لاریب اپنے آفس کو نکل چکا تھا، بیگم جان اپنی ترچھی نگہ کا اوچھا تیر ہماری اور فائر کر کے جا چکی تھیں ۔ اور بہو مدھم و معصوم سی مسکراہٹ نما حرکت ادھر سرکا کر نیند کا بقّیہ مکمل کرنے ناشتے کی میز سے اُٹھ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ جب دونو دروازے بند ہونے کا اعلان بالجہر کر چکے تو ہم نے بھی دبے پاوں کچن کی اور پیش قدمی کی۔ صاحبو!گھپلے کی چائے بدستِ خود بنا، بدہن خود پینے میں جو نشہ ہے ، وہ دستِ دِگر میں کہاں ۔ہم نے”پتلا پانی روک کے،دودھ پتّی ٹھوک کے”قسم کی چائے کا ٹمبلر بنایا اور بالکنی میں ٹانگ پر ٹانگ دھر کر بیٹھ گئے۔ اور لگے پتلی پتلی چُسکیاں اور موٹے موٹے چسکے لینے ۔
ابوظبی کے اس چھوٹے سے اسکائی اسکریپر کی بالکنی میں بیٹھ ، اپنےٹانگے* ریلنگ پر دھر، چائے پینے اور نیم سرمائی دھوپ میں بلاشرکتِ غیرے مونگ پھلی کھانے کا سواد ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ پیٹ بھلے بھر جائے، نیّت نہیں بھرتی ۔ چائے کی چُسکیاں لیتے لیتے بے دھیانی میں ہمارا ہاتھ ماضی کے برانڈ کوٹ کی جیب میں جا اُترا۔ ہم نے بسم اللہ کر کے لپّ بھر “دینہہ پھیر” (سورج مکھی کے بیج) نکال سرِعام دھرے اور لگے مزے لینے ۔ اقتدار کی طرح چُغلی اور چلغوزے کا نشہ بھی سر چڑھ کر بولتا ہے ، پھر سیدھا سادا بندہ بھی بندے کا پُتر نہیں رہتا۔پَل پَل ہل من مزید کا تقاضہ کرتاہے۔ ہم “ککو کی نکّی” پر دھوپ کے ساتھ دینہہ پھیر پھانک رہے تھے کہ “پارے ڈھاکے” غوغا بلند ہوا۔۔۔۔ ” لوکو وے لوکو ! اس غُنڈے نوں روکو۔۔۔۔۔”۔ اس واویلے پر اِدھر اُدھر سے چار ہاتھ لپکے اور ہمارے ہاتھ سے چائے کا کوپ سلب کر کے لےگئے۔(ثابت ہوا کہ گھر والی سوئی اور موُئی ایک جیسی ہرگز نہیں ہوتی، اُس کے کان چُسکی پر لگے رہتے ہیں۔ )
صاحبو! چائے کا پیالہ چھِن جائے تو چنگا بھلا بندہ بھی “بے بالانا “(بےدست و پا )ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہم بھی آخر بندہ بشر ہیں ،بے تیغ نہیں لڑ سکتے۔ چنانچہ ہتھیار ڈال ، جنگی قیدی ہو گئے۔ اسی قید و بند میں کیادیکھتے ہیں کہ دُور نیچے دھرتی پر اپنے چاچا علی حیدر کا ہوٹل بھخا ہوا ہے۔ مِشری بھائی اور ببّولی بھابی کے “سنڈے”ہوا میں گتھم گتھا ہیں ۔ ہٹو بچو کا واویلا ہے ۔۔۔۔ پوٹھی اور راولاکوٹ کے نمائندہ سانڈوں کا جوڑ پڑا ہوا ہے۔ ہردو برادریوں کی عزتیں متحارب بھینسوں کے کھُروں سے بندھی ہوئی ہیں ۔اُدھر سیاسی ٹیکری کی چوٹی پر تشریف فرما دو گروہ سنڈوں پر بے آواز سٹّہ لگائے بیٹھے ہیں ۔معاً اک ہا ہوُ اور ہٹو بچو فضا میں گونجتی ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ “شُرطے”(پولیس والے) “یلّہ یلّہ” کا “ہلّہ ” بول کر “جبّر” (ہرا بھرا میدان) خالی کروا
2
رہے ہیں۔ عربی میں ہانک ڈانٹ سُن کر ہم نے پیچھے اور نیچے دیکھا تو ابوظبی کی شارع الجوازت (پاسپورٹ روڈ) کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے لان مختلف سانڈوں کے “جَبّـر”(میدان کارزار) بنے ہوئے ہیں ۔ یہاں منگ تھوراڑ کے بیچ مقابلہ ہے، وہاں باغ کوٹلی اور پلندری راولاکوٹ کے بیچ “پِڑ” پڑا ہوا ہے۔ اِس پار ملباری کا کیفیٹیریا تماشائیوں کو کڑک چاء مہیّا کر رہا ہے، اُس پار اپنے مری وال کا “راجہ ہوٹل اینڈ ڈھابہ” لان ٹو لان کل کے تازہ پکوڑے سپلائی کررہاہے۔ اس شارع پر ہر ویک اینڈ یا چھُٹی والی رات “انّ” مچا ہوتا ہے۔ دوُر پار سے “گرائیں” یہاں جمع ہوتے ہیں اور سبزے کا “سبز اَلی” کر کے چلے جاتے ہیں ۔ اُس روز بھی یہی کچھ جاری تھا کہ “شُرطہ” (پولیس ) کی گاڑی بلدیہ کے ڈمپروں سمیت حملہ آور ہوئی اور تماشایوں کے علاوہ مبیّنہ سانڈوں کو بھی اٹھا لے گئی۔ سفارت خانہ پاکستاں نے اپنی ضمانت پر تماشہ اور گرفتار تماشائی رہا کروائے ۔ اس کے بعد آج تلک ابوظبی شہر کے کسی لان میں کسی “پردیسی” نے آلتی پالتی ماری ، جوس کے خالی ڈبـے پھینکے نہ ہی روکھی پھیکی چوکڑیاں بھریں۔ یہاں تک کہ”باغیوں”کا باغ ، اپنے جیالے “،منگیوں” کا ڈیرا اور راولاکوٹیوں کا “لالہ زار”بھی اُجڑ کر رہ گیا۔ اب سارا زور اُس ویلفئیر سوسائٹی کے دفتر پر تھا جو چھڑوں کے ایک فلیٹ میں فرشی نشست فرما تھا۔
ہم بالکنی سے نیچے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ متیالمیرہ کے کٹھّے اور ابوظبی کے اِس ڈھاکے میں آخر فرق کیاہے۔۔۔؟ ،شریف آدمی ہردو کو اُوپر سے دیکھے تو بے اختیار اُلٹے پیروں پیچھے سرک لے۔ کوئی منچلا دوُر نیچے”وٹّا “مارکر آبشار میں کما حقہ ارتعاش پیدا کرنا چاہے تو اُس کا رانجھا راضی ہو تو ہو، “چھلّ” نہیں اُچھلتا۔ اس کے باوجود”وٹّا وگا” دیکھنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟۔بہت ہوا تو تھوڑا سا پانی اُچھلے گا ۔ اورہم بھی اتنا ہی چاہتے تھے۔ یہی سوچ کر ہم نے چُن کے چپٹا وٹّا دوُر نیچے “ڈاب” میں مارا ، وہ جھاگ میں کہیں گم ہو گیا ، ایک چھینٹا تک نہ اُچھلا۔معلوم ہوا ارتعاش صرف ٹھہرے پانی میں اُٹھتا ہے، مرتعش میں نہیں۔چنانچہ تھک ہار کر ہم اپنی آنے والی تھاں پر آگئے۔ پھردودھ چِٹٌے صابون سے ہاتھ منہ دھو،نئے کپڑے پہن نکل لئے۔
اسی سڑک پر چلتے چلتے اگلے چوک پر روانی میں ہم اپنے ماضی قریب میں گھُس گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سگنل کے فوراً بعد پہلی بلڈنگ کے پہلے فلور میں ہمارا ڈیرا آباد ہے۔ اس فلیٹ کے ایک کمرے پر چھ باغی راجگان بنفس نفیس قابض ہیں۔ اس کمرے کو “باغیوں کا ڈیرا” کہا جاتا ہے۔ ڈیرے کے سربراہ کا نام راجہ اکبر خان ہے۔اور ضلع باغ کی معتبر سیاسی و کاروباری شخصیت راجہ یاسین خان کے کزن ہیں ۔ دوسرا تنگ و تاریک کمرا مشہور شاعر میر تنہا یوسفی اور اُن کے بردارخورد اقبال کے تصرّف میں ہے۔ تیسرے کمرے میں ہم اُستاد شاعر شفیق سلیمی کے ساتھ مقیم ہیں ۔ اس ڈیرے کے کامن میں جمعرات کی جمعرات شامِ غریباں بپا ہوتی تھی ، جسے شعری نشست بھی کہا جاتا رہا
3
ہے۔ اس نشست میں شاید ہی کوئی نچلا بیٹھتا ہو۔ ہمارا کام تو میزبان و مہمان شعرا کے گرے پڑے مصرعے اُٹھانا اور بات بے بیت واہ واہ اور وقفے وقفے سےچاء ہیش کرنا ہوتا رہا ہے۔ اس ڈیرے کی ایک خوبی یہ بھی رہی ہے کہ یہاں احمد ندیم قاسمی، سـید ضمیر جعفری، جمیل الدیں عالی، مجتبی حسین، امجد اسلام امجد،عطاء الحق قاسمی،پیرزادہ قاسم، انور مسعود، حسن رضوی، نجم الحسن رضوی، ع س مسلم ،پروفیسر عنایت علی خان ، ڈاکٹر زبیر فاروق ،ضیا ءالحق قاسمی، اسلم کمال، سیّد بشیرحسین جعفری،ڈاکٹر زبیر فاروق، شکیل آزاد، ظہور جاوید، یعقوب تصوّر،اسلام عزمی، خورشید خان خورشید، راجہ محمد احمد، سعدیہ روشن، تسنیم عابدی، عطاالرحمن باغی، فاطمہ زہرا جبیں اور اظہار حیدر جیسے بہت سے بکمال ادیب و شاعر رونق افروز رہے ہیں۔(ہمارے کیسہ میں ان سب کی یادوں کی چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں محفوظ ہیں)۔۔۔۔۔۔۔
چند تصویرِ بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
لیکن یہ بھی ہے کہ یکسر خالی ہونے کے باوجود ہم بے سروساماں نہیں ہیں ، محولہ بالا مہربانوں کی قدم رنجہ فرمائیاں اس خالی گھر میں نقش ہیں ۔
(جاری ہے)
””””
۔۔۔۔۔۔۔۔ * بیٹا بچپن سے ہی ہماری پرسنلٹی سے خار کھاتا تھا ۔۔۔۔ہماری باوقار ٹانگوں کو “ٹانگے” کہتا تھا۔
””””””””””””””””””””””””””””””
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں