لاہور گردی – سانجھا پیر/ ڈاکٹر محمد نعیم گھمن

سکھوں کی بڑی تعداد سورج ڈھلتے ہی امرتسر کے سرحدی دیہاتوں سے باڑ کو عبور کرکے اک چھوٹی سی کھڑکی سے گزر کر سانجھا پیر پہنچ چکی تھی ۔قدیمی بوہڑ کے درخت کے نیچے بسین ،ٹھٹہ ڈھلوں ،ایچو گل کے رہنے والے مسلمان جمع تھے ۔سرحد کے دونوں اطراف اس میلے کی خاص تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ۔بچے ،بوڑھے ،جوان اور خواتین بلا تفریق مذہب سانجھا پیر کی درگاہ پر موجود تھیں ۔دونوں ملکوں کی افواج کے جوان ہر شخص پر نظروں کے کڑے پہرے لگائے ہوئے تھے ۔لوگوں کو آج ان فوجیوں کی چنداں پرواہ نہیں تھی ۔وہ سانجھا پیر کی بارگاہ میں پہنچ کر آسودہ ہو جاتے اور پھر ملکر محبت کے گیت گاتے تھے ۔بھارتی شہریوں کے لیے الگ دروازہ ہے اور پاکستانی عقیدت مندوں کے لیے سامنے والا دورازہ ہے ۔پہلے پہل تو دونوں دیسوں کے باسی شام کے وقت اکٹھے حاضری دیتے تھے ۔ہلکی کشیدگی نے حالات کا دھار بدلا سانجھا پیر دربار پر وقت تقسیم کر دیا گیا ۔دونوں اطراف کے لوگ بے بسی کی تصویر بنتے چلے گئے ۔امرتسر کے سرحدی دیہاتوں کے گردواروں کی منڈیروں پر بیٹھے پرندے کو ہی یہ آزادی میسر تھی کہ وہ شام کے وقت سانجھا پیر حاضری دیتے اور کچھ تو بوہڑ کے درخت پر ہی رات گزار لیتے تھے ۔اب تو یہ حالت ہے کہ بھارتی شہریوں کو سانجھا پیر حاضری سے روک دیا گیا ہے ۔تین سو سال سے ان دیہاتوں کی تہذیبی جڑت قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔
امرتسر کے تینوں گاؤں دھاریول ،رانیاں اورپونڈری کے مکین سانجھا پیر سے عشق کرتے ہیں ۔ان دیہاتوں کے مقابل لاہورکے دیہات ایچو گل اور ٹھٹہ ڈھلوں ہیں ۔دونوں اطراف کے لوگ سانجھا پیر سے گہری عقیدت رکھتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے تک دونوں اطراف کےلوگ تحائف کا بھی تبادلہ کرتے تھے ۔
سانجھا پیر کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ۔ان کے بارے میں روایت ہے کہ تین سو سال پہلے اس بزرگ نے اس جگہ ڈیرہ لگایا تھا ۔یہ ہندو کسان کی زمین تھی ۔گلاب شاہ نے ہندو کسان کی زمین تصوف و معرفت کا گلشن بنا یا ۔اس ہندو نے بھی گلاب شاہ کو رہبر جانا اور مسلمان ہوا ۔اس کی قبر بھی گلاب شاہ کے قدموں میں ہے ۔جب تقسیم کا نقارہ بجا تو قتل و خون کی اک لکیر سات ہزار سالہ تہذیبی جڑت کو دو حصوں میں تقسیم کر گئی ۔تقسیم برصغیر درحقیقت تقسیم پنجاب تھی ۔دونوں اطراف سے لوگ مہاجر بنے ۔خدا کی قدرت کہ سانجھا پیر کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ۔سینہ بہ سنیہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی سپاہی ہر روز سانجھا پیر کے مزار کو دو حصوں میں تقسیم کر کے تار لگاتے ۔جب صبح ہوتی تو وہ تار احاطہ دربار کے باہر ہوتی کبھی وہ ہندوستان کے علاقے میں پڑی ہوتی تو کبھی وہ پاکستان کے علاقے میں پھینک دی جاتی ۔کئی دن یہ کہانی چلتی رہی ۔ایک رات ہندوستانی سکھ آفیسر اور پاکستانی آفیسر نے اپنے اپنے جوانوں کے ساتھ پہرا لگا دیا .جب رات کا پچھلا پہر ہوا تو اک بزرگ نظر آئے جھنوں نے تار کو پکڑ کر مزار کی حدود سے باہر پھینک دیا ۔دونوں اطراف کے فوج کے جوان حیران تھے کہ یہ ماجرا کیا ہے ۔سکھ آفیسر اور پاکستانی آفیسر نے صبح ہوتے ہی اعلان کیا کہ ہم تار اس مزار کے سرہانے کی طرف کچھ جگہ چھوڑ کر لگائیں گے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مزار کو تقسیم کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے ۔
اس بزرگ کا نام اسی دن سانجھا پیر پڑا کیوں کہ سکھ اور مسلم جوانوں نے مل کر نعرہ لگایا کہ یہ ہمارا سانجھا سائیں ہے ۔ مجھے یقین ہے کسی جوان نے پنجابی لہجے میں نعرہ مستانہ بھی بلند کیا ہو گا کہ فقیر درویش،جوگی ،ملنگ اور بھگت سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ان کا مذہب انسان سے پیار ہوتا ہے ۔یہ آواز آج بھی سرحدوں کے دونوں طرف گونج رہی مگر اس کو سننے والا کوئی نہیں ہے ۔اس دن سے لیکر آج تک سانجھا پیر سرحدی دیہاتوں میں یکساں شہرت رکھتا ہے ۔سانجھا پیر کا سر ہندوستان میں اور دھڑ پاکستان میں ہے ۔ایچو گل کے رہائشی آصف قادری دربار کے انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں سانجھا پیر کا میلہ ہمارے ثقافتی اور تہذیبی سانجھ کا عکاس ہوتا تھا مگر اب ہندوستانی زائرین کو سانجھا پیر آنے کی اجازت بہت کم دی جاتی ہے ۔پرانے بزرگ زمین کا پیوند ہو چکے جو سانجھا پیر کے عقیدت مند تھے ۔اب نئی نسل کو کیاخبر ان کھیتوں کھلیانوں کی خوشبو سات ہزار سال سے سانجھی تھی جس کا حقیقی مظہر سانجھا پیر تھا ۔اب عصر کی نماز تک کچھ بھولے بھٹکےزائرین رینجرز کے کڑے پہرے میں سانجھ پیر حاضری دیتے ہیں ۔عرس کے موقعہ پر خوب رونق ہوتی ہے ۔میں سانجھا پیر مزار کے احاطے میں قدیمی بوہڑ کے درخت تلے کھڑا تھا میرے سامنے ہندوستان تھا مگر میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔مجھے اس بات کی خبر تھی کہ ہر کوئی سانجھا پیر تھوڑی ہوتا ہے ۔میں نے معظم باجوہ اور حافظ جہانگیر باجوہ کو کہا کہ کاش ہمارے ساتھ ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب ہوتے تو فرماتے چلو یار امرتسر چکر لگا آئیں ۔
سانجھا پیر کی درگاہ پر مجھے یوں لگا میں استاد محترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے ہمراہ کھڑا ہوں اور ہمارے سامنے عبد اللہ حسین ، (اداس نسلیں )قرۃالعین حیدر (آخر شب کے ہمسفر )خدیجہ مستور (آنگن )مستنصر حسین تارڑ (راکھ ،خس و خاشاک زمانے کے)،راجندر سنگھ بیدی ،بلونت سنگھ ،کرشن چندر،گوپال متل ،گلزار ،کنہیا لال ،فیض احمد فیض ،اے حمید اور پطرس بخاری اپنی اپنی تصانیف تھامے کھڑے ہیں ۔سب بے چینی سے کسی کا انتظار کر رہے تھے ۔شاید وہ سارے بادہ خوار منٹو کے منتظر ہیں ۔جیسے ہی منٹو ہاتھ میں جام تھامے سانجھا پیر کے احاطے میں داخل ہوا تو سب نے کہا منٹو ہماری تصانیف کیا ہوئیں ۔آپ دیکھو یہ ہمارے سامنے ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے شاید ۔منٹو نے یہ بات سنی نے تو اس نے سر کو ہلکی سی جنبش دی ۔ سب کی آنکھوں میں اثبات کے اشک تھے مگر زبانیں خاموش تھی ۔
ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں
ہمارے خون میں گنگا بھی چناب بھی ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply