جے سجن دانا ہوندے نہ کدی رسوا ہوندے/ اعظم معراج

ڈی ایچ اے کی 3 سال 3 مہینے 3 دن کی نوکری سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ایک سال رئیل اسٹیٹ کے تین دفاتر میں تھوڑا ,تھوڑا وقت گزارنے کے بعد, جب جولائی یا اگست 1987 میں صادق سنز پر باقاعدہ اسٹیٹ ایجنٹی شروع کی تو وہاں پیٹر یوسف بھائی عرف لالہ پیٹر ( مرحوم) کے پاس ایک صاحب اقبال قمر آتے تھے ۔۔یہ پاکستان بننے کے بعد بقول انکے کراچی میں واقع پاکستان کی پہلی کمرشل بلڈنگ قمر ہاؤس کے مالکان میں سے ایک تھے۔ایچیسن کالج لاہور میں چھوٹی جماعتوں میں عمران خان کے کلاس فیلوز میں سے تھے۔۔ کرنال یونیورسٹی امریکا سے فارغ التحصیل تھے۔ اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق ،خاصے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود انتہائی دؤر اندیش،بلکہ زیرک ،کائیاں کاروباری تھے ۔انکے کاروباری مشوروں میں ہمیشہ ایک دانش کا پہلو ہوتا تھا ۔۔ چند مہینوں بعد ہی مجھ سے انکا بہت اچھا تعلق بن گیا ۔۔اپنے سارے خاندان کی زمین جائیداد لینے دینے کے فیصلے وہ ہی کرتے اس لئے ہمارے پاس انکا خاصہ وقت گذرتا تھا ۔ایک دن ان کے سامنے میں نے کسی کو بہت ہی پر یقین انداز میں سرمایہ کاری کے لئے پروپوزل دیا ۔ہمارے کسی بھی کلائنٹ نے اس پر کان نہ دھرے یا میں کسی کو بھی قائل نہ کر پایا ۔۔انکے پاس ان دنوں پیسے کھلے نہ تھے۔ لیکن وہ اس پروپوزل پر میرے جتنا ہی یقین رکھتے تھے۔۔ جب وہ پراپرٹی بک گئی تو انھوں نے مجھے مشورہ دیا آج کی تاریخ ،دن لکھ لو اس پلاٹ کی قیمت وغیرہ لکھ لو ۔۔ اور مسلسل اسے مانیٹرنگ کرتے رہو ۔۔جب چھ مہینے، سال بعد اس کی قیمت آپ کی توقعات کے عین مطابق ہو جائے تو اپنے جن جن کلائنٹس کو تم نے قائل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان میں سے جنہوں نے آپ کے نقطہء نظر سے اختلاف کیا ہے۔انھیں فون کرکے کہ یہ ضرور یاد کروانا ۔میں پوچھا سر اس سے کیا فائدہ ہوگا ۔۔ وہ کہنے لگے آئیندہ وہ آپ کے پروپوزل پر ذرا زیادہ دھیان دیں گے ۔ یہ 1989یا 1990 کی بات ہے ۔۔ اس بات کو 34 سال ہو گئے میں نے زندگی بھر اس مشورے پر عمل نہیں کیا۔بلکہ زندگی میں ایسے ہی اور کئی صاحب علم اور بڑی کاروباری شخصیات کے ساتھ نوجوانی میں بڑا قریبی تعلق رہا ۔۔ لیکِن میری سیکھنے کی حس خاص کر کاروباری گر سیکھنے کی حس بہت ہی کمزور ہے ۔۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے اپنی دوہرے کی مہم اور آج کل دنیا کی آبادی کے اعتبار سے پانچویں بڑی اور ایٹمی ریاست اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کی بدولت جس بحران میں مبتلاء ہے ۔۔اس کی وجہ سے یہ بہت پُرانا مشورہ یاد آگیا ۔۔ میں نے 2012 سے اقلیتوں کے انتحابی نظام پر تحقیق شروع کی۔ 2013 میں پاکستان کی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر دوہرے ووٹ کے مطالبے کو تاریخی پس منظر اور مکمل لائحہ عمل کے ساتھ لکھا ۔جسے جنگ اخبار کے سینئر صحافی اکرام خان نے 2013 کے انتحابات سے چند دن پہلے جنگ اخبار کے میگزین کے دو صفحات پر چھاپا۔
اسکے بعد اس مکمل لالحہ عمل و مطالبے کے کتابی صورت میں کئی اردو اور سندھی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اس کے کے بارے میں آگاہی دنیا بھر تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضآ کاروں نے کتابوں ،کتابچوں ،قومی و کمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،سیاسی، حکومتی ، ریاستی و دانشور اشرفیہ کو خطوط ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین دونوں فریقوں کو آگاہی دینے کی ایک منظم مہم شروع کر رکھی ہے ۔ میری اور میرے ساتھیوں کی یہ کوششیں سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں ۔۔ آج میں آپ سے وہ کوششیں شیئر کرتا ہوں ۔ جنھیں انگریزی میں بیک ڈور( پچھلے دروازوں) کی کوشش کہہ لیتے ہیں ۔۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو میں نے اعلیٰ سطح کی کوشش یہ کی ۔۔کہ ماضی قریب کی مقتدرہ میں شاملِ ایک اعلیٰ عہدیدار مسیحی جو مقتدر ترین سابقہ اعلیٰ قیادت کے قریب تھے۔۔ ان سے گزارش کی، کہ وہ صاحب سے بات کریں۔ میرے لئے یہ بات انتہائی خوشگوار ،حیرانگی کا باعثِ تھی ،ک وہ پہلے ایسے شخص تھے۔۔ جو اس پورے مسلئے کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے ۔۔انھوں نے فوراً بات کرنے کی حامی بھری۔۔۔ بات کرنے کے بعد مثبت جواب آیا ۔ لیکِن اب اندازہ ہوتا ہے۔۔ وہ جواب صرفِ مثبت ہی کیوں رہا۔۔نتجیہ کیوں نہ ہؤا؟ ۔۔ کہ سابقہ بڑے صاحب تو خؤد” قومی و بین الاقوامی مفاد “میں حالاتِ سے چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے۔۔ انھوں نے تو ازرہ مروت دوست کو ہاں کہہ دی ہوگی ۔۔ورنہ اس تناظر میں ان ایک کروڑ خاک نشینوں کی کیا اہمیت ہوتی۔ پھر بہت عرصہ مختلف چینلز سے سیاسی ،دانشور،و ریاستی اشرفیہ سے گذارشات کرنے کے بعد جب میں نے حکمت عملی تبدیل کی اور چاچا کہلوانے کے دیہاتی ڈاکٹرائن کی بنیاد پر سیاسی اشرفیہ کو اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ بتانا شروع کیا کہ اس میں اقلیتوں سے زیادہ آپ لوگوں کا کیا فائدہ ہے ۔۔
تو سب سے پہلے میرے رئیل اسٹیٹ کے دوست محمد ندیم قاسم خان صاحب نے میری سابقہ پی ٹی آئی ایم این اے کرامت کھوکھر سے بات کانفرنس کال کروائی اور انھوں نے خود پی ٹی آئی کی محترمہ عندلیب سے لابنگ کی جس کے نتیجے میں بقول ندیم خان صاحب انھیں محترمہ عندلیب نے بتایا کہ میں نے اور چوہدری فؤاد نے سابقہ وزیراعظم عمران خان سے بات کی ، انکا جواب تھآ ۔ کہ بلکل یہ مسلہ ہم حل کریں گے لیکن اگلی دفعہ آنے کے بعد ۔۔سیاسی حکیم، (ڈاکٹر نہیں) کیونکہ ڈاکٹر مرض کا نہیں فوری تکلیف کا علاج کرتے ہیں۔۔ جب کہ حکیم مرض کا علاج کرکے بیماری کو جڑ سے ختم کرتا ہے ۔ دانشور سیاسی طور نصف صدی سے سیاسی متحرک ، سماجیات کے ماہر لکھاری فرخ سہیل گوئندی کے تعاون سے میں نے یہ مقدمہ بابر اعوان کو ٹیلیفون پر پیش کیا ۔ لیکِن انکی کی ہوائیں ہی اور تھی لہٰذا “ککھ نہ ہلیاں”معتد دیگر پی ٹی آئی اعلیٰ عہدے داروں سے بابر گوشی نے ٹیلیفون پر کانفرنس کالز کروائی۔۔ جن میں سابقہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی شامل تھا ۔ چوھدری اعجاز سے تفصیلی بات کی انھوں نے بھی کہا بات سمجھ تو آتی ہے۔میں نے ان تمام حضرات کو ضمنی انتخابات میں اس اعلان کے متوقع فوائد سے آگاہ کیا۔ لیکِن انفرادی مفادات کی ایک افراتفری ہر شخصیت سے بات کرکے محسوس ہوئی، کسی کو پارٹی مفاد پر غور کرنے کے لئے سنجیدہ نہ پایا کراچی سے ایم این اے عالمیگر سے بات کی، اس نے سنجیدگی سے بات سنی آور اسکے کہنے پر میں نے سارا مواد اسے بجھوا دیا ۔۔ نتیجہ زیرو کیونکہ اس پروپوزل میں پوشیدہ پیغام اجتماعی مفاد کا تھا ۔۔پی ٹی آئی کے نقوی صاحب نے تسلی سے بات سنی اور کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔۔ پی ٹی آئی والوں سے مجعوعی تجربہ یہ رہا۔کہ 2018 میں وہ گل ہو گئی موڈ میں تھے جب کہ 2024 سے پہلے وہ گل مک گئی کے سوگ موڈ میں تھے۔ پھر میں نے سیاسی طور پر متحرک برطانیہ کے مسحیوں کو کہا جاؤ ن لیگ کے قائد نواز شریف کو آسکا لالچ دکھاؤ۔۔ کس طرح ایک بے ضرر جملے سے یہ پاکستان کے ہر حلقے میں پھیلے تقریبا پچاس لاکھ اقلیتی ووٹرز آپکے کے حق میں متحرک ہونگے ۔ سب نے آئیں بائیں شائیں کی پھر تحریک شناخت کی ایک رضآ کار تیار ہوگئی۔ اس نے سابقہ وزیراعظم نواز شریف سے برطانیہ سے آنے سے پہلے وہاں ملاقات کی ۔۔لیکن گل ہوگئی ڈاکٹرائن بندے کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔۔ بجائے اس کے کہ وہ اس 20قومی اور 50صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر یقینی کامیابی کے ٹپ کو سیریس لیتے انھوں نے اس رضاکار ( جنھوں نے نام بتانے سے منع کیا ہے) سے کہا کہ آپ ایم پی اے راحیلہ سے بات کریں۔اس ملاقات کے ریفرنس سے میں نے مسلم لیگ ن کے پنجاب کے اڑتیس ہزار اقلیتی کوآرڈینیٹرز کی غیر اقلیتی چیف کوآرڈینیٹر ایم پی اے ن لیگ راحیلہ سے بات کی۔۔نتجیہ حوصلہ افزا نہ دیکھ کر پھر میں نے سہیل وڑائچ سے اپنی پرانی یاد اللہ کے ریفرنس سے پوچھا چوہدری صاحب آپ بتائیں کے نواز شریف کو ان کے مفاد میں مشورہ آپ دیں؟ تو کارگر ہوگا؟ یا عرفان صدیقی صاحب کے کہنے سے یہ بیل منڈھے چڑھے گی؟ انھوں نے کہا “عرفان صدیقی صاحب کے کہنے سے”۔انھوں نے صدیقی صاحب کا نمبر بھی عطاء کیا ۔۔ میں نے انکے ریفرنس سے بات کی۔۔ اتنے بڑھے لکھے ،شاعر ،لکھاری،دانشور بھی گل ہوگئی کے سحر میں لگے ۔۔ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے ۔کہا کے مسلہ وائس میسج کریں۔۔۔ کر دیا ۔ انکی دلچسپی اس دستاویز میں ذرا نہ تھی ۔۔ کئی دففہ ان دونوں (راحیلہ اور عرفان صدیقی کو) سمری بھیجی،بات کی۔۔ لیکن گل ہوگئی۔۔ فیکٹر کے اثرات نواز شریف سے عرفان صدیقی اور راحیلہ تک کے رویوں سے جھلکتے رہے۔۔ اب جب اس معاملے پر نوجوان اینکروں کے ہاتھوں عرفان صدیقی کو رسوا ہوتے دیکھتا ہُوں تو دکھ بھی ہوتا ہے۔۔ اور کمینی سی خوشی بھی ہوتی ۔لیکن پھر خیال آتا ہے۔۔ کہ
جے سجن دانا ہوندے
کدی نہ رسوا ہوندے ۔
۔اس کے بعد 8 فروری کے الیکشن سے پہلے معتدد قومی پارٹیوں کے اقلیتی ونگز مسیحی و ہندو راہنماؤں میں جن میں کھیل داس کوہستانی ، جے پرکاش ، و دسیوں دیگر کو کہا کہ اپنے پارٹی لیڈروں کو 20 سندھ ،پنجاب کی قومی اور 50صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر یقینی کامیابی کی نویدِ سچے حقائق ؤ شواہد سے سمجھاؤ ۔ جب کہ تمھارے پارٹیوں کے مالکان و راہنماہ ایک ایک سیٹ کے لئے کیسے کیسے الحاق کرتے پھر رہےہیں۔۔ تو یہ بےضرر سستا آسان فارمولا بھی آزما لیں۔اس میں تو صرفِ یہ کہنا ہے۔۔” ہم اقتدار میں آکر اقلیتوں کے لئے شفاف اور انصاف پر مبنی انتحابی نظام وضع کریں گے ۔۔” لیکِن اقلیتیوں بچاروں کو تو ہر پارٹی میں صرفِ ترجیحی فہرست میں نام آنے کی فکر میں غرق دیکھا ۔ بلکہ ان کا اس چکر میں بقول امان اللہ خان بیڑا ہی غرق دیکھا ۔۔۔حالانکہ 2013 سے آج تک تین دففہ میں باری تو چند کو ہی ملی ہے۔۔ لیکِن تینوں بڑی اور ایک آدھ چھوٹی پارٹیوں کے ان اقلیتی مخصوص نشستوں کے طلب گاروں جمہوری غلاموں کو بہت ہی برے حالات میں اپنی ذاتی لابنگ کرتے ہی دیکھا ۔۔ اس کے علاؤہ نہ انھیں دین کی فکر ہے نہ دنیا کی ۔۔” وہ نہ اپنی پارٹیوں کے وفادار ہیں نہ اپنی کمیونٹیوں کے” نہیں اسکے بعد میں کاتھولک بشپ صاحبان میں سے تین سے بات کی جنکی اب چھٹی ہوئی یہ ٹال مٹول کرتے رہے ۔ پھر فیصل آباد والے نے ساری بات سن کر کہا ہم سیاسی کاموں میں حصہ نہیں لیتے حالانکہ آئے روز تصویروں میں نظر آتے ہیں اور خالص سیاسی طریقے سے سونے کی نمائش کرکے نیک نامی کا سرٹیفیکیٹ لینے کی کوشش کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں تیسرے نے بھی ہوں ہاں کی لیکن نتیجہ صفر ۔حالانکہ میں نے انھیں موجودہ نظام کے مسیحی سماج پر مضر اثرات کا پہلو دکھایا۔ انھیں یہ درس دینے کی کوششں کی کہ سیاسی ورکروں کے ویکوم کو کس طرح شبعدے باز پر کر رہےہیں ۔۔لیکن تصویروں کے یہ شوقین ٹال مٹول ہی کرتے رہے ۔۔ چرچ آف پاکستان کے دو بڑے بشپ صاحبان کا جواب بھی ہوں ہاں سے آگے نہ تھا ۔ حالانکہ وہ موجودہ نظام سے بڑے پریشان دکھائی دیئے ۔۔ہم آہنگی کے چمپین مذہبی راہنماؤں کو اس اجتماعی مفاد میں اپنا کوئی مفاد نظر نہ آیا ۔۔ ایک آدھ متحرک محرومیوں کے سوداگر این جی او مالکان تو باقاعدہ سازشی انداز میں ایک ایسی اقلیت کے مفاد میں اس نظام کے خلاف زیر زمین لابنگ کر رہے ہیں ۔،جو اپنے آپ کو اقلیت ہی نہیں سمجھتی ۔۔ ان کے رویئے دیکھ کر دل سے بے اخیتار نکلتا ہے ۔۔ ربا ۔ ہم پاکستانی مسحیوں کی اس تیس سکوں کے بیوپار سے بچا
۔۔۔۔۔ فادر بونی جنھیں بہت سے مسیحی این جی اوز کے نکے ،نکیاں اور مسیحی سیاسی جماعتوں والے اپنا مربی، مینٹور اور راہنماہ مانتے ہیں ۔ان سے اکثر بات ہوئی پہلے تو انکا فکری ارتقاء جداگانہ سے جان چھڑانے پر رکا ہؤا ہے ۔قائل ہونے کے بعد وہ اپنے غیر سیاسی ہونے کا بہانہ کرتے ہیں ۔۔ لیکِن اندر سے کہیں نہ کہیں محسوس ہوتا ہے ۔ اس فارمولے میں سے مذہبی شناخت والے ووٹ سے اسی اقلیت کے پروپگینڈے کے زیر اثر ہیں ۔۔ جسکے سب سے بڑے زیر زمین پرچارک ایک متحرک این جی و والے ہیں ۔۔ کاتھولک چرچ کا یہ کمال ہے ۔۔کہ بھگوڑا فادر ہو یا ان کو نقصان پہنچا کر بھاگنے والا ان کا کوئی سابقہ ملازم یہ اس کے اثر سے اور وہ انکے اثر میں ضرور رہتے ہیں ۔۔ یعنی “ونس گرجا پاس آل ویژ گرجا پاس” اسکی بہت سی مثالیں ہیں ۔جو چرچ پاس لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔۔
جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوئی ان سے بات کرکے مزا آیا حقیقی پارلمینانی شخصیت لگی۔۔ لیکن ظاہر ہے انکا اثر ایسے معاملات میں کم ہی ہے۔۔۔پیپلز پارٹی کی بھی ہر سطح کی لیڈر شپ تک بات پہنچائی ۔ رضا ربانی ،اور سینٹر تاج حیدر کو خصوصی طور پر بار ہا گذارشات کیں ،، ناصر شاہ کو ایک تقریب میں تفصیل سے ان نشستوں کا لالچ دیا ۔۔لیکِن وہاں بھی خاموشی ہی رہی بچپن کے ایک دوست پیپلز پارٹی کے جیالے نے ایک دن ترس کھا کر مجھے کہا اعظم بھائی کن چکروں میں پڑے ہو۔۔۔ ہماری پارٹی کا ہر بڑا لیڈر اسی چکر میں ہے۔۔۔ جو ڈاکٹرائن ہمارے حکمران خاندان نے عملی طور پر عام کیاہے ۔۔۔ تب سے میں اس طرف توجہ دینی چھوڑ دی 25دسمبر 2023کو ڈان ٹی وی پر میں نے پہلے پورا مقدمہ پیش کیا جس میں زور اس بات پر ہی تھا۔۔ کہ بے ضرر آئینی ترمیم کرکے وزیراعظم کی امیدوار سیاسی جماعتیں کس سطع کی عوامی پزیرائی اور بین الاقوامی سطح کی نیک نامی اور قبولیتِ حاصل کر سکتی ہیں۔۔۔ ضرار کھوڑو صاحب کے یہ کہنے پر کہ اس دففہ تو نشستیں براہ راست ہی دینے کی بات ہورہی ہے ۔۔ میں نے بھی ازرہ تفنن “گل ہو گئی” سے مطمئن ہو جانے والوں اور گل کرکے بڑے بڑے چی گویراو کی ہوائیں بدلنے والوں یعنی دونوں فریقوں کو یہ آسان فارمولا بتایا اس کی آڑ میں جو مرضی کرلوں کوئی ان 75 نشستوں پر اعتراض نہیں کرے گا۔آرگینک نتیجہ بھی بدل سکتا ہے ۔ اور آس کے آڑ میں بھی شفاف کارروائیاں بھی ہوسکتی ہیں ۔۔ لیکِن پتہ نہیں بے حسی کی یہ کون سی سطع ہے ۔؟۔ یا کیا وجوہات ہیں۔۔؟ کہ ہمارے معاشرے سے اور سیاسی نظام سے ووٹروں پر انحصار اور اجتماعیت کا عنصر ختم ہی ہو گیا ہے ۔۔لیکن آٹھ فروری کے بعد سے آج تک جس بحران میں آج ریاست کے تینوں ستونوں عدلیہ، انتظامیہ،اور مقننہ ہے ۔۔ انکے چاروں رکھوالوں کو 2013سے ہم مسلسل لکھ رہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں رینگی ہو ۔۔ اہل وطن ایک منٹ کے لئے سوچیں اگر ہمارے مشورے کے مطابق دو ہزار 13،دوہزار 18 یا دوہزار 2024
کے انتخابات سے پہلے آگر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں۔ کو بانٹنے کا کوئی انصاف پر مبنی طریقہ اپنا لیا ہوتا تو ۔۔ کیا اج وزیراعظم ،اسپیکر ،چیف جسٹس،چیرمین سینٹ بمع دیگر اسٹیک ہولڈرز ،بلکہ یہ پورا نظام جس طرح مذاق بنا ہؤا ہے اس سے بچ نہ جاتا۔۔۔آج اقبال قمر صاحب کی یہ بات یاد آگئی تو سوچا ویسے تو ان چاروں ذمداروں سے کوئی امید نہیں ۔
کہ وہ اپنی غلطیوں سے کچھہ سیکھے
۔ نہ ہی ان کی جگہ مستقبل میں لینے والوں سے۔ لیکِن آپ اگر کسی بات تو خلق خدا کے لئے بہتر سمجھتے ہیں تو اس کا پرچار کرتے رہنا چاہئے ۔۔ اس لئے میں اور میرے ساتھی یہ بات برملا کہتے رہے گے ۔۔ آج کل ہم اس کتابچے میں اقلیتوں کے ساتھ خواتین اور سینٹ کے انتخابات میں بھی ترامیم کے لئے سفارشات پر مبنی کتاب کی اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں۔ جب یہ کتاب آگئی تو پھر ایک نئے عزم سے اس خیال کو بانٹیں گے۔ کیونکہ میرا یہ یقین ہے۔۔ کہ جمہوریت شفافیت کے بغیر ڈھکوسلا ہے ۔۔ان ترامیم کی سفارشات میرے وطن کے اس سیاسی نظام سے بہت سی غیر جمہوری آلودگی کا باعث بننے والی کثافتوں کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہیں۔۔ رہ گئی اقبال قمر صاحب کی بات تو ۔۔۔میرے اس پروپوزل کو نہ ماننے کا نہ تو نقصان بظاھر عدلیہ، انتطامیہ یا مقننہ کہ کسی بڑے کو ہؤا ہے ۔۔لیکن اگر یہ انفرادی مفادات کے لئے اندھے نہ ہو گئے ہوں تو اسکا نقصان اب ہر کسی کو ہی ہو رہا ہے ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں سب سے زیادہ خسارے میں ریاست پاکستان ہے ۔ ان سب کے ساتھ اجتماعی اور انفرادی طور پر جو ہو رہا ہے۔۔ یہ کسی مہذب معاشرے میں مہذب انسانوں کے ساتھ ہؤا ہوتا تو وہ سر جوڑے بیٹھے ہوتے کہ کس طرح اس مسلئے کا طویل المیعاد حل نکالیں۔ ۔۔۔ لیکِن آفرین ہے ، میری ہر طرح کی اشرفیہ پر ۔۔۔لیکن ہم اس ملک کے جمہور کے مفاد میں یہ مطالبہ دوہراتا رہے گے۔۔کیونکہ حقیقی جمہوری نظام میں ہی اس قوم کی ترقی و بقاء ہے ۔۔۔ بقول شاعر
شائد کہ کسی کہ دل میں اتر جائے ہماری بات ۔ اہل وطن یہ تھیں ذمدارین سے بیک ڈور رابطوں کی توسط سے ہماری کوششیں 2013 سے جاری اس مہم میں شائد میں کئی خفیہ کوششیں بھول بھی گیا ہوں ۔۔کیونکہ عوامی سطح کی اپنے ساتھیوں کوششیں تو اسی وقت میں سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتا ہوں ۔۔تاکہ کل کسی ساتھی کی کوشش میں بھی چاہوں تو انکار نہ کرسکوں۔۔ اور وہ تاریخ ہو جائے آور اقلیتی شہری ،خواتین اور عام اہل وطن بھی جان لیں کہ ان کے حقیقی محسن کون ہیں۔؟اخر میں ،متاثرین سے صرفِ ایک گذارش ہے ۔۔ خدارا اپنے مکمل انسان ہونے کی حیثیت کو پہچانیں۔اور کچھ نہ کرسکے تو اتنا ضرور کریں۔ کم ازکم اس نظام کو سمجھ تو لیں ۔۔اب تو یہ مسلہ خواتین اور سینٹ کے انتحابات کو ملا کر اس ملک کے 25کروڑ انسانوں کا مسلہ ہی ہوگیا ہے ۔۔۔ اس لئے حقیقی جمہوریت کے لئے زندگیاں وقف کر دینے والے اہل وطن ۔۔
چاہے آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے یا آپ عام پاکستانی ہیں۔۔ اس واردات کو سمجھیں جو پچھلی کچھ دہائیوں سے اس 1181 نمائندگان میں سے ان 322 کی آڑ میں کی جاتی ہے ۔۔ یہ اس تعداد کا 27۔26فیصد بنتے ہیں ۔۔جس سے صدارتی انتخابات سے لے کر کسی بھی ذاتی مفاد کے لئے آئینی ترمیم میں بھی سولہت مل جاتی ہے ۔۔لہذا سمجھ دار قومیں وارداتوں کی روک تھام کے لئے نظام کو فول پروف بنانے پر زیادہ زور دیتی ہیں سزاؤں پر کم ۔۔ جب 859کی طرح یہ 322 کو چننے میں بھی آپ کی مرضی شامل ہونا ضروری ہو جائے گا۔۔ تو ہر سطح کے فنکار کے لئے واردات مشکل ہو جائے گی، مکمل لالحہ عمل چند ہفتوں تک کتابی شکل میں دستیاب ہوگا۔ “یوں آئے گی جمہوریت” کے نام سے کتابی شکل پی ڈی ایف کی شکل میں مفت دستیاب ہوگا۔ تب تک میں اس میں سے اقتباسات شیئر کرتا رہوں گا ۔ جمہوریت پسند اہل وطن یہ رنگ ،نسل، مذہب ،مسلک ،سیاسی نظریے ،جغرافیائی اور ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر سوچ بچار کرنے کی بات ہے ۔ اپنے اس طرح کے تعصبات کو بالاتر رکھ کر ہماری اس بے ضرر فکر وجدوجہد میں اپنا حصّہ یہ سوچ کر ضرور ڈالیں کہ 25 کروڑ ہجرت نہیں کرسکتے۔۔
تحریک شناخت زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply