میرے نزدیک بہترین تجربہ اور سیکھنا فطری ماحول سے منسلک ہے کیونکہ فطرت سے منسلک حضرات ہزاروں رنگوں اور نظریات سے واقف ہوتے ہیں۔ ہمیں صرف بنگاہ محترم فطری وائبز کو بہترین انداز سے مدعو کرنے کی دیر ہے اور وہ ہمارے ہمدردی بھری دعوت کا ٹھکرانا اپنی توہین سمجھتی ہے۔ یہ یونہی ہے کہ ایک قدم آؤ دو آؤں گا، چل کر آؤ دوڑ کر آؤں گا! فطرت سے مکالمہ دراصل گفت و شنید ہے، مکالمہ ہے جہاں سننا سمجھنا زیادہ محترم تصور کیا جاتا ہے۔ میرے کہنے کے درست مطالب نیچے دی گئی لکیروں میں پنہاں ہیں:
ایک جگہ کافی (coffee) کا تذکرہ چل رہا تھا کہ یہ سانسیں رواں کرتی ہے۔ نسوں میں بہتی جاتی ہے اور تسکین تسلیمات آداب اور دیگر تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے۔ ایسا ہی ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ بصورت دیگر دل و دماغ جسے قبول کر لے وہی جام ہے اور وہی آرام ہے بھی ایک زاویہ نظر ہے۔ چائے بھی کافی کی طرح ایک عجیب چیز ہے۔ اس بارے میں تفصیلات لکھی جا سکتی ہے۔ ہر بار چائے مختلف انداز و اطوار ، طور طریقے اور طرزِ تعمیر بتاتی ہے۔ جنگل میں چائے پینا مختلف اور انتہائی منفرد نوعیت ہے۔ ناشتے میں لینا ایک مختلف سوچ ہے۔ رات کی چائے، صبح کی چائے، درخت کے نیچے چائے، پیالی میں چائے، پیالے میں چائے، چینٓک میں چائے، سردیوں میں چائے، گرمیوں میں چائے، اتوار کو چائے، منگل کو چائے، بسم اللّٰہ کرنے سے پہلے چائے، اختتام پہ چائے، صدق دل سے چائے، رومانوی اعتبار سے چائے، ہنسی میں چائے، کھلکھلاہٹ میں چائے، غصے میں چائے، دھوپ میں چائے، انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر چائے، بسکٹس کے ساتھ چائے، ابلے ہوئے انڈے کے ساتھ چائے، عشائیے میں چائے، دعوتِ طعام پہ چائے، پچاس والی چائے، سو والی چائے، ڈسپوزیبل میں چائے، پرچ میں چائے، ڈھابے پہ چائے، ورکشاپ پہ چائے، میٹنگ میں چائے، سیر و سیاحت کے دوران چائے، بحث و مباحثے کے دوران چائے، سیاسی گفتگو اور چپقلشوں کے بیچ چائے، مکالموں مناظروں میں چائے، خوشی غمی میں چائے بہت سارے منفرد موضوعات ہیں۔
یہاں سے یہ بات بہتر سمجھ آسکتی ہے کہ چائے دراصل چہ معنی دارد؟ چائے بذات خود پتی، چینی اور دودھ کا کمبینیشن ہے اور دراصل کمبینیشن ہی رازِ محبت اور الفت ہے۔ آج جب چائے بنائی تو چیزوں کو اس ترتیب سے یکجا کر کے آگ پہ پکایا گویا پک جانے کے بعد حلق تک پہنچ جائے گی۔ نسوں میں بہے گی۔ ایسا ہی ہو رہا تھا۔ دریں اثنا ایک تریر خوبصورت لمبی دم والا پرندہ سر سے اوپر انجیر کی ٹہنی پہ آیا اور پروں کی مدد سے محظوظ کرتا رہا۔ یوں چائے پیتے جانا ایک سوچ سے منسوب ہوگیا! رومانوی اعتبارات کھلتے چلے گئے۔ اقرار بااللسان کیا۔ دل گواہ بن گیا! دماغ چالو ہونے لگا۔ آنکھیں چمکنے لگیں۔ ہوائیں داستانیں رقم کرتی گئیں۔ شعور بیدار ہوا اور لکھنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی! کمال جگہ کا بھی ہوتا ہے لیکن جگہیں بدلنے سے زیادہ نظر بدلنے کی ضرورت ہے، سماعت میں تبدیلیاں رونما ہونی چاہئیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں