ہم رات تو مظفر آباد جیسے بڑے اور خوبصورت شہر میں گزار چکے تھے، لیکن سوال یہ تھا کہ آگے کیا کرنا ہے؟
محمد کا کہنا تھا کہ مالم جبہ دیکھے بغیر واپس کراچی جانے کا کوئی سوچے بھی نہیں ، اور اس کا سادہ سا مطلب تھا کہ کوئی بھی ایسا پلان نہ ترتیب دیا جائے جس سے مالم جبہ رہ جائے۔
خضر اور ابراہیم کا بس ایک ہی مطالبہ تھا کہ کہیں بھی لے چلو ہم نے تو پہاڑ پر چڑھنا ہے۔بلکہ ابراہیم کا تو گویا سفر کا مقصد ہی کسی خوبصورت ہری بھری وادی کی آغوش میں جا بسنا تھا جس میں ہر طرف گھاس ہو ، دور دور درخت ہوں ، اوپر صاف ستھرا آسمان ہو اور حدِ نگاہ پر پہاڑی سلسلہ ہو!
جبکہ اسماعیل بھائی نے برف دیکھنی تھی ، بلکہ برف میں کھیلنا تھا یا یوں کہہ لیں کہ برف پوش ہونا تھا۔۔۔
اور ہمارے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ کشمیر ہی گھوم لیا جائے کہ کشمیر تو پھر کشمیر ہے!
اب حالت یوں ہو گئی تھی کہ:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ
ہر خواہش پر دم نکلے
اور ان ساری خواہشات میں سے کسی کا بھی گلا دبائے بغیر ہر ایک کو پورا کرنے کیلئے ہم نے وہ راہ چنی جس کو اردو کے بابائے سفر نامہ نگاری نے کچھ یوں ذکر کیا ہے کہ:
“مالک نے چند منظر صرف آوارہ گردوں کے لئے تخلیق کیے ہیں کچھ دنیا صرف خانہ بدوشوں کے لئے بنائی ہیں کچھ ہوائیں صرف ان کے جسموں کو چھونے کے لئے بنائی ہیں جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہوتا ہے روزانہ ایک ہی بستر سے اٹھنے والے نہیں جانتے کہ کسی اجنبی وادی میں شب بسری کے بعد جب آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر آتا ہے تو اس کے سامنے ایک ایسا منظر ہوتا ہے جو وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور یہ وہی منظر ہوتا ہے جو مالک نے صرف اس کے لئے صرف ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہےـ“
یعنی اب ہم نے آوارگی کا فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک جگہ نہ ٹکیں گے بلکہ گھومیں گے اور ہر نئی صبح کسی نئی وادی کی آغوش میں ایسا منظر تلاش کریں گے جو پہلی دفعہ دیکھ رہے ہوں۔۔۔۔۔
لیکن اس سے پہلے مظفرآباد میں ہمارا اپنے ساتھیوں سے ایک وعدہ تھا وہ پورا ہونا باقی رہ گیا تھا ، سو ہم پیدل ہی گشت کرتے نیلم کے دائیں جانب سے بائیں جانب کو چل دئے ، اور سچ پوچھئے تو یہاں چلنے میں بھی ایک دیوانگی ہے ، ایک سرور ہے ، ایک نظر اٹھاؤ تو کسی دیو ہیکل پہاڑ پر جا ٹکے ، آنکھیں ذرا جھپک کر ایک جانب دیکھو ہرے بھرے باغات سے خیرہ ہو جائیں ، اس منظر سے چشم پوشی کر جاؤ تو کسی نئے حسن سے آشنا ہو جاؤ ، اور جو ذرا حسن سے حسنِ نا اتفاقی سے نظریں جھکا لو تو بہتا ہو دریا داد و تحسین دیتا ہوا نظر آئے!
پل کے دوسرے پار میں نے اپنے ساتھیوں کو ایک خوبصورت بہتا ہوا جھرنا دکھانا تھا اور سارے شوقِ دیدِ آبشار میں یوں چلتے چلے جا رہے تھے جیسے دیدِ یار کو جا رہے ہوں۔۔۔۔کچھ دیر ہم پل پر رکے ، ٹکٹکی باندھ کر نیلم کے بہاؤ کو دیکھا ، چھلانگ لگا کر دوسرے پار نکلنے کے بارے سوچا ، سوچنا تھا کہ مارے ٹھنڈ کے ایک جھرجھری سی آئی ، اور ہم دوبارہ قافلے کو لئے سوئے کوچہ آبشار چل دئے ، دریاء نیلم کے ساتھ مڑتی ہوئی سڑک کے ساتھ ہم بھی ذرا سا مڑے اور پھر سامنے ہی بہتے ہوئے پانی کی آواز کے تعاقب میں ساتھیوں کی توجہ مبذول کروائی ، تو اگلے ہی لمحے بڑی زور سے ہماری کنپٹی بج گئی!
اللہ خیر۔۔۔کچھ غلط ہو گیا کیا؟
“تم اتنی دور سے ہمیں یہ گندا نالہ دکھانے لائے تھے؟”
اب ہمارے اوپر بارش کی برسات کے ساتھ ساتھ ہلکے پھلکے مکوں تھپڑوں کی برسات بھی ہوئی ، قریب ہی گزرتے چند کشمیریوں نے معاملہ پوچھا تو بتانے پر وہ بھی ہنسنے لگے۔۔۔۔کہ کیسے بہتے ہوئے گندے نالے کو شہری لوگ آبشار سمجھتے ہیں!
یہاں ہم نے یہ سبق ازبر کر لیا کہ آبشار ہمیشہ کھل کر بہتی ہے اور جو کچھ درخت کے تنوں سے ڈھانپ دیا جائے وہ اس قبیل سے تعلق نہیں رکھتا۔۔۔۔
خیر اس کے بعد ہم نے تھوڑا بہت مظفر آباد اور گھوما اور پھر اڈے کی طرف چل دئے۔۔۔
“پیر چناسی جانا ہے” ہم نے جاتے ہی گاڑی والے سے بات کی۔۔۔بھائی جان اس کا اڈہ اوپر جا کر ہے۔۔۔
ہم نے رکشے پکڑے اور اوپر اڈے کی طرف چلے گئے ، اس سے پہلے کہ بارش زور پکڑتی ہم نے ایک سوزوکی پکڑی اور ایک بار پھر ہماری بلندیوں کا سفر شروع ہوا۔۔۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں