سفر کرتے کرتےخوبصورت اور سہانے کشمیر میں ہم داخل ہو چکے تھے ، کچھ دیر خطرناک راستوں سے گزر کر سیدھا روڈ آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم پاکستان کے ساٹھویں (60th) بڑے شہر اور ایک طرف پاکستان سے شروع ہونے والے اور دوسری طرف ہندوستان پر ختم والے شہر میں جا پہنچے جس کی بنیاد 1646 میں سلطان مظفر نے رکھی اور وہ انہیں کے نام سے مظفر آباد مشہور ہو گیا ، یہ کشمیر کا دارالحکومت بھی ہے اور سب سے بڑا شہر بھی ، اس شہر میں اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، مدارس ، جامعات ، ہاسٹل ، ہسپتال ، کھیل کے میدان ، شاپنگ مال ، پلازہ ، بازار ، تھوک کی مارکیٹیں اور بڑے چھوٹے گھر تقریباًسب ہی کچھ ہے ، اور اس سب کے ساتھ یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کیلئے ہرے بھرے پہاڑ ، انواع و اقسام کے باغات اور شہر کے بیچ و بیچ بہتا ہوا دریائے نیلم۔
یقین جانیں مظفر آباد شہر بھی ہے گاؤں بھی جہاں مصنوعی حسن بھی ہے اور قدرت کے کرشمے بھی۔
ہمیں اتر کر جو سب سے بڑی مشکل کا سامنا ہوا وہ تھا تلاشِ مسکن ، ہمیں جہاں اڈے پر گاڑی والے نے چھوڑا وہاں سے ذرا اوپر آ کر بازار تھا ، خوب کھانے پینے کے ہوٹل بھی تھے لیکن رہائشی ہوٹل نہ تھے ، کیونکہ سامان کچھ زیادہ تھا اس لئے سب کو چھوڑ کر میں اور محمد تلاشِ مسکن کیلئے نکل پڑے ، کہیں ہوٹل اچھا نہیں ملتا اور کہیں قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہوتیں ، ادھر عبید وغیرہ بھی عبدالباسط کو سامان کے پاس چھوڑ کر دوسری طرف ہوٹل ڈھونڈنے چلے گئے اور ہوٹل ڈھونڈنے کا عرصہ اتنا طویل ہو گیا کہ عبدالباسط نے سمجھا ہم سب کسی پلاننگ کے تحت انہیں سامان کے پاس بٹھانے کے بہانے چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے ہیں ، اوپر سے مصیبت یہ آئی کہ عبدالباسط کے موبائل نیٹ ورک بھی کام کرنا چھوڑ گئے اور یوں سمجھیں کہ جب ہماری عبدالباسط سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو ان کی ہوائیاں تقریباً اُڑی ہوئی تھیں ، اب اس میں محمد اور میں تو سراسر بے قصور تھے کیونکہ ہم بہت پہلے چلے گئے تھے البتہ باقی چار میں سے کوئی دو قصوروار تھے یا تو عبید اور اسماعیل یا خضر اور ابراہیم ، لیکن حتمی قصوروار کا معمہ آج تک حل نہ ہو سکا۔
ہوٹل ڈھونڈتے ڈھونڈتے تقریبا ًایک ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا تو پھر یوں ہوا کہ ہم عبید وغیرہ کو اپنی طرف بلانے کیلئے اور عبید وغیرہ ہمیں اپنے پسند دیدہ ہوٹل کی طرف دعوت دینے کیلئے کال کر رہے تھے ، دوسری طرف چار اشخاص تھے اور اس طرف ہم دو اس کے باوجود کیونکہ ہم جمہوریت سے زیادہ اطاعتِ امیر پر یقین رکھتے ہیں تو وہ سب بھی محمد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہماری طرف آ گئے۔ ۔ہمیں ٹاہلی منڈی (یہ تھوک کا بازار ہے ، جو کراچی کی بولٹن مارکیٹ اور لاہور کی شالمی مارکیٹ کی طرح بہت بڑا نہیں ہے لیکن ہے ضرور) میں ایک ہوٹل ملا جو دریاء نیلم کے کنارے بنا ہوا تھا ، اس کی ہر کھڑکی سے دریاء نیلم نظر آتا تھا ، لیکن یہ اتنا صاف ستھرا نہیں تھا جیسے پی-سی گرین ہوٹل تھا۔
یہاں رُک کر ہم حکومت سے اتنی گزارش ضرور کریں گے کہ مظفر آباد بس اڈے کے قریب رہائشی ہوٹلوں کے انتظام کی طرف توجہ دی جائے ، کیونکہ مظفر آباد آنے والے سیاحوں کی تعداد کم نہیں ہے اور پاکستان پچھلے دو سالوں میں سیاحتی میدان میں کافی آگے آ چکا ہے جس کے پیشِ نظر فوری اقدام کرنا ضروری ہے ، اور ساتھ اپنے قارئین کو ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ حکومتوں کی طرف سے سیاحوں کیلئے بہت سی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں ، جن میں سڑکوں کا انتظام خاص قابلِ ذکر ہے ، جہاں سڑکوں کی صفائی ستھرائی اور مینٹیننس کی طرف توجہ دی جا رہی ہے وہیں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے در پیش آنے والی مشکلات پر بھی بڑی توجہ سے کام جاری ہے ، اکثر ایسا ہوتا کہ ہم سنتے آگے لینڈ سلائیڈنگ ہے اور اب راستے میں پھنس سکتے ہیں لیکن اگلے چند ہی منٹوں میں بھاری مشینری آ جاتی اور پہاڑوں پر سے گر جانے والے پتھروں کو کھائیوں کی نذر کر دیا جاتا اور یوں جلد ہی روڈ کھل جاتا۔
خیر جی ہم رُکے تھے ٹاہلی منڈی کے ہوٹلِ عباسین میں جہاں کچھ دیر آرام کے بعد مغرب ہو گئی ، مغرب کے بعد اسماعیل اور محمد آرام کی غرض سے کمرے میں رک گئے اور باقی ہم سب کھانا لینے کیلئے چلے گئے ، کیونکہ ہمارا طریقہ یہی تھا کہ جس ہوٹل میں رکے ہیں وہاں سے کھانا پینا نہ کریں ، وجہ یہ تھی کہ جو کچھ ڈسکاؤنٹ ہمیں رہائش میں مل جاتا تھا وہ ادھر کھانے میں پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ، ویسے بھی ہم گھومنے پھرنے آئے تھے کون سا ہوٹل میں بند ہو کر بیٹھنے۔
کھانا لینے کیلئے نکلے تو پتا چلا کہ: کھانا تو بس ایک بہانہ تھا اصل تو خضر نے ہمیں مظفر آباد گھمانا تھا ، اس دفعہ ہماری قیادت خضر کے ہاتھ میں تھی اور خضر ہمیں لئے چلے جا رہا تھا ، ایک جگہ سیڑھیاں نظر آئیں تو ہم وہاں سے اوپر چل دیے ، لیکن اوپر کا یہ سفر کافی اوپر تھا ، تقریبا ًآٹھ دس مالے چڑھ کر ہم دوبارہ روڈ پر نکلے تو معلوم چلا ہم نیچے روڈ سے اوپر روڈ پر آگئے ہیں بذریعہ سیڑھی ، یعنی گھومنے سے بچنے کیلئے یہ مشقت اٹھانی پڑی تھی۔۔۔ویسے گھومنے سے ذہن میں آیا کہ لوگ چڑیا گھر بھی جائیں تو کہتے ہیں “ہم گھوم کر آ رہے ہیں” حالانکہ غور کیا جائے تو صرف پہاڑوں کا سفر ہی واحد سفر ہے جس کے بعد حقیقی معنوں میں یہ کہنے کا حق باقی بچتا ہے کہ “ہم گھوم کر آئے ہیں” کیونکہ پہاڑوں کو کاٹ کر روڈ بنائے ہی اس انداز سے جاتے ہیں کہ گھوم گھوم کر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا جا سکتا ہے۔
خیر جی ہم یہاں گھومنے سے بچتے ہوئے سیڑھیوں سے اوپر پہنچے تو ہمارے دائیں جانب موجود پہاڑ زیادہ کھل کر واضح ہوئے ، جن پر گھر بنے ہوئے تھے اور ستاروں کی مانند ان میں قمقمے ٹمٹما رہے تھے ، باقی ہر طرف اندھیرا تھا البتہ اس روڈ پر شاپنگ سینٹر ، کلینک ، ایک بنگلہ اور اشیاء خوردونوش کی دوکانیں بھی تھیں ، جن میں سے دودھ کی دوکان ہمارے لئے اس وقت موضوع بحث بنی جب عبدالباسط نے بتایا کہ یہاں خالص دودھ ملتا ہے ، اور دلیل یہ دی کہ اس دوکان پر “خالص گائے اور بھینس کا ، دودھ دستیاب ہے”
لکھا ہوا تھا ، اب بھلا کبھی آپ نے کسی دودھ والے کے ہاں ایسی بھی تختی پڑی ہے کہ
“ملاوٹ شدہ دودھ دستیاب ہے”؟
نہیں نا!
بس وہاں پر بھی یہی حال تھا لیکن عبدالباسط کو کون سمجھائے کہ بھائی جو “خالص” ہے وہ دودھ نہیں بھینس اور گائے ہے ، اور کہنے کا مقصد یہ ہے کہ “جس گائے یا بھینس سے دودھ لیا گیا وہ خالص جانور ہی تھا” ، یقین نہیں آتا تو دوبارہ تختی پڑھ لیں کہ خالص کی اضافت بھینس اور گائے ہی کی طرف کی گئی ہے نا کہ دودھ کی طرف!
اب اس میں دودھ کے خالص ہونے کی بات بھلا کہاں سے آ گئی؟بس اسی بحث کے چلتے ہم بھی چلتے چلتے ہوٹل پہنچ گئے اور کھا پی کر سو گئے۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں