملک کے معاشی اور سیاسی حالات مزید بگڑنے یا حکومت اور مقتدرہ کے درمیان فاصلے پیدا ہونے کی صورت نظر نہیں آتی۔ نہ ہی حکومتی اتحاد میں کوئی بحران نظر آ رہا ہے ۔ نہ ہی پیپلز پارٹی حکومتی حمائت سے ہاتھ کھیچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس لئے بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے ناطے پی ٹی آئی کو موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ جمہوری اور سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی صفوں کو متحد کرنا چاہئے۔ یہاں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ سیاسی قوتوں میں محاذ آرائی کی فضا جمہوریت اور جمہوری قوتوں کو مزید پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ جبکہ سیاسی محاذ آرائی سے سیاست اور ریاست پر مقتدرہ کی گرفت مزید مضبوط ہو جائے گی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ن لیگ کی مخلوط حکومت پی ٹی آئی پر پابندی جیسے جمہوریت دشمن قدم اٹھانے سے پرہیز کرے۔ ملک کو مشکل سیاسی و معاشی حالات سے نکالنے کے لئے سیاسی قوتوں سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جمہوری ڈائیلاگ کا آغاز کرے۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئےعمران خان کو جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے مقتدرہ سے مذاکرات کا موقف ترک کرکے سیاسی قوتوں کی جانب ڈائیلاگ کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں