اتفاقات، رینڈمنس اور ترتیب
اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے ایک فریق ارتقاء کو محض اتفاقات کا مجموعہ قرار دے کر یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ پھر ارتقاء سے مرتب جانداروں کا ایک ایکو سسٹم کیسے بنا اور کس طرح ایک ایک جاندار اتنے منظم اور پیچیدہ ترتیب کے ساتھ قائم ہیں۔ اس سلسلے میں سوال کو اس طرح سے اٹھایا جاتا ہے کہ اگر کسی باکس میں لاکھوں حروف تہجی ڈال کر کھربوں بار ہلایا جائے تو کیا غالب کی شاعری بن سکتی ہے؟ اس اعتراض میں اوپر اوپر سے ہمارے ذہنی تاثر کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے ۔ یعنی عام طور پر ایسا اعتراض کرنے والا ارتقاء کی تفصیلات نہیں جانتا اور اس کے وہ مخاطبین بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی ایسی چیز کا مذاق اڑانے میں ان کا ساتھ دیتے ہیں جو خود کسی چیز کی علمی گہرائی میں جانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ نظریہ ارتقاء باقاعدہ کچھ قوانین فطرت پر منحصر کرتی ہے مثلا میوٹیشن ۔ اور اگر آپ میوٹیشن کی گہرائی میں جائیں گے تو وہاں پر فزکس اور کیمسٹری کے نظریات بھی موجود ہیں۔ بلکہ ایک ماڈل Lowdin DNA mutation model کے مطابق میوٹیشن کی وجہ کوانٹم ٹنلنگ ہے۔ یعنی ارتقاء میں اگرچہ کچھ “واقعے” اتفاقات” ہوں لیکن اس کے پیچھے غیر متضاد اور منظم قوانین قدرت موجود ہیں۔
اس سلسلے میں مزید یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ اگر بات صرف امکانات کی ہی ہے تو ایک سیل سے انسان جیسے اتنے پیچیدہ جاندار جس میں شعور موجود ہو بننے کے کیا امکانات ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ سوال ہے۔ جانداروں کی ایک قسم سے دوسرے قسم کی تبدیلی میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔ اور یہ مکمل طور پر اتفاقی نہیں ہے۔ زمین کے بدلتے حالات اور قدرت کا یہ اصول جو حیاتیاتی بقا کی خصوصیات کو ترجیح دیتا ہے اس بے ترتیبی میں بھی ایک ترتیب پیدا کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اکثر حالات میں ایک جاندار کا ارتقاء دوسرے جانداروں کے وجود پر بھی انحصار کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ کوئی خط مستقیم میں چلنا والا عمل نہیں رہ جاتا۔ علمی طور پر اس کی ریاضی ماڈلنگ نہیں ہوئی اگرچہ اس پر بھی تحقیق چل رہی ہے۔ دوسری طرف اس اتفاقی عمل کو رد کرنے کے لئے جو پوائنٹ پیش کیا جاتا ہے وہ بھی صرف ایک ذہنی تاثر ہے۔ انسانی ذہن میں تین ارب سال سے زیادہ ہونے والے پراسس کا احاطہ کر کے تخمینہ یا اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ تو جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کروڑوں حروف تہجی کو ایک ڈبے میں ڈال کر کھربوں بار ہلایا جائے تو کیا کسی وقت یہ الفاظ ایسی ترتیب اختیار کر سکتے ہیں کہ یہ غالب کی شاعری بن جائے وہ صحیح تمثیل نہیں ہے۔ یہ سوال اٹھانے والے بھی درحقیقت انسان کے دماغ میں پیدا ہونے والے تحیر کو ہی بطور دلیل پیش کر رہے ہوتے ورنہ وہ بھی اس بارے میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کبھی غالب کی شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔
الغرض جلد بازی میں بنائے ہوئے ذہنی ماڈل سے ارتقاء کو رد کرنا آسان نہیں ہوگا اور اگر کسی کو یہ چیز اپیل کرتی ہے تو یہ صرف وہ لوگ ہوں گے جو یا تو سائنس کو گہرائی سے نہیں سمجھتے یا اس تھیوری کو قبول کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر پاتے۔
بندر کی اولاد
یہ مشہور ہوگیا ہے کہ نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان بندر کی اولاد ہے۔ اور اس بات کو نظریہ ارتقاء کے مخالفین ارتقاء کے حامیوں کے لئے مسلسل طعنے کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں اور یہ خاص طور پر سوشیل میڈیا میں واضح ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ارتقاء کے داعی اکثر دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے یہ واضح کرتے ہیں ارتقاء کے مطابق انسان بندروں کی اولاد نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندروں، چمپینزیوں، بونوبوس، نیندرتھل، ہومو ایرکٹس اور انسانوں کے آباواجداد مشترک ہیں۔۔ میرے نزدیک یہاں پر ارتقاء کے داعیوں کا مؤقف کمزور ہے۔ “بندر کی اولاد” والا طعنہ پھر بھی بامعنی ہے۔
ہم انسان، انسانوں کے ساتھ مخصوص قسم کی جسمانی ساخت، رہن سہن، اخلاقیات، معاشرت، نفاست، روحانیت، جمالیات اور اس جیسی دوسری خصوصیات منسوب کرتے ہیں اور انہیں کو انسانی خصوصیات سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں میں اپنے آباواجداد کی نسل کو لے کر ایک جذباتی حساسیت پائی جاتی ہے جس کہ وجہ سے وہ اپنے آباوجداد سے منسوب کسی منفی بات کو قبول نہیں کرتے۔ یہاں پر نظریہ ارتقاء یقینا ہمارے آباواجداد کو ایسے جانداروں سے منسوب کرتا ہے جنہیں “جانور” قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب بھلے وہ جانور بندر ہوں یا بندر نما کوئی اور مخلوق۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی منطقی اعتراض ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بے تکا اعتراض ہے۔ اس اعتراض کا مقصد طعنے اور شوروغل پیدا کر کے نظریہ ارتقاء کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ جو کوئی نظریہ ارتقاء کی اشاعت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے کراہیت یا Deterrent پیدا کرنا ہے۔
ویسے بھی اس نظریہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانوں کے باپ یا دادا بندر تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں نسلوں پہلے انسانوں کے آباواجداد سمندری جاندار، چوہے نما (Rodent) ممالیہ، دو پیروں والے جاندار سے ہوتے ہوئے ارتقاء پذیر ہو کر موجودہ شکل اختیار کی۔ ہوسکتا ہے کہ نسلوں کی اس دوری کے بیانیہ سے بھی کچھ لوگوں کی کراہت میں فرق نہ پڑتا ہو، لیکن جو عقلی طور پر اس نظریہ سے مطمئن ہیں وہ “بندروں کی اولاد” والے طعنوں سے اس نظریے کو ترک نہیں کریں گے۔ خاص طور پر وہ شخص جو جذبات کو اپنی سمجھ پر حاوی ہونے نہیں دیتا وہ دراصل اسی تھیوری کے طرف کھسک کر مزید قریب ہو جائے گا۔ بالفاظ دیگر اس قسم کے طعنے جذباتی لوگوں کو نظریہ ارتقاء کی سے متنفر کریں گے اور اپنے جذبات پر قابو رکھنے والوں کو نظریہ ارتقاء کی طرف دھکہ دیں گے۔ کیا واقعی ہم یہی چاہتے ہیں؟
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں