ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ ‘کوپر جوبلی’ کی ریہرسل کے وقت ہم اصلی اسکرپٹ کے ڈائیلاگز میں رد ّو بدل کر لیا کرتے تھے۔ ایک اطمینان ہمیں یہ بھی تھا کہ سسٹر جیما میرینا کو ہم میں سے کسی نے کبھی اردو بولتے نہیں سنا تھا۔ تو ہمیں یہ بھی اطمینان تھا کہ سسٹر کو اردو نہیں آتی۔ انہیں کیا پتہ چلنا، لیکن فئیر ویل سے ایک دن پیشتر تینوں سیکشنز کی کمبائنڈ ریہرسل والے دن اے سیکشن کی کلاس ٹیچر مسز حبیب زہرا ہمارا ڈرامہ سمجھ گئیں۔ انہوں نے سسٹر کو بتانا ضروری سمجھا۔
Sister, I think these girls are taunting Mr. Mazhar.
“سسٹر یہ لڑکیاں مسٹر مظہر کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ “
سسٹر کا ردِ عمل بڑا کول تھا۔ “آئی نو آئی نو”
جب میں سسٹر کے لہجے کی طمانیت یاد کرتی ہوں مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ خونخوار محسوس ہونے والی سسٹر ہماری حرکتوں کو دل ہی دل میں انجوائے کر رہی تھیں۔ ہمارے اسکول چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ سسٹر کینسر کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ بیٹھیں۔
انہوں نے دو سال سی سیکشن کو انگلش پڑھائی۔ ویسے گریڈ نائن ٹین کی تمام ٹیچرز بہت کامپیٹینٹ تھیں مگر سسٹر بہت محنت سے پڑھاتی تھیں۔ انگلش پڑھانے والی عام ٹیچرز کے بر عکس وہ چیپٹرز کے بعد مذکور تمام ایکسر سائزز ہمیں ہوم ورک میں دیتیں۔ ایک ہوم ورک چیپٹر پہلے سے پڑھ کر آنا اور ڈکشنری میں مشکل الفاظ کے معنی لکھ کر لانا بھی ہوتا تھا۔ اور ہوم ورک نہ کرنے پر ہتھیلی پر اسکیل کی ضربوں سے تواضع۔ مگر اسکی نوبت بہت کم آتی تھی۔
یہ واحد ٹیچر تھیں جن کی کلاس میں اردو نہیں بولی جا سکتی تھی۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ کلاس شروع ہونے سے پہلے کسی بات پر میری اور مہفشاں کی کچھ کھٹ پٹ ہو گئی۔ میں نے زور سے کہا ، “مہفشاں”۔ اسی وقت سسٹر اندر داخل ہوئیں۔ انہوں نے معاملہ پو چھنے کے بجائے مہفشاں کی طرف اشارہ کیا۔ “مہفشاں، آؤٹ آف دا کلاس۔”
بیچاری مہفشاں کو میرے جرم کی پاداش میں ایک پیریڈ کلاس کے باہر کھڑا ہونا پڑا۔ اور اس نے پورا دن مجھ سے بات نہ کی۔ شاید بریک کے بعد میں نے شاہی سپاری کھلا کر اسے منایا۔ شاہی سپاری بھی کیا ظالم چیز تھی۔ بندہ کتنا ہی ناراض ہو۔ انکار نہیں کر سکتا تھا۔
لیکن میری باری بھی آنی تھی۔ کچھ عرصے بعد کلاس کے دوران مہفشاں سے میرا جیومیٹری باکس غلطی سے زمین پر گر پڑا۔ میرا اس میں کو ئی قصور نہیں تھا۔ ٹین کا جیو میٹری باکس ہوتا تھا۔ اسکے گرنے سے جو آواز آئی وہ سسٹر کو کلاس کے دوران ناگوار گزری۔
اس دفعہ انکا سوال تھا۔
Whose Geometry box was it?
مجھے مرے مرے لہجے میں کہنا پڑا۔ سسٹر مائن (یعنی میرا ہے۔) حسب توقع یہ پوچھے بغیر کہ گرایا کس نے۔ سسٹر کا دوسرا حکم تھا۔ “تزئین۔ آؤٹ آف دا کلاس۔”
اب کلاس کے باہر کھڑے ہونے کی شرمندگی مجھے جھیلنا تھی۔ اور یہ کلاس بھی راہداری میں تھی جہاں ٹریفک بہت تھا۔
خیر میں فئیر ویل کے بارے میں بتا رہی تھی۔
اب جناب فئیر ویل کے دن جب اصلی تے وڈے ڈائیلاگز بولے گئے تو گریڈ ٹین تو لوٹ پوٹ ہو گیا کیونکہ سر مظہر انہیں کو پڑھاتے تھے اور ہم نے چُن چُن کر ایسے استعارے استعمال کیے تھے جو گریڈ ٹین کی لڑکیوں کو سمجھ آرہے تھے۔ اس دن محسوس ہوا کہ یہ میرا دن تھا۔ جو مل رہا تھا،تعریف کر رہا تھا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ مہفشاں کے امی ابو کچھ ہی مہینوں پیشتر سنگاپور گئے تھے تو وہ اسکے لئے ایک چھوٹا سا کیمرہ لائے تھے جو عام یاشیکا کیمرہ جو اس زمانے میں عام طور سے مستعمل تھا کہ مقابلے میں خاصہ چھوٹا اور استعمال میں آسان تھا۔
اس دور میں کوئی کوئی ہی باہر گھومنے جاتا تھا۔ لیکن ہم دنیا دیکھنے کے خواب بہت دیکھتے تھے اور پتہ نہیں کیوں ان خوابوں کے پورا ہونے کا یقین بھی تھا اس چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے۔
خیر میں بتا رہی تھی کیمرے کا۔
کیونکہ ہم لوگوں کو اسٹیج پر ہونا تھا تو ہم نے کیمرہ یاد پڑتا ہے میری بڑی بہن شمائلہ آپی کو دے دیا۔ عین موقعے پر میری بڑی بہن کو استعمال کرنا نہیں آیا انہوں نے اسے سر مظہر ہی کو پکڑا دیا۔ جس وقت میں ڈائیلاگ بول رہی تھی سر مظہر اسٹیج کے نیچے کھڑے ہو کر ہماری تصویریں لے رہے تھے۔
ڈرامے کے بعد ہم چینج کر کے نیچے اترے تو سر سے ہیلو ہائے ہوئی، انہوں نے بالکل مائینڈ نہیں کیا تھا۔ البتہ جب تصویریں آئیں تو کیمرے کا رزلٹ اچھا نہیں تھا۔ ویسے اسکول کے تمام فنکشنز میں پروفیشنل فوٹو گرافر بلوایا جاتا تھا۔ اس دور میں حیدرآباد کا مشہور فوٹو گرافر فوکس۔
فوکس کی فوٹوگرافی اسٹوڈیو تلک چاڑی پر ہی ہوتا تھا اس زمانے میں۔ یاد پڑتا ہے میں نے اپنی پہلی پاسپورٹ پک وہیں سے کھنچوائی تھی جو آج بھی میرے پہلے پاسپورٹ پر موجود ہے۔
گریڈ ٹین اور گریڈ نائن میرے اسکول میں یادگار ترین دن تھے۔
مگر میں یہ تو بتانا ہی بھول گئی کہ مجھے نائنتھ کلاس میں سائینس نہیں ملی تھی۔ اور میرے ساتھ بہت سے دوستوں کو بھی جس میں مہفشاں بھی شامل تھی۔ کیوں؟ اور پھر کیا ہوا؟
باقی آئندہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں