واقعہ کربلا کی جامع عکاسی (3-آخری حصہ)- کامریڈ فاروق بلوچ

حضرت حسین کی موت پر سب سے پہلے اصبغ النبطہ، جابر بن یزید الجوفی، عمار بن معاویہ الدھنی، عوانہ بن الحکم، الثانی نے تصانیف لکھیں مگر آج اُن میں سے کوئی بھی باقی نہیں ہے. کربلا کی داستان کا بنیادی ماخذ “کتاب مقتل الحسین” کے عنوان سے کوفہ کے مشہور مؤرخ ابو مخنف کی تصنیف ہے. اگرچہ ابو مخنف کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے، لیکن وہ ابن الاشث کی بغاوت کے وقت بالغ ہو چکے تھے، جو کربلا کی لڑائی کے تقریباً بیس سال بعد 701ء میں برپا ہوئی تھی. لہذا ابو مخنف کو کربلا کے عینی شاہدین سے براہ راست معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا. چشم دید گواہ دو طرح کے تھے: حضرت حسین کی طرف سے اور عمر ابن سعد کے اموی لشکر میں سے. چونکہ حضرت حسین کے کیمپ میں سے بہت کم لوگ زندہ بچ گئے تھے، اس لیے زیادہ تر عینی شاہدین کا تعلق اموی لشکر سے تھا جن میں سے اکثر نے جنگ میں اپنے کیے پر پچھتاوا تھا اور اپنے احساس جرم کو کم کرنے کے لیے انہوں نے مبنی بر حقیقت بیانات دئیے، اور اکثریت نے حضرت حسین کے حق میں دلیل پیش کی. اگرچہ ابو مخنف کوفہ کا شیعہ تھا مگر اُس نے تاریخ نویسی کے دوران غیرجانداری کو بدرجہ اتم ممکن بنایا. ابو مخنف کا اصل متن بھی کمیاب ہے اور اُس کی تاریخ نویسی ثانوی ذرائع سے منتقل ہوئی جیسے کہ تاریخ انبیاء اور بادشاہوں کی تاریخ، جسے طبری کی تاریخ بھی کہا جاتا ہے، محمد بن جریر الطبری؛ اور انساب الاشرف از احمد بن یحییٰ البلادوری وغیرہ کے زریعے. لیکن جرمنی میں گوٹھا اور برلن، لیڈن (ہالینڈ) اور سینٹ پیٹرزبرگ (روس) کی لائبریریوں میں ابو مخنف کی تصنیف اپنے اصل متن کے ساتھ محفوظ ہے. طبری نے واقعہ کربلا یا تو براہ راست ابو مخنف سے نقل کیا ہے یا اس کے شاگرد ابن الکلبی سے نقل کیا ہے. جبکہ بالادھوری نے طبری کے ہی ذرائع استعمال کیے ہیں. دیناوری اور یعقوبی کی تحریروں میں جنگ کے بارے میں معلومات کا بنیادی و اکثریتی ماخذ بھی ابو مخنف کی کتاب ہی ہے. دیگر مشہور تصانیف مثلاً المسعودی کی “مروج الذہب”، ابن آتھم کی کتاب “الفتوح”، شیخ مفید کی کتاب “الارشاد”، اور ابو الفراج اصفہانی کی کتاب “مقاتل الطالبیین” کا بنیادی و اکثریتی ماخذ ابو مخنف ہی ہے. ابو مخنف کے علاوہ عوانہ، المدینی اور نصر ابن مزاحم کی تحریریں بھی مستند خیال کی جاتی ہیں.

اموی خلیفہ یزید کو بھیجی گئی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق واقعہ کربلا محض 2 سے 3 گھنٹوں کے درمیان رونما ہو کر اختیام پزیر ہو گیا تھا. کچھ مورخین کے مطابق جنگ تو یکسر لڑی ہی نہیں گئی تھی بلکہ یہ ایک تیزرفتار قتل عام تھا جو ایک گھنٹے میں ختم ہو گیا تھا. جبکہ کچھ تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ جنگ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جاری رہی کیونکہ عمر ابن سعد حضرت حسین کو فوری طور پر مغلوب کرنے اور قتل کرنے کے بجائے انہیں بیعت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں لڑائی کو طول دیتا رہا. علاوہ ازیں مورخین کی نگاہ میں خاندانِ حسین کے ساتھ نرمی اور ابن زیاد پر یزید کی لعنت صرف دکھاوے کے لیے تھی کیونکہ اگر حضرت حسین کو قتل کرنا ابن زیاد کا غلط اقدام تھا تو یذید نے اسکو کوئی سزا کیوں نہ دی.

کچھ مورخین نے حضرت حسین کی بغاوت کو ایک پرجوش شخص کی جانب سے قبل از وقت اور غلط منصوبہ بندی والی مہم قرار دیا ہے، اور نتیجتاً جیسے ہی انہیں مزاحمت کا سامنا ہوا وہ فوراً شکست زدہ ہو کر بالآخر قتل کر دئیے گئے.

اس کے علاوہ کچھ دوسرے تاریخ دانوں کے مطابق، یہ مسلمانوں کی دوسری نسل کے درمیان سیاسی قیادت کے لیے ایک جدوجہد تھی، جس میں ناقص ساز و سامان اور نامناسب منصوبہ بندی کی بناء پہ حضرت حسین کو شکست کاسامنا کرنا پڑا.

اس کے برعکس کچھ مورخین حضرت حسین کی مہم جوئی کو نظریاتی محرکات کا نتیجہ سمجھتے ہیں کیونکہ حضرت حسین اپنے موقف کو حق ماننے اور اُس کے حصول کے لیے نتائج کی پرواہ کیے بغیر پرعزم تھے.

کچھ مورخین کے مطابق حضرت حسین پیغمبر کے خاندان کے فرد کے طور پر امت مسلمہ کی قیادت کو اپنے اوپر اللہ کی جانب سے فرض اور ناقابل تنسیخ حق سمجھتے تھے.

علاوہ ازیں کچھ مورخین کے بقول حضرت حسین اپنے خاندانی تقدس کی بناء پہ اپنے خلاف پرتشدد ردعمل کی قطعی توقع نہیں رکھتے تھے.

کچھ دیگر مورخین کے مطابق کوفہ میں مسلم بن عقیل کی شیعہ بغاوت کی ناکامی اور وہاں اپنی حمایت کے واضح خاتمے کی اطلاعات موصول ہونے کے باوجود واپس پلٹنے کی بجائے آگے بڑھنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت حسین ابتدا سے ہی یذید کی اسلام مخالف جابر حکومت کے خلاف مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے شہادت کا ارادہ رکھتے تھے.

بعد ازاں کربلا میں امویوں کے ہاتھوں حضرت حسین اور انکے ساتھیوں کے قتل کی خبر کوفہ پہنچی تو وہاں شیعان علی گہرے غم و غصہ میں ڈوب گئے، اور ساتھ ہی اٌنہوں نے خود کو بھی قصور وار سمجھنا شروع کر دیا. حضرت علی کے حامیوں اور پیروکاروں (شیعانِ علی) میں سے چند نامور حامیوں نے حضرت حسین کو بغاوت کی دعوت دینے، پھر حسینی کارواں کے کوفہ کے قریب، کربلا تک پہنچنے کے بعد اُن کی کوئی مدد نہ کر سکنے اور حضرت حسین کو امویوں کے نرغے میں بےیارومددگار چھوڑنے کی بنا پر خود کو قصوروار کہنا شروع کر دیا. اس سارے معاملے میں اپنی لاچاری کو وہ اپنا گناہ سمجھتے تھے اور اِس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے انہوں نے امویوں سے لڑنے کے لیے حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ایک صحابی حضرت سلیمان بن صراد کی قیادت میں “توابین” کے نام سے ایک تحریک شروع کی. جب تک عراق امویوں کے ہاتھ میں رہا یہ تحریک زیر زمین رہی. نومبر 683ء میں یزید کی موت کے بعد عراقیوں نے (خاص طور پہ کوفہ کے لوگوں نے) اموی گورنر ابن زیاد کے خلاف بغاوت برپا کر دی جس کے ابتدائی نتیجے میں ابن زیاد عراق سے فرار ہونے پہ مجبور ہو گیا. توابین نے عام لوگوں سے حضرت حسین کی موت کا بدلہ لینے کی اپیل کی جس کے نتیجے میں اُنہیں بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہو گئی. کسی بھی متبادل سیاسی پروگرام کے بغیر توابین نے امویوں کو سزا دینے یا جدوجہد میں اپنے آپ کو قربان کرنے کا حلف اٹھایا. ان کا نعرہ اور واحد مطمع نظر محض ایک تھا یعنی “حسین کا بدلہ”. کوفہ میں حضرت علی کے حامیوں میں سے ایک دوسرا اہم فرد مختار الثقفی بھی تھا جس نے کوفہ شہر پر امویوں کے اقتدار کے خاتمے اور شہر پہ باضابطہ اپنے قبضے کے لیے ایک منظم تحریک شروع کی تو اُس نے توابین کو علیحدہ مہم کی بجائے ساتھ ملکر بڑی تحریک شروع کرنے کی دعوت دی. لیکن توابین کے قائد حضرت سلیمان بن صراد کے صحابی رسول اور حضرت علی کے پرانے ساتھی ہونے کی بناء پہ اکثر شیعان علی نے مختار کی تجویز کو مسترد کر دیا. بہرحال توابین کے پاس سولہ ہزار لوگوں کی شمولیت کی نیت کروائی مگر اُن میں سے چار ہزار لوگ ہی میدان میں اترے. نومبر 684ء میں توابین نے کربلا میں حضرت حسین کی قبر پر ایک دن کے وسیع سوگ منایا جس کے بعد وہ اپنا لشکر لیکر امویوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے. جنوری 685ء میں توابین اور اموی سپاہ کا موجودہ شمالی شام میں عین الوردہ کے مقام پہ آمنا سامنا ہوا. حضرت سلیمان ابن صراد سمیت بیشتر توابین مارے گئے. چند ایک بھاگ کر کوفہ پہنچے اور مختار الثقفی کے ساتھ مل گئے.

مختار کوفہ کا اُن مسلم آبادکاروں کی اولاد تھا جو مسلمانوں کی ابتدائی فتح کے بعد عراق پہنچا تھے. حضرت حسین کے مکہ قیام کے دوران مسلم بن عقیل کی قبل از وقت ناکام بغاوت کی صف اول میں مختار الثقفی بھی موجود تھا. ناکام بغاوت کے دوران وہ ابن زیاد کے فوجیوں کے ہاتھ گرفتار ہو کر جیل بھیج دیا گیا. پھر عبداللہ ابن عمر کی مداخلت کے بعد رہائی پا کر مختار مکہ چلا گیا. وہاں اُس نے یذید کی مخالفت میں برسرپیکار عبداللہ بن زبیر کی تحریک میں مختصر مدت کے لیے جدوجہد کی. پھر یزید کی موت کے بعد وہ کوفہ واپس پہنچ گیا جہاں ابن زیاد کے بعد عبداللہ بن زبیر کا گورنر حاکم تھا. کوفہ پہنچنے کے بعد اس نے حضرت حسین کے قاتلوں سے انتقام لینے اور عبداللہ بن زبیر کے گورنر کی بجائے حضرت حسین کے سوتیلے بھائی محمد ابن الحنفیہ کی کوفہ میں شیعہ حکومت کے قیام کے لیے مہم چلائی. توابین کی شکست کے بعد کے کوفہ کے شیعان علی کی قیادت مختار کے پاس آ گئی. اکتوبر 685ء میں، مختار اور اس کے حامیوں نے، جن کی بڑی تعداد مقامی نومسلم افراد جن کو موالی کہا جاتا تھا پر مشتمل تھی، نے عبداللہ ابن الزبیر کے گورنر کا تختہ الٹ دیا اور کوفہ پر قبضہ کر لیا. جس کے بعد آہستہ آہستہ وہ اپنا قبضہ عراق کے اکثر علاقوں اور شمال مغربی ایران کے کچھ حصوں تک پھیلانے میں کامیاب ہو گیا. مختار نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نومسلم موالیوں کو بےپناہ اہمیت دیتے ہوۂے عربوں کے برابر درجہ دیا جس کے نتیجے میں اُسے غیر عرب اشرافیہ کی طرف سے وسیع حمایت ملی. مختار نے حضرت حسین کے قتل میں ملوث کوفیوں کو چن چن کر قتل کیا. کربلا میں اموی فوج کے عمر ابن سعد اور شمر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا. مختار کے قبضہ کے بعد اموی حکومت کے حامی ہزاروں کی تعداد میں بصرہ کی طرف بھاگ گئے. اسی اثناء میں امویوں نے کوفہ سمیت دیگر علاقوں پہ مختار کے قبضے کے خاتمے اور دوبارہ اپنی حکومت کے قیام کے لیے ابن زیاد کو ایک بڑی فوج دیکر بھیجا. مختار نے اپنے جنرل ابراہیم بن الاشتر کو ابن زیاد کے مقابلے میں فوج کی کمان دیکر بھیجا. اگست 686ء میں ابن زیاد اور اشتر کے مابین جنگ خضیر ہوئی جس میں امویوں کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا. ابن زیاد مختار ثقفی کی فوج کے ہاتھوں میدان جنگ میں مارا گیا. اَس کے بعد امویوں نے مختار کی طرف پیش قدمی کا خیال ذہن سے نکال دیا.

لیکن کوفہ سے عبداللہ ابن الزبیر کے گورنر کو برطرف کرکے اپنی آزادانہ حکومت کے قیام کی وجہ سے مختار ثقفی نے امویوں کے علاوہ عبداللہ بن زبیر کو بھی اپنا دشمن بنا لیا تھا. اسی اثناء میں وہ کوفی پناہ گزین جو امویوں کے حامی ہونے کی وجہ سے مختار کے ڈر سے بصرہ میں قیام پذیر تھے، انہوں نے عبداللہ ابن الزبیر کے چھوٹے بھائی مصعب بن الزبیر جو اُس وقت بصرہ کا گورنر تھا کو کوفہ پر حملہ کرنے پر آمادہ کر لیا. زبیریوں نے کوفہ کی طرف پیش قدمی کی تو مختار نے کوفہ سے باہر آکر اُن کا مقابلہ کرنا چاہا مگر مختار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا. مختار پسپائی اختیار کرکے اپنی زندہ بچ جانے والی باقی فوج کے ہمراہ کوفہ کے محل میں قلعہ بند ہو گیا. مصعب نے کوفہ میں داخل ہو کر محل کا محاصرہ کر لیا جو چار ماہ تک جاری رہا. بالآخر اپریل 687ء کو امویوں کی نیندیں حرام کرنے والا اور حضرت حسین کے قاتلین کو چن چن کر قتل کرنے والا شیعان علی کا کامیاب قائد اپنے سابقہ اتحادیوں یعنی زبیریوں کے ہاتھوں اپنے آٹھ ہزار ساتھیوں سمیت قتل ہو گیا.

حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے کے قتل نے مسلمانوں کی اکثریت کو صدمہ پہنچایا نتیجتاً یزید کو ملامت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. مسلمانوں کی اکثریت کے اذہان میں یذید کا بدکار ہونا راسخ ہوا. شیعوں کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کا سنیوں پر جذباتی اثر پڑا ہے، جو اس واقعہ کو ایک المناک واقعہ کے طور پر یاد کرتے ہیں اور حضرت حسین کی صحبت میں قتل ہونے والوں کو شہداء کے طور پر یاد کرتے ہیں. جبکہ شیعہ مسلمانوں پر خاص طور پر اس واقعے کا اثر بہت گہرا مرتب ہوا. کربلا کی جنگ سے پہلے امت مسلمہ بیشک دو سیاسی دھڑوں میں منقسم تھی مگر مختلف مذہبی فرقے کے طور پہ الگ مذہبی عقائد اور علیحدہ مخصوص رسومات کی تشکیل نہ ہوئی تھی. مگر واقعہ کربلا نے شیعان علی کی ابتدائی سیاسی جماعت کو ایک الگ مذہبی شناخت دی اور اسے ایک الگ مذہبی فرقے میں تبدیلی کی بنیاد رکھی. سنہ 680ء سے پہلے شیعان علی کا کوئی مذہبی پہلو نہیں تھا. تیسرے امام اور ان کے پیروکاروں کے قتال نے شیعیت کو تیزی سے علیحدہ مذہبیت کی تشکیل کا محرک عطا کیا.

شیعوں میں بتدریج یہ نظریہ ارتقاء پاکر راسخ ہو گیا کہ قتل حسین ظالم حکمرانوں کی طرف سے اسلامی نظام میں بدعنوانی کے اجراء کی روک تھام اور اسلام کے بنیادی نظریے کے تحفظ کے لیے دی گئی قربانی تھی. مزید برآں شیعوں میں یہ سوچ بھی رائج ہو گئی کہ حضرت حسین اپنی قسمت اور مجوزہ بغاوت کے نتائج سے پوری طرح واقف تھے. حقیقت ہے کہ شیعوں نے ہی انہیں سید الشہداء کی رفعت پہ براجمان کیا. کربلا کی جنگ کو شیعوں نے راہ خدا میں تکالیف سہنے اور راہ خدا میں جان قربان کر دینے کی ایک اعلیٰ مثال قرار دیا ہے. شیعوں نے اسے مصائب اور جبر کی انتہا قرار دیا. کربلا میں ڈھائے گئے ظلم و ستم کا انتقام بارہویں شیعہ امام محمد المہدی کے مستقبل کے انقلاب کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے. اکثر شیعوں کا عقیدہ ہے امام مہدی کے ظہور کے ساتھ حضرت حسین اور ان کے 72 ساتھیوں کے قاتل دوبارہ زندہ ہوں گے جنہیں امام مہدی خود سزائیں دیں گے.

شیعہ مسلمان مقبرہ حسین کی زیارت کو خدا کی طرف نعمتوں اور انعامات کا زریعہ سمجھتے ہیں. شیعہ روایت کے مطابق حضرت حسین کی قتل گاہ کی پہلی زیارت حضرت حسین کے بیٹے علی زین العابدین اور زندہ بچ جانے والے خاندان کے افراد نے شام سے مدینہ واپسی کے دوران کی تھی. تاریخی طور پر ریکارڈ شدہ پہلی زیارت توابین نے سلیمان بن صرد کی قیادت میں شام روانگی سے قبل حضرت حسین کی قبر پہ جاکر کی تھی جہاں انہوں نے نوحہ کیا اور اپنے سینوں کو پیٹا اور ساری رات وہیں گزاری. اس کے بعد زیارت کی روایت چھٹے شیعہ امام جعفر صادق اور ان کے پیروکاروں کے دور میں باقاعدہ طور پر رائج ہوئی زیدیوں اور صفویوں سمیت عراقی و ایرانی شیعوں کی اکثریت نے کربلا میں مقبرہ حسین کی زیارت کو مبارک عمل مان لیا. محرم کے ایام سے چہلم تک زیارت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے. حتی کہ کربلا کی زمین (مٹی) کو معجزانہ شفا بخش اثرات کی حامل سمجھی جاتی ہے.

حضرت حسین کے لیے ماتم کو شیعہ آخرت میں نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں. حضرت حسین کے قتل کے بعد جب ان کے اہل خانہ کو ابن زیاد کے پاس لے جایا جا رہا تھا تو انکی کی بہن حضرت زینب ان کے سر کے بغیر جسم کو دیکھ کر پکار اٹھی: “اے محمد (صل اللہ علیہ والہ وسلم)! … یہ حسین پڑے ہوئے ہیں، خون سے لت پت ہیں. آپ کی بیٹیاں قید ہیں، آپ کی اولاد کو قتل کر دیا گیا ہے، اور ہوا ان پر خاک اڑا رہی ہے.” حضرت زینب کی اُس گریہ زاری کی سنت طور پر شیعہ مجالس میں مصائب کے بیان کو رائج کیا. حضرت حسین کے بیٹے زین العابدین نے اپنی باقی زندگی اپنے والد کے لیے روتے ہوئے گزاری جس کی سنت میں شیعوں نے قتل حسین پہ رونے کو اپنے مذہب میں باقاعدہ رائج کیا. گریہ زاری کے اس مذہبی مقصد کے لیے شیعوں نے مخصوص جگہیں قائم کرکے خصوصی اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جسے حسینیہ یا حسینی مجلس کا نام دیا گیا. ان مجالس میں کربلا کا قصہ بیان کرنے کے لیے ذاکرین کا پیشہ معرض وجود میں آیا.

شیعہ ترقی پزیر ارتقاء کے مراحل سے گزر رہے تھے. مقبرہ حسین کی زیارت اور نوحہ خوانی اہل بیت اور شیعہ اشرافیہ تک محدود نہ رہی بلکہ ایک صدی کے مختصر عرصے میں شیعوں کے عام طبقات اور کمزور افراد میں بھی یکساں نظریاتی بنیادوں پر پھیل گئی. جس کے نتیجے میں نوحہ خوانی اور زیارت تک محدود شیعوں نے دسویں صدی تک محرم کے ابتدائی دس دنوں میں کربلا کے واقعے کی یاد میں بڑے بڑے اجتماعات اور بےشمار جلوس ہونا شروع ہو گئے. محرم کے جلوس سب سے پہلے 963ء میں بغداد میں پہلے بوید حکمران معیز الدولہ کے دور میں شروع ہوئے. جلوس حسینیہ سے شروع ہوتے اور شرکاء سڑکوں پر ننگے پاؤں پریڈ کرتے، ماتم کرتے ہوئے اپنے سینوں اور سروں کو پیٹتے اور مجلس کے لیے حسینیہ کی طرف واپس آ جاتے. بعض اوقات، زنجیریں، تلواریں، برچھیاں اور چاقوؤں سے خود کو درد پہنچا کر حضرت حسین کو پہنچائے گئے درد میں شریک ہونے کا اعلان کرتے. بغداد میں شروع ہونے والے محرم کے جلوسوں کی حمایت میں جب جنوبی ایشیا میں محرم کے جلوس نکالے گئے تو حضرت حسین کے جنگی گھوڑے کی نمائندگی کرنے والے ذولجانہ نامی گھوڑے کو بھی بغیر سواری کے سڑکوں پر چلایا جانے لگا. ایران میں، کربلا کے جنگی مناظر بڑے بڑے اجتماعات میں سامعین کے سامنے اسٹیج پر پیش کیے جانے لگے جسے تعزیہ اور شبیہ بھی کہا جانے لگا. تاہم ہندوستان میں، تعزیہ سے مراد حضرت حسین کے مقبرے اور تابوت کی نقلیں ہیں جنہیں جلوسوں میں لے جایا جاتا ہے.

پھر محرم کے پہلے دس دنوں میں خصوصی اجتماعات اور بڑے مرکزی جلوس شروع ہو گئے جو دسویں دن اپنے عروج پر پہنچ جاتے. جبکہ مجالس سال بھر میں بونے لگیں. گیارہویں صدی میں مجالس اور جلوسوں میں کچھ سنیوں نے بھی شرکت کرنی شروع کر دی. عام شیعوں میں محرم کی اجتماعی رسومات مذہبی فریضہ بن گئیں. اجتماعی طور پہ کربلا کی یاد منانے کی یہی روایت شیعہ برادری کی اجتماعی شناخت کو مضبوط اور مستحکم کرتی ہے. شیعوں میں کربلا کی جنگ کو اجتماعی طور پر یاد کرنے کی یہ روایت نہ صرف تاریخ کو بار بار اور مسلسل دہراتی ہے بلکہ شیعوں کو زندگی گزارنے اور رہن سہن کے الگ اور ترقی پزیر اصول بھی فراہم کرتی ہے. محرم کے دس دنوں میں شیعوں کو بہادری کے اعلی معیارات اور شہدا کی اعلی اخلاقیات سیکھائی جاتی ہیں. نیکی اور بدی، انصاف اور ناانصافی کے درمیان جنگ کی ایک مجسم تصویر پیش کی جاتی ہے.

حضرت حسین کی موت کا پہلا سیاسی استعمال مختار ثفی نے کیا جب اس نے “حضرت حسین کا بدلہ” کے نعرے کے تحت کوفہ پر قبضہ کیا تھا جبکہ توابین کا کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا. عباسی حکمرانوں نے امویوں کا تختہ الٹ کر اہنی قانونی حیثیت بنانے کے لیے حضرت حسین کی موت کا بدلہ لینے کا دعویٰ کیا. اپنی حکومت کے ابتدا میں ہی انہوں نے محرم کی رسومات کی بھی حوصلہ افزائی کی. آل بویہ (شیعوں کا ایک خاندان جو اصل میں ایران سے تھا جس نے بعد میں عباسی خلیفہ کی حاکمیت کو قبول کرتے ہوئے عباسی دارالحکومت بغداد پر قبضہ کر لیا) نے محرم کی عوامی رسومات کو ریاستی طور پر فروغ دیا تاکہ خود کو مذہبی سرپرست ثابت کر سکے جس کی وجہ سے عراق میں شیعہ تشخص مضبوط تر ہوتا گیا. 1501ء میں ایران پر قبضہ کرنے کے بعد صفویوں نے اثنا عشری شیعہ مذہب کو باقاعدہ طور پر ریاستی مذہب قرار دیا. انہوں نے محرم کی رسومات کو صفوی پروپیگنڈے کا بہترین زریعہ اور خاندان کے شیعہ تشخص کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنایا. پہلے صفوی بادشاہ شاہ اسماعیل اپنے آپ کو بارہویں شیعہ امام مہدی کا پیش رو کہتے تھے. صفویوں کے بعد ترکمانی دودمانہ قاجار خاندان نے ایران پہ قبضہ کیا تو پہلے قاجاری بادشاہ محمد خان نے ریاست اور عوام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے محرم کی رسومات جیسے جلوس، تعزیہ اور مجالس کی سرپرستی شروع کر دی. 20ویں اور 21ویں صدی کے دوران ایران، عراق اور لبنان جیسے ممالک کے شیعوں نے کربلا میں حضرت حسین کی شہادت کو اپنی سیاسی مزاحمت کی علامت بنایا. ان ممالک میں، شیعہ حضرت حسین کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مذہبی اور سیاسی مزاحمت کے لیے ملکی اور بین الاقوامی تحریکوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں.

آیت اللہ خمینی نے رضا شاہ پہلوی کے خلاف شیعہ مجالس کو 1979ء کے ایرانی انقلاب کے دوران ناقابل شکست ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا. نعمت اللہ نجف آبادی، جلال الاحمد اور علی شریعتی جیسے عقلیت پسند دانشوروں نے شیعہ مذہب کو روایتی نوحہ خوانی، ماتم اور سیاسی خاموشی کے برعکس مذہبی انقلاب کا ایک سیاسی نظریہ پیش کیا. رضا شاہ پہلوی کو ظالم اور استحصالی قرار دیکر اس کے خلاف جدوجہد کے لیے کربلا کی جنگ کی مثال دی جانے لگی. رضا شاہ پہلوی کے ریاستی جبر کا سامنا کرنے کے لیے حضرت حسین کی قربانی کی مثال دی جانے لگی. ایرانی انقلاب نے محرم کے دس دنوں کو مذہبی کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بدل دیا. ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی کو روح اللہ خمینی نے اپنے وقت کا یزید قرار دیا. فرانس میں قیام کے دوران اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ “یزید کے خلاف حضرت الحسین کی جدوجہد کو بادشاہت کے غیر اسلامی اصول کے خلاف جدوجہد سے تعبیر کیا جائے “. یوں ایرانی شیعہ رضا شاہ کے خلاف بغاوت کو یذید کے خلاف حضرت حسین کی بغاوت کے طور پر دیکھنے لگے. ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی حکومت نے عراقی حملہ کو یزیدی حملہ قرار دیا جس کے نتیجے میں پورا ایران لڑ مرنے کے لیے تیار ہو گیا. اسی طرح لبنانی مسلح تنظیم حزب اللہ بھی اپنی جدوجہد کے لیے حضرت حسین کی جدوجہد کی مثال دیتے ہیں. جنوبی لبنان اور اسرائیل کی افواج کو یذیدی فوج قرار دیتے ہیں.

جنوبی ایشیا کے مشہور فلسفی شاعر علامہ اقبال حضرت حسین کی قربانی کو اللہ کے نبی حضرت اسمٰعیل کی قربانی کی مثال سمجھتے ہیں اور یزید کے خلاف حضرت حسین کی جدوجہد کا موازنہ فرعون کی مخالفت میں اللہ کے نبی حضرت موسی کی جدوجہد سے کرتے ہیں. اسی طرح اردو مشہور شاعر اسد اللہ غالب نے حضرت حسین کے مصائب کا موازنہ دسویں صدی کے صوفی منصور الحلاج سے کیا ہے جسے الوہیت کا دعویٰ کرنے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی.

عربوں میں رواج تھا کہ نامور لوگوں کے قتل کی کہانی کو لکھ کر نسلوں تک باقی رکھا جاتا تھا. اسی لیے حضرت علی، حضرت عثمان اور دیگر نامور لوگوں کی موت پر مقاتل لکھا گیا لیکن کربلا کے بعد مقاتل کی صنف بنیادی طور پر حسین کی موت کی کہانی تک محدود ہو گئی.

ابو مخنف کے مقاتل کے علاوہ حضرت حسین پر دیگر عربی مقاتل میں حضرت حسین کی پیدائش کو ایک معجزہ کے طور پی پیش کیا جاتا ہے. اُن مقاتل میں ان کی تاریخ وفات کے ساتھ ساتھ انکی تاریخ پیدائش بھی 10 محرم بتائی گئی ہے. مقاتل میں درج ہے کہ کائنات کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی عاشورہ (10 محرم) کے دن تخلیق کیا گیا ہے. کچھ مقاتل میں عاشورہ کو حضرت ابراہیم سمیت حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے سمیت دیگر انبیاء سے متعلق متعدد دیگر واقعات کا دن قرار دیا جاتا ہے. حضرت حسین کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مختلف معجزات انجام دیے تھے، جن میں اپنے ساتھیوں کو پیاس کے دوران ان کے منہ میں انگوٹھا ڈال کر پیاس بجھانا اور آسمان سے کھانا اتار کر ان کی بھوک مٹانا، اور کئی ہزار اموی حملہ آوروں کو ہلاک کرنا شامل ہے. کچھ دیگر مقاتل کا دعویٰ ہے کہ جب حضرت حسین کی موت ہوئی تو اس کے گھوڑے نے آنسو بہائے اور بہت سے اموی سپاہیوں کو ہلاک کر دیا. آسمان سرخ ہو گیا اور خون کی بارش بھی ہوئی. فرشتے، جنات اور جنگلی جانور رو پڑے. یہ بھی درج ہے کہ حضرت حسین کے کٹے ہوئے سر سے نور نکلتا رہا اور کٹے ہوئے سر نے قرآن کی تلاوت کی. بعد میں مقتل فارسی، ترکی اور اردو ادب میں داخل ہوا تو مرثیہ اور نوحہ نے جنم لیا.

سولہویں صدی میں شیعہ مذہب ایران کا سرکاری مذہب بن گیا تو صفوی حکمرانوں نے مرثیہ اور نوحہ لکھنے والے شاعروں کی سرپرستی کی. مختلف فارسی مصنفین نے واقعہ کربلا کا رومانوی اور ترکیب شدہ ورژن بیان کرتے ہوئے تحریریں لکھیں. سعیدالدین کی رودات الاسلام، الخوارزمی کی مقتل نورالعاء اور واعظ کاشفی کی رودۃ الشہداء قابل ذکر ہیں جنہوں نے مرثیہ اور نوحہ کا اجراء کیا. رودۃ الشہداء سے متاثر ہو کر آذربائیجانی شاعر فضولی نے عثمانی ترک زبان میں حدیقۃ الصعدہ کے نام سے مرثیہ اور نوحہ لکھا. البانی مرثیہ نگار دلیپ فریشری کا Kopshti i te Mirevet کے عنوان سے لکھا ہوا مرثیہ اب تک کا سب سے قدیم، اور سب سے طویل البانی مرثیہ ہے.

julia rana solicitors london

اردو مرثیہ بنیادی طور پر مذہبی نوعیت کا ہے اور عام طور پر کربلا کی جنگ پر نوحہ خوانی پر توجہ مرکوز کرتا ہے. بیجاپور کے جنوبی ہندوستانی حکمران (علی عادل شاہ) اور گولکنڈہ سلطنت (محمد قلی قطب شاہ) شاعری کے سرپرست تھے اور محرم میں اردو مرثیہ خوانی کی حوصلہ افزائی کرتے تھے. اس کے بعد اردو مرثیہ پورے ہندوستان میں مقبول ہوا. اردو کے مشہور شاعروں میر تقی میر، مرزا رفیع سودا، میر انیس اور مرزا سلامت علی دبیر نے بھی مرثیہ لکھا ہے. کارل مارکس کا حضرت حسین سے موازنہ کرتے ہوئے، جوش ملیح آبادی نے دلیل دی کہ کربلا ماضی کی وہ کہانی نہیں جسے مذہبی علماء مجالس میں بیان کریں، بلکہ اسے طبقاتی معاشرے اور معاشی انصاف کے ہدف کی طرف انقلابی جدوجہد کے نمونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply