لندن گیٹوِک ائیرپورٹ سے ٹکٹ کروانے کی واحد وجہ میری غربت ہی تھی ورنہ جہاز تو ہیتھرو سے بھی جاتے ہیں۔گیٹوِک سے غریبوں کے جہاز چلتے ہیں جو اپنی چال ڈھال سے نیو خان کا اچھا ورژن معلوم ہوتے ہیں۔صبح کے پونے آٹھ بجے کی فلائٹ تھی اور میں لانگ سٹے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے شٹل بس پہ بیٹھ کے ٹرمینل پہ پہنچا۔ٹرمینل پہ آ کے سمجھ آئی کہ میں نارتھ ٹرمینل پہ ہوں جبکہ انتہائی سستے جہاز ساؤٹھ ٹرمینل سے اُڑتے ہیں۔
ساؤتھ ٹرمینل پہنچ کے چیک ان لائن ڈھونڈی،حیرت انگیز طور پہ کوئی لائن نہ تھی اور نہ کوئی دیسی بندہ نظر آ رہا تھا۔میں اندر ہی اندر بڑا فخر محسوس کر رہا تھا کہ دیسی لوگ سفر نہیں کرتے،اسی لیے تو ساری زندگی چھوٹۓ دماغ رہتے ہیں،دیکھو گورا سفر کرتا ہے،کتنی ترقی کرتا ہے،کیسا وسیع دماغ ہوتا ہے ان کا۔میں اندر ہی اندر تقریباً گورا بن چکا تھا کہ کانوں میں آواز آئی،
یوکے یو ایس پاسپورٹ دِس وے،آل ادرز ان دا کیو۔اب جب لائن غور سے دیکھی تو سمجھ آئی کہ میرے ورگے کھٹے میٹھے پاسپورٹ والوں کی الگ قطار ہے اور قطار بھی بہت بڑی۔
اس قطار میں میرے ورگے بھورے رنگ والے ہی کھڑے تھے اور کُچھ ہمارے دور کے کزن جنکا حلیہ دھوپ نے بگاڑ رکھا تھا۔بیس منٹ کے بعد باری آئی تو نوا کٹا کھل گیا۔میرا ویزہ جرمنی کا تھا لیکن میں پیرس جارہا تھا۔چیک ان کاؤنٹر پہ بیٹھے صاحب بہادر نے دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ میری بورڈنگ نہیں ہوسکتی۔میں اس ویزہ پہ صرف جرمنی ہی جا سکتا ہوں۔میں قطار سے نکل گیا،ساوا پاسپورٹ پکڑے ایک کونے میں کھڑا کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ابھی جرمنی کی ٹکٹ نکالوں،پلان کینسل کروں،ترلہ کروں۔آخر ترلے کو اپنا بنیادی انسانی اور جمہوری حق سمجھتے ہوئے جا کے چیک ان افسر کے دوالے ہوا۔خوب ترلے پھیرا،مگر بے سود۔جب ترلے سے کام نہ چلا تو اصولی موقف اپنانے کا فیصلہ کیا۔
مجھے دکھاؤ کدھر لکھا ہے کہ شنجن ویزہ کے ساتھ میں فرانس داخل نہیں ہوسکتا۔میں نے روکھی ٹون میں افسر کو کہا۔
تم پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ نہیں جا سکتے بس۔اس نے بھی سیدھا ہی جواب دے دیا۔
میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا،تم کوئی آفیسر بُلاؤ۔تم نسلی تعصب پہ اتر آئے ہو۔
نسلی تعصب سے بڑا پینترا مہذب دنیا میں نہیں ہے۔سو اس نے مجبوراً اپنی مینجر کو بلایا۔یہ کوئی خاندانی گوری تھی۔اسے دیکھ کے میں سمجھ گیا تھا کہ میرے مندے حال کا علاج یہی کر سکتی ہے۔اسکے پیار کی ایک نظر مجھے پار لنگھا سکتی ہے۔
وہی ہوا۔۔۔۔
اس نے کہانی سنی اور کہا تم جا سکتے ہو۔میں واپس چیک ان کاؤنٹر پہ پہنچا جہاں میرے ورگے بھورے رنگ کے افسر کو مجبوراً مجھے بورڈنگ پاس جاری کرنا۔
جہاز لیٹ ہوا،مگر سفر اتنا تھا کہ نصرت کی ایک قوالی رپیٹ پہ سنی ہے،دوسری بار ختم ہونے سے پہلے ہم پیرس کے اورلی ائیرپورٹ پہ تھے۔ابھی امتحان بحرحال ختم نہیں ہوا تھا۔آج صبح سے کٹے پہ کٹا کھل رہا ہے۔اب پیرس کے حصے کا ڈرامہ باقی تھا۔امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ ویزہ دیکھا،پھر میری شکل دیکھی، پھر انگریزی جوڑ جاڑ کے گویا ہوا،فرسٹ ٹائم فرانس؟
او یے یے، میں نے برابر انگریزی پھینکی۔آخر انگلینڈ سے جارہا تھا۔
ویٹ،اس نے کہا۔اور پاسپورٹ لے کے اُٹھ کے ساتھ والے افسر کے ہاس گیا۔فرنچ میں کُچھ کہانی سنی سنائی اور واپس آیا۔
آپکو پتہ ہے آپکا ویزہ کس ملک کا ہے؟
جی جرمنی کا،
آپ خود پیرس کا ٹکٹ کروا کے آئے ہیں؟
جی خود،
معاف کیجیے مگر آپ فرانس داخل نہیں ہو سکتے۔آپ جرمنی ہی جائیں گے۔
میری تو گویا پاوں تلے زمین نکل گئی ہو۔مجھے اپنا کمپوزر قائم رکھنا مشکل ہورہا تھا مگر چونکہ ترلہ مارنا تھا سو حواس میں رہنا شدید ضروری تھا۔مسکینوں والی رونی شکل بنا کے کہا میرا تو سارا پلان چوپٹ ہو جائے گا۔میرے سب دوست پیرس آ چکے ہیں،میں جرمنی گیا تو چار دن کے ویزہ میں سے دو دن بلاوجہ ضائع ہو جائیں گے۔ آپ پلیز دیکھیں۔اس ترلے میں پیرس ملنے والے دوستوں کی ایمرجنسی ڈال دی،انکا اگلے روز پیرس سے واپس سعودی عرب سفر ڈال دیا۔
ترلہ اور مسکینی کی ایکٹنگ اچھی تھی، یا آفیسر اچھا تھا اور اسےترس آگیا۔میں اس بار جانے دے رہا ہوں،اگلی بار جس ملک کا ویزہ ہو ادھر ہی داخل ہونا۔
جان میں جان آئی۔بس دھمال نہیں ڈالی ورنہ اتنی خوشی،اتنی خوشی۔۔۔۔
میرے پیرس کے میزبان مسیر یاسر گوندل ، مامے دا ثقلین اور بڑے بھائیوں جیسے ماموں پارکنگ میں مجھے اڈیک رہے تھے۔دور سے میرے جیسے ہئیر سٹائل والے کسی کو ندیم سمجھ کے آواز دے چکے تھے۔یہ تو بھلا ہو کہ ہم سب مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں میری شکل یاد ہے ورنہ میری جگہ کوئی اور نانکوں کی گاڑی میں بیٹھا ہوتا۔میزبانوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی وقت کی نزاکت کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ روٹی شوٹی کا انتظام کیا جائے۔میں چونکہ نانکوں کے ہاں ہی مہمان تھا تو “نہیں نہیں” جیسا تکلف نہیں کیا۔بلکہ مشورہ دیا کہ “چوہری کسی مشہور جگہ چلیے”۔
پیرس کا ٹریفک لندن جیسا ہی ہے،ہاں اس سے قدرے بے ترتیب مگر کھلی سڑکوں کی وجہ سے لندن والے تماشے نہیں ہوتے۔ہم قریب چالیس منٹ میں آئفل ٹاور کے سائے میں واقع ایک مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ پہ تھے۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں