خاکہ : خاک اور گردُوں /اظہر حسین

تم مجھے یہ گھر خرید کر   دے سکتے ہو ؟
ہاہاہاہا ،،، گھر۔۔۔گھر۔۔۔گھر۔۔۔
آج اس نے عمیر کواپنےلیے گھر خریدنے کا کہا توعمیرنے اس کا نام’ گھر ‘ رکھ دیااوراسی وقت محلےکےشرارتی بچوں نےاس نام پر آمنّاوصدقّناکہا۔وہ گلی محلہ،دکان،کرکٹ گراؤنڈ،شادی بیاہ کی تقریب یامسجد میں ہوتا،سبھی لوگ ‘گھر’کےنام سےہی پکارتے۔ اس کی سادگی ،عاجزی اوردرگزرکرنےکامقام اتنااونچا تھا کہ ‘گھر’کےنام سے ہرکسی کوجواب دیتااورکبھی بھی اس نام کوبُرانہیں مناتاتھا۔

مجھےمعلوم نہیں کہ اس سے میری پہلی جان پہچان کب ہوئی مگروہ میراایسا ہمسایہ تھا کہ اس سےملےبغیردن گزر جاتاتو شام کودروازے پردستک دےکریانعرہ لگاکر؛انھیں گھرسےزبردستی نکلوالیتااورمحبت کےدوتین تھپڑ لگانےکےبعدچبوترےپربیٹھ کررات دیرتک گفتگومیں اس قدرمحوہوتےکہ آخرکار گھرسےآوازدی جاتی،”بہت دیرہوگئی ہے،اب بس کردیں۔۔”تووہ اپنے گھراورمجھ سمیت محلےکےباقی دوست اپنےاپنےگھروں کی طرف دوڑکرچلےجاتے۔میں جب بھی محلےکےبڑے راستے پرآتا تو چہرےپرحیرت و استفہام لیےسانولےرنگ کا،بھورےکپڑےپہنے،پانچ فٹ تین انچ قد کاٹِین ایجرکلیم کھڑاہوتا۔معدہ میں شدید تیزابیت کی وجہ سے سال بھراُس کےچہرےپردانےہوتے،سرکے بال ایک دوسرےمیں ایسےپیوست تھےکہ تیزطوفان بھی اس کوجدا نہیں کرسکتاتھا۔اس کی زبان میں خاصی لُکنت تھی اس لیے بعض چیزوں کا نام غلط لیتا اور انہی  کا بہانہ بناکرہم اسے تنگ کرتے۔وہ کوپراکوکوپڑا،والی بال کو وازی بال،حضرت کو حرضت،گُڑکوگُر،بوڑھاکوگوڑھاکہتا۔اس کی تمسخرآمیزاورسادہ باتوں کی وجہ سے ہرکوئی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا۔وہ جب بھی کوئی ایسی بات کہتاجس کی وجہ سے ہم عُمر اُسے کوستےتومیں اس کاکوئی منطقی یاغیرمنطقی جواز فراہم کرکے اس کی طرفداری کرتا۔اس نے اپنے باباکوبتایاتھاکہ “چائنہ والوں نے بادلوں میں روڈز بنوائی ہیں”اس بات پر سب دوست اسےتنگ کرتے کہ ہمیں بھی دکھادو۔ جب مجھے پتاچلاتوفیس بک پرسرچ کرکے کہیں سے ایسی ویڈیو مل گئی جس میں چائنہ کے ایک سیاحتی مقام پر بادلوں میں گِھراہوابرِج گزر رہا تھا۔ میں نے کلیم کودِکھایاتواس نے دوستوں کو ایسے اندازمیں ویڈیو دکھائی جیسے کوئی بڑاکارنامہ انجام دیاہو۔

عمومی طورپرانسان کی شخصیت اور مادہ کی تکثیریت کی وجہ سے  لوگ اُس کی قدر کرتےہیں لیکن کلیم کےاخلاق و کردار نے اس تصورکوغلط ثابت کیاہے۔ کلیم کےپاس نہ کوئی مادی طاقت تھی ،نہ ہی ظاہری حسن و خوب صورتی،بلکہ انھوں نےاپنےاچھےاخلاق کی بدولت لوگوں کےدلوں میں جگہ بنائی تھی۔وہ راستےمیں کھڑا،بڑوں اوربزرگوں کودیکھتارہتاکہ کوئی کام بتائےتاکہ انجام دے سکوں۔ایسا بہت کم ہوا ہوگاکہ کسی نےاسےکوئی کام  حوالہ کیاہواوراس نےکرنےسےانکارکیاہو،بلکہ چہرےپرمُسکان لیےہربات کاجواب “ہاں”سےدیتا۔

کلیم کے ساتھ دوستی توبچپن سے تھی ؛حالانکہ وہ مجھ سےآٹھ سال چھوٹاتھا،مگرقریب قریب ایک سال ہوئے اس کے ساتھ اٹھنابیٹھنابہت زیادہ ہوگیاتھا۔کلیم کے دو قریبی دوست تھے،ایک اس کاہم عمرمگرجسامت اور قدمیں دیوہیکل سمیع اللہ اور دوسرا میں۔شام کو وہ دونوں میرےگھرکادروازہ کھٹکھٹاتےتوہم تینوں اکھٹےچکرپرنکل جاتے اورپتھرکےدورکی طرح دن میں آنے والے تمام خوش گواروناخوش گوارباتوں پربے لاگ گفتگوکرتے ۔انھیں تنہائی سے بہت محبت تھی ۔تبھی توہم چاندنی راتوں میں محلے کے بلند مقام پرجاکر بہت دیرتک بیٹھےرہتے۔

اسےمعلوم تھاکہ ہمارےگھرکےمعاشی حالات میری مددنہیں کرسکتےلیکن امیدکادامن کبھی نہیں چھوڑا۔ اس کا خیال تھا کہ رات جتنی اندھیری اورطویل ہوجائے،آخرکاروہی رات ہی صبح کی بشارت سناتی ہے۔اس لیے کرکٹ سے جنون کی حد تک محبت کی بناپرمجھےکہتاکہ سیف علی (بڑابھائی )دبئی چلاجائےاورمعاشی مسائل کم ہوجائیں  تو مجھے اکیڈمی میں داخل کرواؤگا؛ کیا پتا سلیکٹ ہوجاؤں۔کچھ دنوں بعد محکمہ نیوی کی طرف سےایک اشتہارجاری ہوا کہ نیوی میں سپورٹس کوٹہ پر داخلےدیے جاتے ہیں۔ میں نےاسے بتایاکہ کیا خیال ہے؛ قسمت آزماتےہیں؟وہ دوڑکرگھرمیں داخل ہوااوروالدین سے کہاکہ مجھے اپنے شناختی کارڈز دےدو۔اس نے اپنافارم ب،والدین کےشناختی کارڈز اور اپنی مڈل کی تعلیمی سندمیرےہاتھ میں تھمادی ۔جب محلے کے دوستوں کوپتاچلاکہ نیوی میں اس کا داخلہ کراتےہیں توایک آکرکہتا”جب تم پاکستان ٹیم میں چلےجاؤتومجھے اپناکلاس فور بناؤ گے” دوسرا شرارتی انداز میں دخل اندازی کرتا”پھریہ بڑابندہ بن گیاہوگا؛ہمیں کب دیکھےگا”توتیسراکولہوں میں مُکّا مار کر کہتا “اگر مجھے اپنےاسٹاف میں نہیں لیتےتو ابھی سے اپنابھڑاس نکال دیتا ہوں”۔لیکن وہ مجھے کہتاکہ “امیرہ!(وہ مجھے امیرکہتا) آپ میرے مینجر ہوں گے” اور اسی کے ساتھ قہقہوں کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا۔

وہ بھیڑاورشورغل سےپرہیزکرنےوالااورسنسنی خیز حالات میں اعصاب پرقابو نہ رکھ پانےوالاانسان تھا۔کرکٹ میچ میں جب کوئی اچھابلےبازکھڑاہوتایاتیزباؤلرآجاتاتواس کارنگ پیلاپڑجاتا۔میرےبھائیوں کی شادی میں سمیع اللہ نے اس سے کہاکہ “آجاؤ یارتھوڑا ناچتےہیں”توکلیم نے کہا”ابھی نہیں !ہم امیرکی شادی میں ناچیں گے”۔ ہرانسان نےاس کشتی میں اپنامقرروقت گزارکر جاناہے؛کل وہ گیا،ہوسکتاہے آج ہم چلےجائیں ؛لیکن جب تک سانس چلتی رہے گی ؛ مجھے اس بات کا پچھتاوارہے گاکہ شایدوہ زندہ ہوتااورمیری شادی میں ناچتا۔
اپنی سولہ سالہ زندگی میں اس نے کسی سے جھگڑانہیں کیا۔ کوئی بڑااسے کچھ کہتاتوچھپکےسےکہتاکہ بڑاہےیار۔۔۔اس کو جواب نہیں دےسکتے۔ اورجب چھوٹاشرارت کرتا تو “اس کو تودیکھو؛اتنےچھوٹےکوبندہ کیاکہیں”۔میں جب بھی اس کوکہیں جانے کاکہتاتوبناپوچھے روانہ ہوجاتا؛جہاں وہ الرسالۃ القشیریۃ کےمطابق سچا دوست ثابت ہوتا:”ہروہ دوست جسے تم کہو چلو!اوروہ کہے کہاں؟تووہ دوست نہیں”۔ایک دن مشہورنظم گو شاعراورسفرانچےکےمؤجدعرفان شہودصاحب نے مجھےاپنی نظموں کامجموعہ “بے سمتی کے دن” بطورِتحفہ ٹی سی ایس کےذریعےبجھوایااور ٹی سی ایس والوں نے فون کیاکہ اگرآپ نےعصرتک پارسل حاصل نہیں کیاتوواپس چلا جائے گا۔اس وقت کلیم کو بخارتھااورمیں نے کہا کہ “یار پبی جانا ہے”اس نے بخارکی پرواہ کیے بغیر کہا “چلوچلتےہیں”میں نے کہاکہ” آپ کوتوبخارہے”توکہاکہ “یہ خود بخودختم ہوجائے گا”۔ ہم گاؤں کے اسٹاف تک سائیکل پرگئے۔ کلیم کواچھی طرح سائیکل چلانی نہیں آتی تومیں اس کے پیچھے بیٹھ کرگائیڈکرتا ! اب اسے کوئی خطرہ نہیں تھا؛ تبھی بے لاگ سائیکل چلایااورپبی شہربروقت پہنچ کرہم نےکتاب حاصل کی ۔

ایک شام کو محلےکےدوستوں نےمشورہ کیاکہ تبلیغ کی راہ میں سہ روزہ کےلیےجاتےہیں۔لہذافلاں بندےکو خدمت حوالے  کی ، فلاں کو تعلیم ،جب کلیم کانمبرآیاتوایک اعلان ہی بچاتھا جونماز کےبعد نمازیوں کے لیے کیاجاتاہےتاکہ وہ بیٹھ کرامیر کا بیان سن لیں۔کلیم اعلان کرنے سے کتراتاتھااس لیے اسےکہاگیاکہ ابھی اعلان کرو۔وہ بہانے پہ بہانا تلاش کرتارہامگراس کی ایک نہ چلی اورجب دوستوں کوپتاچلاکہ یہ بندہ اعلان نہیں کررہاتوچپلوں اورجوتوں سے اُسےمارناشروع کیااورنوبت یہاں تک آپہنچی کہ کلیم نےمجبوراً اعلان کیاجس کے بدلے سمیع نے اسے کولڈڈرنک پلائی ۔ہم نے ایک امیرکے ذریعے نوشہرہ کے تبلیغی مرکز سےصالح خانہ (چراٹ)کارُخ لیا۔ سہ روزہ کے دن جب دوست اکھٹے ہورہےتھے توامیرنے کہاکہ دیگرامرافارغ نہیں ہیں  اس لیے اگلےہفتےجائیں گے ۔ ہم نے سوچا کہ کلیم بے چارےنے مفت میں مار کھائی ۔

اس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی کشش نہ تھی کہ انسان کو مسحورکرسکے اورذہانت اتنی کہ صرف معمول کے کام چل جاتے۔جماعتِ نہم کاپرچہ حل کرتے تومحلےآکرپہلےمجھ سے ملتا تاکہ معروضی جوابات میں ان کے کارنامےدیکھوں۔”جلدی جلدی بتاؤکتنے درست ہیں اور کتنے غلط؟(کلیم متجسسانہ اوراستفہامیہ لہجےمیں کہتے) اس کےاکثرجوابات غلط ہوتےمگرمیں اس کا   دل رکھنے کےلیے دو تین درست بتاتااورپورےپرچےکےمجموعی نمبرنکال کر اسے کہتاکہ ان شاءاللہ  پاس ہوجائیں گے۔اسی طرح وہ خوش ہوجاتااوراپنی تعریفیں شروع کرتا کہ مختصرسوالات تومکمل کیے اورتفصیلی میں ایک رہ گیا لیکن جو کیے ،اس سے مطمئن ہوں۔وہ خودمطمئن ہوتایانہیں لیکن میں پرچہ دیکھ کر مطمئن نہیں ہوپاتااورہوابھی ایسا کہ جب نتیجہ نکلاتو وہ    پانچ پرچوں میں فیل ہوگئے۔محلےکےدوستوں نے مشورہ کیاکہ اسے گھرسے نکال کر پِیٹتےہیں۔لہذا کسی بہانےاسے گھرسے نکال کراُس پر تپھڑوں اورمُکّھوں کی بارش کردی ،کسی نے چپل سے ماراتوکسی نے بالوں سے پکڑکرجھٹکےدیے،حتی کہ ہر شخص نے اپنےاستعداد کےمطابق مارنے میں حصہ ڈالا اور مجال ہےکہ وہ بندہ ناراض ہوابلکہ ہنسااوربھاگ کرگھرکی طرف چل نکلا۔

اس وقت کلیم کی خوش قسمتی یہ تھی کہ مردان بورڈنے یہ فیصلہ کرلیاکہ پرچوں کی چیکنگ غلط ہوئی ہے، اس لیے اگرکوئی طالب علم ایک مضمون میں پاس ہو، خواہ کتنےمضامین میں فیل کیوں نہ ہو،وہ جماعت دہم میں بیٹھ سکتاہے۔اسی طرح کلیم جماعت دہم میں بیٹھ گیالیکن اس بار اس نے کام کرنے کا ارادہ کیااس لیےمجھے کہاکہ آپ ہمیں اردولازمی پڑھائیں گے ۔میں نے بھی ہاں میں ہاں ملادی۔ہم سمیع اللہ کے بیٹھک میں اردولازمی کی کلاس لیتے۔میں نےسب سے پہلےانھیں اشرف صبوحی کاسوانحی خاکہ “پرنانی” پڑھایا جن کی لازمی باتیں کچھ حد تک زبانی یاد کرائیں۔ابھی ہم دوسراسبق شروع کرنے والے تھےکہ جماعت  نہم کا سپلمنٹری امتحان سرپرآیا اس لیے آگےپڑھناگوارانہیں سمجھااورانھیں امتحان کےلیےکام کرنے کی اجازت دی ۔انھوں نےاپنے پانچ پرچے دیے اورپرچوں سے اچانک بعد جوہوا؛ بڑاتکلیف دہ ہے ۔

ایک دن میں لَکَڑی(چراٹ کےعلاقےخٹک گاؤں کانام)میں ختم القرآن کی تقریب کےسلسلےمیں گیاتھا۔تقریب دوپہر کو ختم ہوئی مگرسفرطویل تھا تو میں دَیرسےگھرپہنچا۔دوسرےدن گھرمیں گُڑختم ہونےکی صورت مہاجربازارسےمنسلک ایک گاؤں، اپنےکالج کےقریبی دوست اسد علی کےہاں گیا۔ چونکہ میرااسدعلی کےگاؤں مہینوں بعدجاناہوتاہے اس لیے سارا دن اس کے ساتھ گزارا۔عصرکےچاربجےفارم کرکٹ گراؤنڈپرہماراسیمی فائنل میچ تھا، اس لیے اسد علی سے رخصت لےکرعصر تک کرکٹ گراؤنڈ پہنچا۔میچ شروع ہوتے ہی دواوورز ہوگئےکہ حمزہ گل (کلیم کا کزن)کوفون آیا۔ انھیں کہاگیا کہ کلیم ٹھیک نہیں ہےاس لیے فوراً گھر آجاؤ۔یہاں مجھےمعلوم ہوا کہ کلیم بیمار ہوگیاہےکیوں کہ میں دو دن گاؤں سے باہرتھا اس لیےکلیم سےملاقات نہیں ہوئی تھی۔ لیکن مجھ سمیت سب دوستوں نے عام بیماری سمجھ کر میچ کھیلااور ہم جیتنےمیں کامیاب ہوئے۔ میچ جیتنے کے بعد ایک دوست سےپوچھنے پر معلوم ہوا کہ کہ کلیم کودودِن پہلےبخارہواتھا۔گاؤں کے ایک عام ڈاکٹرنے اسےانجکشن لگوایاتھالیکن کلیم کہ رہاتھاکہ انجکشن والی جگہ شدیددرد کررہی ہے۔ آج صبح جب وہ قصائی کی دُکان جارہاتھا تواس نے کہاکہ درد نےشدت اختیارکی ہے اوروہ بائیں پاؤں سے نہیں چل سکتاتھااس لیے بہت تکلیف سے قدم اٹھاتا۔اس کے بعد وہ انجیکشن ہرلحظہ کلیم کی زندگی کی سوئیوں کوکاٹتا رہا اور ظہرکےوقت اس کا پاؤں کالاپڑگیا تھا لہذا اسے ہسپتال لےجایاگیالیکن ڈاکٹرز کلیم کی بیماری کو نہ سمجھ سکےاور دوائیاں دے کر انھیں گھربھیج دیا گیا۔

دوست کی باتیں سن کرمجھےیہ معاملہ پیچیدہ لگااورمحلےآکرحمزہ کوفون لگایالیکن اس کافون نہیں لگ رہاتھا۔ہم نےمشورہ کیا کہ گاڑی روانہ کرکے ہسپتال جاتے ہیں۔اسی اثنامیں حمزہ گل سے رابطہ ممکن ہوا؛جب اس نے کال اٹھایاتوموبائل فون میں رونے اورچیخنےکی آوازیں آرہی تھیں ۔میں نے موبائل فون فوراًبندکردی اوردل میں کلبلی سی مچ کرشیطان مردودنے طرح طرح کے وسوسےڈالنا شروع کردیے۔میں نےرونے کے سُنی ہوئی آوازوں کواَن سنی کرکے دوبارہ فون لگایااورفون اٹھاتے ہی حمزہ گل نے کہا”کلیم فوت ہوا”اوریوں وہ بِھلک بِھلک کر رونے لگا۔”مجھےبتاؤ !یہ کیسے ہوسکتاہے”حمزہ ۔۔حمزہ۔۔حمزہ۔۔”یار،بتاؤ مجھے !”وہ انجکشن خراب تھا۔۔۔۔ اس لیے اس سارےجسم میں زہرپھیل گیاتھا”(حمزہ نے سسکیوں بھرےلہجےمیں بولا)۔ “یہ خبرسنتےہی میرے دل و دماغ پرسکتہ طاری ہوااورخود کوجھوٹی تسلی دیتے ہوئے ایسامحسوس کیاکہ میں خواب دیکھ رہاہوں۔میں نے اسی حالت میں اپنے چہرے،بالوں اورکپڑوں پرہاتھ پھیرااورایسی حالت بنائی کہ کوئی مجھے نیندسے جگائے لیکن کاش وہ خواب نہیں ایک تلخ سچ اورحقیقت تھی ؛ایسی تلخ حقیقت جس کا میں کبھی سامنا نہیں کرنا چاہتاتھا۔میں یہ سوچ رہاتھاکہ موت اتنابےرحم کیسےہوسکتی ہے کہ ایسےبچےکاگھلاگھونٹ دیں جوہرروزاپنےروشن مستقبل کےخواب دیکھتاہوں اوراس کاایک خواب بھی پورانہ ہو۔ہاں موت ہی وہ بے رحم حقیقت ہے جوانسان کے تمام منصوبوں کومِٹی تلےروندتی ہیں۔

منشی پریم چندکہتاہے”دلوں کامیل دھونےکےلیےآنسو سےزیادہ کارگرکوئی چیزنہیں ہے۔”میں نے دوستی کا بھرم رکھتےہوئےاپنےآنسوؤں سے معاہدہ کرلیاکہ محفل میں نہیں ٹِپک پڑیں گےجس میں دو تین مواقع کے سوا کافی حد تک کامیاب ہوااورجب تنہائی میں ہوتاتوجتناجی چاہتارولیتا۔ویسےکسی عزیزکےبچھڑجانےپرتنہائی میں رونےسے انسان کو جواطمینان ملتاہے؛دوستوں کی محفل اوراپنوں کی تسلی سےنہیں ملتا۔

عشاکے بعدکلیم کوایمبولنس میں لایاگیا اورایمبولنس سےگھرلےجاتےہوئےمیں اس کے چہرےکوغورسے دیکھتارہا جس پرخواہشات،ارمانوں اورجاگتےسوتےدیکھنےوالےخواب بکھرےپڑےتھےمگربے رحم اوربے وقت موت نے اس کےتمام ارمانوں کاگلادباکرہمیشہ ہمیشہ کے لیےہم سےجداکردیاتھا۔پیرکےدن 13 نومبر2023ءکوصبح گیارہ بجے اس کانَمازِجنازہ ہوا اوراپنےہی آنکھوں کےسامنے بے بس کھڑااپنے جگرگوشےکو سب سے بڑےرقیب زمین کے حوالے کردیا۔میں نےجب سے شعور کی آنکھیں کھولی ہےاور جتنے مُردوں کےدفن میں شریک ہواہوں ؛فاتحہ خوانی کے بعدکسی مرحوم کے قبرپررونے کی حالت میں مرحوم کےاپنےرشتہ داروں کواتنی تعدادمیں روتےنہیں دیکھاہےجتنےپرائے(محلےکےلوگ)کلیم کی قبرپرروتے رہیں۔کلیم کے پاس دنیاوی لحاظ سےکوئی عہدہ تھانہ حسن و خوب صورتی؛بلکہ اتنےاحباب کاقبرپرروناکلیم کےاعلی اخلاق کازندہ ثبوت تھا۔ اگرایک دوست اپنےدوست کاحق آنسوؤں سے اداکرسکتاہےتویقیناًسمیع اللہ نے اپنے آنسوؤں سے کلیم کی دوستی کا حق ادا کردیا ہوگا۔کلیم کی رحلت کےابتدائی دنوں وہ صبح و شام اس کی  تصاویرکوسینے سے لگائے روتارہتاحتٰی کہ والدین کی باتیں بھی اس پراثرنہیں کرپاتی تھیں لیکن رفتہ رفتہ نصیحتوں نے کام کردیااوراس نے آہ و بکاسے روگردانی کی ۔

julia rana solicitors london

غرض کلیم بہت پیاراانسان تھا ؛چھوٹوں سے چھوٹا،بڑوں سے بڑا،یارو ں کایار،دوستوں کادوست اور دشمنوں کا بھی دوست(اس کا کسی سے کوئی مسئلہ نہیں تھابلکہ یہی اس کی خصوصیت تھی)۔اس کے منہ سے شدیدغصے کے عالم میں بھی کسی قسم کی گالی نہیں سنی ،نہ کسی سے ہاتھا پائی کی کوشش کی بلکہ درگزرکرناقدرت کی طرف سےاس کا بڑاخاصا تھا۔وہ آدمیت اور انسانیت کا مجسم پیکر تھا۔میں یہ چھوٹاساتحفہ مرحوم کلیم کے نام کرتاہوں ،جس میں از حدکوشش کی گئی ہے کہ غیرجانب داررہ کرمرحوم کی شخصیت آپ کے سامنے پیش کردوں۔کہیں پرمرحوم کی خوبیوں کے بیان میں شدت ہوتویہ اس کے ساتھ ہم دردی ہوگی ،تحریر میں جہاں ذاتی باتیں آئی ہیں ؛ان کا مقصد مرحوم کی شخصیت کےہرگوشےکواُجاگرکرنا ہےنہ کہ اپنی نمائش ۔خدامیری کمی بیشی معاف فرمائیں۔

Facebook Comments

اظہر حسین
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بی ایس اسکالر ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply