مقصدِ کتاب
پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے۔؟ اور یہ کیسے ممکن ہے؟ نامی کتابچے کے 2013 سے اب تک سات ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ اس نظام کے حق میں دلیلیں ڈھونڈنے کے لئے جاری مسلسل تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کے خواتین کا طریقہ انتخاب بھی بالکل اقلیتوں کے انتخابی نظام جیسا ہی ہے ۔۔ بس یہ شروع 2001 میں ہوا تھا ۔ جبکہ اقلیتوں کے لئے یہ نظام چوتھی آئینی ترمیم کے ذ ریعے 21 نومبر 1975 سے نافذ ہوا کچھ عرصہ بعد اسے تبدیل کر دیا گیا۔پھر دو 2001 میں دوبارا شروع ہوا۔
جب کہ خواتین کی مخصوص نشستوں والا انتحاہی نظام 2001 سے مسلسل چل رہا ہے ۔۔
لیکن یہ بات حیران کُن ہے ۔
کہ خواتین کے حقوق کے لئے متحرک سیاسی خواتین یا حقوق نسواں کی علمبردار خواتین اس طریقہ انتخاب کی خامیوں پر بات ہی نہیں کرتی ۔ اور یقین مانیئے وطن عزیز کی عام خواتین کی اکثریت بلکہ 98 فیصد کو اس سارے نظام اور اپنی صنفی شناخت پر اس نمائندگی کا پتہ ہی نہیں ۔۔جبکہ اقلیتیں مسلسل سراپا احتجاج ہیں ۔ یہ بات محسوس تو عرصہ دراز ہی ہورہی تھی ۔پھر 2024 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص نشستوں کے بحران نے مجھے اس مسئلے کو بھی اس کتابچے ،کو جو اب مختصر سی کتاب بن گیا ہے ۔کا حصہ بنانے کی ترغیب دی ۔۔کہ میں اس ناانصافی پر بھی بطورِ پاکستانی شہری اپنا احتجاج بھی قلمبند کروں اور جمہوری معاشرے کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے والے اس نظام کی خامیوں کی نشاہدہی بھی کروں ۔ اپنی دانست میں اس نظام میں بہتری کے لئے سفارشات پیش بھی کروں ۔۔ کہ ایک کروڑ اقلیتوں اور تقریباً ساڑھے بارہ کروڑ خواتین کی صنفی و مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرنے والے خواتین و حضرات کو چننے کا حق صرفِ چار پانچ یا چھ شخصیات کی صوابدید پر ہونا جمہوریت کا کون سا روپ ہے ۔؟ اسکے کے علاؤہ 2001 کے بعد سے الیکٹرانک میڈیا کی وجہ اور پھر بتدریج سوشل میڈیا کے عام ہونے کی بدولت جب سے سینٹ کے انتخابات کے وقت جو بے ضابطگی سامنے آتی ہیں ۔خصوصا ًخرید وفروخت کے علاؤہ سینٹ کے انتخاب میں سینٹ کے مقصد قیام کی نفی کرنے والے اقدامات نے بھی مُجھے اپنا نقطہء نظر اس کتاب میں شامل کرنے پر مائل کیا ۔کیونکہ کسی بھی جمہوری ریاست میں ریاست کے تینوں آئینی ستون سمجھے جانے ادارے جمہور کی رائے کی طاقت سے وجود میں آتے ہیں ۔پہلا مقننہ جس کا وجود ہی جمہور کی رائے سے پھوٹتا ہے ۔اسی کے وجود سے پھر دوسرا انتظامیہ اور تیسرا عدلیہ وجود میں آتے ہیں ۔ مقنہ ہی آئین کا منبع ہے ۔۔ لہٰذا کسی بھی شہری (جمہورے)کو حق حاصل ہے،کہ وہ آئین میں ترمیم کے لئے اپنی رائے اپنے نمائندوں تک پہنچائے یا جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے رائے عامہ ہموار کرے ۔بس اقلیتوں ،خواتین اور سینٹ کے انتخاب کے پس منظر موجودہ نظام کی پاکستانی معاشرے کے لئے مضر خامیوں کی نشان دہی اور ان کی تصحیح کے لئے تیار کردہ یہ تین طرح کی آئینی ترمیم کی سفارشات پر مبنی کتاب ترتیب دینے کا یہ ہی مقصد ہے ۔۔
اب جس کہ جی آئے وہ ہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
قتیل شفائی
ان ترامیم کی مقبولیت اور قبولیتِ کے لئے یقینا ًایک منظم مہم کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ جو اقلیتوں کے انتخاہی نظام کے لئے تو دہائی سے تحریک شناخت کے رضا کاروں نے تندہی سے جاری رکھی ہوئی ہے ۔۔ اقلیتوں کی اکثریت کے موجودہ نظام سے سخت نالاں ہونے کے باوجود اور ان سفارشات کا حامی ہونے کے باوجود پاکستان کی اقلیتوں کے مخصوص سیاسی ،معاشرتی و سماجی رویوں کی بدولت اس میں کوئی ایسی نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہوئی جسے کوئی کامیابی سمجھا جائے لیکن ذمہ دارین و متاثرین تک یہ مسئلہ پہنچا بڑی کامیابی سے ہے ۔دیکھیں اب سینٹ اور خواتین کے انتخابی نظام میں ترامیم کی ان سفارشات پر پچیس کروڑ کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ ؟ وہ ردِعمل ہی ان ترامیم کی مقبولیت و قبولیت کا فیصلہ کرے گا ۔۔ ۔لیکن اس کا نتیجہ جو بھی آئے ۔۔۔میری دانست میں پاکستان کے موجودہ معروضی حالات میں یہ تین بے ضرر سی کسی بھی ریاستی و حکومتی ادارے سے غیر متصادم آئینی ترامیم کی سفارشات وطن عزیز کی خوشحالی ، ترقی وبقاء کی ضامن ہیں ۔بس ہمیں بقول علامہ اقبال
منزل یہ ہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اڑنا
آئین نو سے ڈرنے کی روایات چھوڑنی ہوگی ۔۔ اور ہر پاکستانی کو چھوڑنی ہوگی ۔ اب انھیں مسائل کو ہی لے لیجیے جو اس کتاب کا موضوع ہیں۔ کیا یہ سب سے پہلے ہماری قومی سیاسی جماعتوں کی ذمّہ داری نہیں ہے؟ یا تھی۔؟ بڑے آئینی ماہرینِ کی ذمداری نہیں تھی ؟ یا ہے؟ ۔حقوق نسواں کے لئے متحرک خواتین کی ذمداری نہیں ہے؟ یا تھی؟ یا پھر اقلیتوں کے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکروں کی ذمہ داری نہیں تھی؟ یا ہے؟ لیکِن وہ بھی کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھا سکے۔ دنیا بھر میں قوموں ،کاروباری، حکومتی اداروں ، کو جب اس طرح کے مسائل در پیش ہوتے ہیں۔۔ (جیسے آج کل خواتین آور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی وجہ سے ریاست پاکستان کے تمام آئینی اداروں کو درپیش ہیں ۔)ایسے مسائل کے معاشرے پر مضر اثرات سے خلق خدا کے لئے منفی اثرات مرتب کر رہے ہوں، یاں اداروں کے قیام کے اغراض و مقاصد وہ نتائج نہ دے پا رہے ہوں۔۔ جن کے لئے انھیں قائم کیا گیا ہو تو ایسے مسائل کی وجوہات کی تشخیص اور حل کے لئے ایسے مسئلے بطورِ کیس اسٹڈی ایسے بڑے بزنس، جنگی اور تزویراتی تعلیمی اداروں میں بھجوائے جاتے ہیں ۔جہاں کیس اسٹڈی طریقہ تعلیم پڑھایا جاتا ہے ۔اس طریقہ تعلیم میں درپیش مسئلے پر تفصیلی تحقیق و سوچ بچار کے بعد اسکی درست تشخیص جس میں تین مرحلوں میں طالب علم اس مسلئے کا تعین ،مسلہ ہے کہاں ؟ مسئلہ پیدا ہونے کی خاص وجوہات اور ان وجوہات کے درست تعین کے بعد اس مسئلے کے قلیل المیعاد، وسط المیعاد اور طویل المیعاد حل تجویز کئے جاتے ہیں۔ میری دانست میں اوپر بیان کئے گئے تینوں مسائل جن کے پھر بے تحاشا ذیلی پیداوار مسائل ہیں۔ ہمارے پورے معاشرے پر پڑے ہیں جنہوں نے ملک وقوم اور معاشرے کی بنیادی ساخت کو متاثر کیا ہے ۔۔ میری نظر میں اس کا طویل المیعاد حل صرفِ یہ بے ضرر سی آئینی ترامیم ہیں ۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں