گلابی نگری/شکور پٹھان

ہندوستان گئے ہوئے مجھے ۴۳ سال ہو گئے۔ بہت سی یادیں ذہن سے مٹ چکی ہیں۔اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ بہت سی چیزیں اپنی جگہ سے ہی غائب ہو گئی ہیں اور بہت سی نئی چیزوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
اس وقت کے اور آج کے ہندوستان میں زمین آسمان کا فرق آگیا ہے۔ اچھی اور خوش آئند بات یہ ہے کہ ہندوستان مجموعی پر طور پر بہتری کی جانب گامزن ہے (جبکہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ )میں نے آج کا ہندوستان بچشم خود تو نہیں دیکھا لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہر چیز یا ہر جگہ کے بارے میں دیکھے بغیر جان نہ سکیں۔ انٹرنیٹ، گوگل، یوٹیوب اور بے شمار ذرائع سے آپ کو قابل اعتماد معلومات مل سکتی ہیں۔
آج جو کچھ میں لوگوں سے سنتا ہوں، فلموں یا یوٹیوب پر دیکھتا ہوں ، ہندوستان جس کے بارے میں آج سے تین چار عشرے قبل میں طنزیہ کہا کرتا تھا کہ دہلی کے ہوائی اڈے پر اتر کر آپ اپنی گھڑیوں کو سو سال پیچھے کرلیں۔ بمبئی جو میرے پرکھوں کا شہر ہے، جسے میں نے بہت ہی غیر جانبداری سے دیکھا لیکن اس زمانے میں اسے کسی بھی طرح کراچی سے بہتر نہیں پایا تھا۔ آج وہی بمبئی اب ایک جدید شہر بن گیا ہے۔ وہاں کی پسماندہ آبادیاں ، دھاراوی، جوگیشوری ، گھاٹکوپر، کرلا وغیرہ تیزی سے سکڑ رہی ہیں اور وہاں کے مکین نئی آبادیوں اور پختہ مکانات اور فلیٹوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ گو اب بھی غربت، گندگی، پانی کے مسائل، بیت الخلاؤں کی کمی اور دیگر بہت سے مسائل موجود ہیں لیکن ان میں بتدریج کمی آرہی ہے۔
خیر یہ باتیں یہیں رہںے دیں۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ میری نظروں میں اب تک چار دہائی پہلے والا ہندوستان ہی ہے۔ اور اس وقت کی یادیں آج سے کہیں زیادہ خوش کن ہیں۔ اسی فیس بک پر وہ تمام یادیں میں نے “ جس دیش میں گنگا بہتی ہے” کے عنوان سے دوستوں کے ساتھ بانٹی ہیں اور “ بہتی ہے گنگا جہاں “ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی چھاپی ہیں۔
شاید میں نے کہیں یہ نہیں کہا ، لیکن آج کہہ رہا ہوں کہ میرے دورہ ہندوستان کی خوشگوار ترین یاد، جے پور کا قیام تھا۔ گلابی نگری ، جے پور، ہندوستان کے عظیم الشان ماضی کی سب سے معتبر اور اصلی تصویر ہے۔ دہلی بے شک ہندوستان کا دارالحکومت اور ایک تاریخی شہر ہے۔ لیکن اس کی تاریخ پر زیادہ تر مغلوں اور مسلمان بادشاہوں کی چھاپ ہے۔ لال قلعہ، جامع مسجد، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ سب مغل اور مسلم دور حکومت کی یادگاریں ہیں۔ یہی حال آگرے کا ہے جہاں تاج محل، قلعہ آگرہ وغیرہ مغلوں کی یاد دلاتے ہیں۔ ادھر بمبئی اور کلکتہ جیسے شہر زیادہ تر انگریز راج کی نمائندگی کرتے ہیں۔
بمبئی میں وکٹوریہ ٹرمنس، گیٹ وے آف انڈیا، چرچ گیٹ اسٹیشن، فلورا فاؤنٹین، کرافورڈ مارکیٹ، ماہم فورٹ، سینٹ تھامس کیتھیڈرل، ڈان باسکو اسکول وغیرہ سب انگریز کے زمانے کی عمارتیں ہیں۔ کلکتہ یا کولکتہ ممبئی سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔ انگریز تو اسے لندن بنانا چاہتے تھے۔ وکٹوریہ میموریل، سینٹ پال کیتھیڈرل، ماربل پیلس، ٹاؤن ہال، ہائیکورٹ کی عمارتیں آج بھی گورا راج کی یاد دلاتے ہیں ( جیسے اپنے کراچی میں ایمپریس مارکیٹ، فریر ہال، میری ویدر ٹاور، انگریز کی اور لاہور میں شاہی مسجد، قلعہ لاہور، جہانگیر کا مقبرہ وغیرہ مغل دور کی یادیں ہیں )۔
جے پور لیکن، اصل ہندوستان ہے جہاں راجواڑوں کی شان ، راجپوتوں کی آن ، آج بھی سر اٹھائے کھڑی ہے۔ میری آنکھوں میں ۱۹۸۲ کا جے پور آج بھی اپنی جوت جگاتا ہے جہاں گلیوں میں ہاتھی کو گذرتے دیکھا، گلابی رنگ کی عمارتوں کے ساتھ گلابی اور پھولدار چنریوں میں لمبے سے گھونگھٹ کاڑھے راجستھانی عورتیں اور سروں پر بڑے سے پگڑ جمائے مارواڑی، رانگڑی اور دھندوری بولتے راجپوت مرد مکانوں کے ساتھ بنے چبوتروں اور دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے ہوئے پراچین سمے (ازمنہ قدیم ) کے بھارت ورش کی چلتی پھرتی تصویر نظر آتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی تاریخی ہندوستانی فلم دیکھ رہے ہیں۔
اور جب ہم سٹی پیلس کی سیر کو گئے تو وہاں فلم کی شوٹنگ ہورہی تھی۔ فلم کا نام “راج تلک” تھا۔ یہ فلم تو نہیں دیکھی لیکن اس کی کچھ جھلکیاں دیکھیں۔ یقین کیجئے پورے ہندوستان میں اس سے مناسب ترین لوکیشن کہیں اور نہیں تو جو اس زمانے کی حقیقی تصویر دکھا سکے۔
آج کا جے پور بھی ایک ترقی یافتہ اور جدید شہر بنتا جارہا ہے۔ لیکن میں ہرگز جے پور کی نئی سڑکیں، میٹرو اور ماڈرن عمارتیں اور ہوٹل وغیرہ دیکھنے نہیں جاؤں گا۔ مجھے تو راجپوتانے کے ماٹھوں اور رانگڑوں کے وسیع وعریض قلعے، محل اور مندر جے پور بلاتے ہیں۔ مجھے شیکھر ہوٹل کی چھت پر راجستھانی تھالی کی بڑیوں کا سالن، پیاز کی کچوری اور باجرے کی روٹی جے پور آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ بڑیوں کا سالن جب کئی سال بعد دوبئی کے “بیکانیر والا” ریسٹورنٹ میں کھایا تو میں نے مینیجر کو اپنا فون نمبر لکھوایا کہ جب بھی بڑیاں پکیں تو مجھے فون ضرور کرنا (وہ فون جو کبھی نہیں آیا)۔
بھارت کی عظمت رفتہ کی نشانیوں کے باوجود جے پور کی فضا میں کوئی تعصب اور تنگ نظری نہیں تھی۔ ہمارے گائیڈ اور رکشہ ڈرائیور راج اور کمار بہت ہی دوستانہ اور منکسر مزاج طبیعت کے تھے۔ وہ گائیڈ سے زیادہ میزبان کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پانچ سال بعد جب پاک بھارت تعلقات میں شدید تناؤ کے درمیان صدر ضیاءالحق نے “کرکٹ ڈپلومیسی” کے لئے بھارت جانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے جے پور کا انتخاب کیا جو دوستانہ پیش رفت کے لئے سازگار ترین شہر تھا۔
کرکٹ پر یاد آیا کہ جے پور کھیلوں کے حوالے سے تو کوئی خاص مشہور نہیں ہے لیکن انڈین پریمئیر لیگ کی پہلی چیمپئن ٹیم “راجستھان رائلز” ہی تھی۔ جے پور کا سوائی مان سنگھ اسٹیڈیم ایک جدید اسٹیڈیم ہے۔ لیکن جے پور راجستھان رائلز کی وجہ سے ہی نہیں جانا جاتا۔ میرے نزدیک تو جے پور کا سب سے مشہور حوالہ “حسرت جے پوری “ ہیں۔ اقبال حسین حسرت جے پوری نے شاید ہندی فلموں کے لئے ایک زمانے میں سب سے زیادہ گیت لکھے تھے۔ ایک وقت تھا جب بھارت میں صرف دو امیر لوگوں کا تذکرہ ہوتا تھا ۔ اور وہ دو تھے، ٹاٹا اور برلا۔ گھنشیام داس برلا اپنے زمانے کی متمول ترین شخصیت کا تعلق بھی جے پور سے ہی تھا۔بھارت کے گیارہویں نائب صدر بھیروں سنگھ شیخاوت کے علاوہ مشہور اداکار عرفان خان (مرحوم ) لوک گلوکارہ الا ارون، غزل کے مشہور گلوکار جگجیت سنگھ، انگریز کے زمانے کے جیلر ، کامیڈین اسرانی، اور اسٹیل کی صنعت کا بہت بڑا نام لکشمی متل، یہ سب جے پور سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
ہمارے ہاں کے مشہور عالم دین اور تفسیر احسن البیان کے مفسر حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا تعلق بھی جے پور ہی سے تھا۔ اور بلاشبہ اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار یعنی اپنے یوسفی صاحب کی پیدائش گو جے پور کے نزدیک ، ٹو نک کی ہے لیکن علیگڑھ جانے سے پہلے ساری تعلیم جے پور میں ہوئی۔ یوسفی صاحب کے والد عبدالکریم خان یوسفی جے پور میونسپلٹی کے چیئرمین اور جے پور لیجلسٹیو کونسل کے اسپیکر تھے۔ آج بھی جے پور کی تقریبا نو فیصد آبادی مسلمان ہے۔
آزادی سے قبل جے پور ایک ریاست تھا جس کا صدر مقام بھی جے پور ہی تھا۔ آزادی کے بعد صوبہ راجستھان کا دارلحکومت بھی جے پور ہی قرار پایا۔ سترہویں صدی میں کچھواہا راجپوت سردار، سوائی جے سنگھ کی قائم کی ہوئی یہ ریاست ، سیاحوں کا مقبول ترین مقام ہے ، یہیں سے سیاح تاج محل دیکھنے آگرہ اور وہاں سے دہلی جاتے ہیں تو دوسری جانب جودھپور، بیکانیر، جیسلمیر، اودے پور، کوٹا، مونٹابو (ماؤنٹ آبو) جیسے شہروں کا راستہ بھی جے پور سے ہوکر ہی جاتا ہے۔
جے پور ، گلابی نگری جس کا نام “ پنک سٹی “ مشہور ہے۔ سنا ہے شاہ ایڈورڈ ہفتم کی تخت نشینی کے موقع پر سوائی رام سنگھ نے شہر کو گلابی رنگ میں رنگنے کا حکم دیا، تب سے یہ رسم چلی آرہی ہے کہ اندرون شہر کے مکانات گلابی رنگے جاتے ہیں جس کے نصف اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ اللہ جانے کیوں جے پور کو ہندوستان کا پیرس بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے پیرس اب تک نہیں دیکھا ہے لیکن اگر وہ جے پور جیسا ہے تو پھر شاید مجھے کبھی پیرس دیکھنے کی خواہش نہیں ہوگی کہ بطور شہر اس وقت جے پور مجھے اپنے حیدرآباد سندھ جیسا لگتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے وہاں کئی جگہوں پر سندھی رسم الخط میں بورڈ بھی دیکھے تھے۔ یہاں دھندوری (جے پوری) مارواڑی، رانگڑی اور ہندی وغیرہ بھی بولی جاتی ہیں لیکن عام بول چال میں وہ راجستھانی لہلہاہٹ ہے جو کانوں کو بھلی لگتی ہے ، جیسے اپنے ہاں سرائیکی لہجہ کانوں رس گھولتا ہے۔
اب کا تو علم نہیں لیکن اس زمانے کے جے پور میں سب سے زیادہ جو سواری آمد و رفت کے لئے استعمال ہوتی تھی وہ سائیکل رکشہ تھے۔ ان کے علاوہ تانگے تھے اور مال برداری کے لئے اونٹ گاڑیاں تھیں۔ کاریں، بسیں اور ٹیکسیاں خال خال تھیں، بلکہ تقریباً ناپید تھیں۔ آج اس جے پور میں جدید میٹرو چل رہی ہے۔
جیسا میں نے پہلے کہا، قدیم بھارت کی شان وشوکت دیکھنا ہو تو اس کا نمائندہ شہر جے پور ہے۔ آمیر کا قلعہ (امبر فورٹ) ایک وسیع وعریض اور عظیم الشان بھول بھلیاں ہے۔ ادھر شہر کے درمیان واقع “ہوا محل “راجپوت طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ راجپوت ، جن کے ہاں پردہ ہمارے ہاں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ میں نے کراچی میں اپنے رانگڑ پڑوسیوں میں بہو کو سسر کے سامنے بھی یہ لمبا گھونگھٹ کاڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ راجستھان میں آج بھی یہی صورتحال ہے۔ ہوا محل جس کی نو سو کھڑکیاں ہیں کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ مہارانیاں اور راجکماریاں یہاں سے شہر میں ہونے والے کھیل تماشے آسانی سے دیکھ سکیں لیکن غیر نظریں ان پر بالکل نہ پڑ سکیں۔ سر کے تاج کے مانند یہ عمارت بے حد ہوادار ہے اور اس کا نام بجا طور پر ہوا محل رکھا گیا ہے۔
قریب ہی سٹی پیلس کی خوبصورت عمارت ہے۔ جے پور کا غالبا سب سے خوبصورت منظر “ جل محل” ہے۔ بدقسمتی سے جب میں وہاں تھا تو شاید مرمت کی وجہ سے وہ بند تھا اور اس کی جھیل کا پانی خشک تھا۔ ان کے علاوہ نہار گڑھ کا قلعہ، جے گڑھ کا قلعہ ہر وہ چیز رکھتے ہیں، سیاحوں کو جن کی تلاش رہتی ہے۔
“جنتر منتر “نہ صرف سیاحتی دلچسپی کا سامان لئے ہوئے ہے بلکہ فلکیات اور ریاضی کے طالب علموں کے لئے بھی ایک یادگار مقام ہے۔ سوائی جے سنگھ کو مابعدالطبیعات، ریاضی اور فلکیات سے خاص شغف تھا اور اس نے سترہویں صدی میں اسے تعمیر کروایا۔ البتہ مجھ جیسے نیم خواندہ شخص کے لئے یہ ایک “ دماغ کا دہی” قسم کی چیز تھی جس کی ناکارہ کھوپڑی کے پلے کچھ نہیں پڑا تھا۔البتہ گائیڈ کی باتیں سن کر گردن بہت زور سے ہلائی تھی کہ دوسروں کو جاہل نہ نظر آسکوں۔ جنتر منتر اور امبر فورٹ کو “ ورلڈ ہیریٹیج سائٹس ,World Heritage Sights میں شامل کیا گیا۔
ان دنوں “راج مندر “سنیما جو ممبئی کے “مراٹھا مندر “کا جڑواں ہے، وہاں کی سیاحوں کی دلچسپی کے مقامات میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا کہ جے پور میں جدید عمارتیں برائے نام تھیں۔ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا دسواں بڑا شہر جے پور اب ایک ماڈرن شہر بن چکا ہے لیکن میری نظریں اسی قدیم جے پور کی متلاشی رہیں گی جہاں میں نے پگڑی پوش راجپوت مہاوت کو شہر کی گلیوں میں ہاتھی کو ٹہلاتے دیکھا تھا اور جہاں کی بڑیوں کا ذائقہ اب تک میری زبان پر ہے۔
جہاں میرے دوست راج اور کمار رہتے تھے۔ جنہوں نے مجھے اور میرے گھر والوں کو بڑی زبردست گرما گرم چائے پلائی تھی۔ اب دیکھئے کب اس گلابی نگری جانا ہو۔
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply