معروف رقاصو مہک ملک کے کان میں کسی جادوگر نے سرگوشی کی کہ وہ ہوبہو ہندوستانی اداکارہ تمنا بھاٹیا جیسی دکھتی ہیں، نتیجتاً مہک ملک نے اپنے رقص اور اداؤں میں تمنا بھاٹیا کی نقل کرنا شروع کر دی۔
جادوگر کی اس سرگوشی میں کچھ ایسا جادو تھا کہ جہاں فن سے ناواقف لوگ اس کی بھینٹ چڑھتے گئے، وہاں اچھے خاصے پروفیشنل بھی عقل سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
شنید ہے کہ اب سید نور صاحب مہک ملک کے جلوؤں سے متاثر ہونے کے بعد ان کے ساتھ کوئی فلم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
یعنی کہ صنعت رنگ و بو میں ہمارا معیار اب اس حد تک آن پہنچا ہے کہ پچیس کروڑ کی آبادی میں ہمیں کوئی شوخ چنچل حسینہ نہیں مل رہی کہ ڈرامے اور فلم میں اسے کاسٹ کیا جا سکے ۔۔
بات یہ نہیں کہ مہک ملک اچھا رقص کرتی ہیں اور دلکش اداؤں کی مالک ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کی عورتیں “مستورات” بن گئی ہیں ، جو پانچ دس باحوصلہ عورتیں پیچھے باقی رہ گئی ہیں، ان کا حوصلہ جسامت سے ایسے ٹپکتا ہے کہ وہ ” بھیا ” لگتی ہیں ۔
مخنث کا انتخاب ہی ہمارے پاس آخری میسر حل ہے اور یہاں یہ بات قطعاً کسی جنسی رجحان یا کمتری و برتری ثابت کرنے کیلئے نہیں کی جا رہی۔
انگریزی محاورے کے مطابق اگر یہ رونے کا مقام نہ ہوتا تو اس پہ خوب ہنسا جا سکتا تھا ۔
مہک ملک رقاصو اگرچہ برا نہیں لیکن اس کا فگر کھلے گھگھرے میں آخر کب تک چھیایا جا سکتا ہے۔
شاید رقاصو کا لفظ سماعتوں کیلئے اجنبی ہو، یہ لفظ ایک لطیفہ سننے کے بعد فی البدیہہ گھڑا گیا،
کراچی کے ایک میمن صاحب نے بلبل کو چہکتے دیکھا تو کہا
“درخت کی شاخ پہ بیٹھ کر بلبل بولتی ہے ”
وہیں سے ایک پختون دوست کا گزر ہوا، تو اس نے میمن کو کہا کہ آپ نے جملہ غلط بولا، اصل جملہ یوں ہے کہ
” درخت کی شاخ پہ بیٹھ کر بلبل بولتا ہے ”
اب ان دونوں میں اس بات پہ بحث ہو گئی، دونوں ایک دوسرے کو غلط اور خود کو ٹھیک کہہ رہے تھے ۔۔
وہاں سے ایک پروفیسر صاحب کا گزر ہوا تو دونوں نے کہا کہ ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ اردو زبان کے ماہر پی ایچ ڈی پروفیسر ہیں،،،،
دونوں نے اپنا مقدمہ پروفیسر صاحب کے سامنے رکھا۔۔
پروفیسر صاحب پہلے تو معنی خیز انداز سے مسکرائے اور پھر فرمانے لگے کہ تم دونوں غلط ہو، اصل جملہ کچھ یوں ہے
” درختاں کی شاخاں پر بیٹھ کر بلبلاں بولت ہے ”
بس ہمارے مہک ملک بھی اسی بلبل کی طرح نہ رقاص ہیں ، اور نہ رقاصہ، یہ رقاصو ہیں ۔
بات ہو رہی تھی کہ فلم انڈسٹری اور شوبز اس حد تک کیسے گر گئی ہے کہ مہک ملک اب ہماری فلموں کی ہیروئن ہوں گی۔اس قدر قحط پہلے کبھی اس ملک میں نہ دیکھا تھا، آج فن و ادب یہاں آخری سانسیں لے رہا ہے، اگرچہ یہ اتنی زیادہ حیرانی اور پریشانی کی بات نہ تھی کیونکہ زوال کبھی کسی ایک ادارے یا صنعت میں نہیں آتا، یہ آتا ہے تو پورے کنبے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس کے باوجود صنعت رنگ و بو کے حوالے سے حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی محسوس کی گئی ۔
فن و ادب کسی بھی سماج کی تہذیب و ثقافت کا چہرہ ہوتے ہیں، آج ڈیجیٹل دور میں شوبز انڈسٹری ایک مستند چہرہ بن کے سامنے آئی ہے، اور ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ چہرہ بگاڑ کر ہی دم لینا ہے۔
شاید اس کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس ملک کی اکثریت کو انڈسٹری سے دور رکھا گیا ہے، کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی خاندانی اقدار کا عنوان دے کر، اب بچ بچا کے بس لاہور کی چار گلیاں ہی باقی ہیں جہاں سے شوبز انڈسٹری کیلئے ایندھن اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔اور بدقسمتی یہ کہ ان چاروں گلیاں پہ قبضہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں اردو کے ہمارے پی ایچ ڈی پروفیسر بلبلاں کہہ رہے تھے۔
سیانے ٹھیک کہہ گئے ہیں کہ طاقت ہی سچ ہے ، اب طاقت چونکہ بلبلاں کے پاس ہے تو وہی کچھ ہوگا جو وہ منوائیں گے ، ان کا رعب اس قدر ہے کہ اچھا خاصا ذہین اور پڑھا لکھا آدمی بھی اس سے باہر سوچے تو اس کے پر جل جائیں، یہی ہمارے ڈاکٹر عمر عادل صاحب کو دیکھ لیجیے ،وہ ایک آرتھو پیڈک سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ فن و ادب پر بڑی اتھارٹی بھی مانے جاتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کہ ان کا تعلق بھی لاہور کی انہی چار گلیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہے۔
کہتے ہیں کہ مہک ملک جیسے انگ ، ادا اور رقص والی حسینہ اس خطے میں آج تک پیدا ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔
اب یہاں کوئی کیا کہے، اپنا سینہ پیٹیں یا سر کو دیوار پہ ماریں ؟
ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ روبی انعم برصغیر کی سب سے بڑی اداکارہ اور ہنی البیلا اس ملک کے سب سے بڑے اداکار ہیں۔
یہاں تو باقاعدہ حق بنتا ہے کہ ہاتھوں کو کسی جلتے کڑاھے میں ڈبویا جائے۔۔۔
روبی انعم ؟؟
خدا نہ کرے کہ کبھی کوئی حاملہ جاندار روبی انعم کی، اوئے، سن لے۔
اب روبی انعم یا ہنی البیلا بڑے اداکار ہیں تو مہک ملک کو تو یقینا ًآسکر ایوارڈ ملنا چاہیے ،یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ فن کے ساتھ یہ بلاد کار ہمارے مقتدرہ نے جان بوجھ کر کیا کہ بعض اوقات سیلیبریٹیز ایک بڑی آواز بن جاتی ہیں اور پوری دنیا انہیں سنتی ہے، جیسے ہمسایہ ملک میں نصیر الدین شاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، یہی سوچ کر کہ ہمارے ہاں کوئی نصیر الدین شاہ جیسی بڑی آواز پیدا نہ ہو، ہمیشہ ایسے پھل کو پانی دیا گیا جو بظاہر سلامت تو ہو لیکن کیڑا پکڑنے میں دیر نہ کرے۔
خدا کے بندو! یہ بات نجانے کیوں تمہارے بھیجے میں بیٹھ گئی ہے کہ مغلوں نے چونکہ یہاں فن و ادب کو عروج بخشا تھا تو اسی لئے مغلوں کے دیئے تحفے، یہ مخنث، ہی فن کے اصل وارث ہیں۔۔۔
مخنث کا مغل دربار میں رہنا سیکورٹی کی وجہ سے تھا کہ یہ بہت وفادار تھے،
” وفا کی دیوی کا مسکن مفعول کا دل ہے”۔
(مفعول اور وفا کے تعلق پہ ایک علیحدہ بحث کی جا سکتی ہے)
اسی طرح کسی بچے کی پیدائش یا گل تراشی کے موقع پر انہیں ناچ گانے کی اجازت بھی دے دی جاتی کہ چار پیسے کما لیں اور ان کا شوق بھی پورا ہو جائے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ” بے ضرر” مخلوق سے شاہ اور شہزادوں کی وہ عورتیں محفوظ رہتیں جو وجۂ تسکین و سرور ہوتیں۔
اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ یہی لوگ فن کے وارث ہیں، اور پھر پچیس کروڑ کی آبادی میں تمہیں اگر حسین عورت نہیں مل رہی تو سٹوڈیو کو بند کر دینا ہی بہتر ہوگا۔۔۔
ہم پیچیدگیوں کے مارے لوگ ہمیشہ ہی سمت کی روانی کو بدلنا چاہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہی سمت بدلنا ہی حقیقی خوبصورتی کو سامنے لائے گا، نتیجے میں بدبو اور کراہت ہی ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے، فطرت کو اپنی جگہ بنانے میں رکاوٹ ڈالو گے تو خود بھی جمالیات و سعادتوں سے محروم رہو گے، ہم نے چار انگریزی الفاظ رٹ کر فیصلہ یہ کیا ہے کہ فطرت پہ رہنا گنوار پن کی علامت ہے، اس لئے جتنا دور ہو سکے ہمیں الٹی سمت میں بھاگنا چاہئے، گویا کہ گورا فطرت سے دور جا کے ہی ترقی کر پایا ہے، اگر چار کی بجائے انگریزی کے مزید کچھ الفاظ پڑھ لئے جاتے تو معلوم پڑتا کہ گورے کی ترقی کا راز ہی فطرت کا قرب ہے۔
کارل گستاو یونگ ایک تحقیقی دورے پر کسی قدیم قبیلے کے ہاں مہمان تھے، قبیلے کے بزرگ سربراہ نے ایک دن یونگ کے کان میں کہا
” جانتے ہو، ہمارا قبیلہ صبح سورج کو اٹھنے میں مدد دیتا ہے، اسے کندھا فراہم کرتا ہے کہ یہ بھاری وجود خود نہیں اٹھ سکتا، اور شام کو اسے ڈوبنے میں بھی ہمارا قبیلہ مدد کرتا ہے کہ دن بھر کی پھنکار سے یہ غبارے کی طرح ہلکا ہوجاتا ہے ، ہماری مدد کے بغیر یہ ڈوب نہیں سکتا ”
اب بزرگ سربراہ کے اس جملے پر ہم جیسے لوگ جملے کستے اور مذاق اڑاتے، یونگ جیسے صاحب فہم نے اس بات کو اتنا سنجیدہ لیا کہ آگے جاکر انہوں نے لکھا کہ جدید آدمی کے زوال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جدید آدمی طلوع و غروب کی وقت سورج کی مدد نہیں کرتا ۔

لیکن مسئلہ شاید وہی ہے کہ لاہور کی چار گلیاں ہیں، اور انہی چار گلیوں کے وہ جگت باز ہیں جن کے تماشے ہم آئے روز ٹی وی اور فلموں میں دیکھتے و سنتے رہتے ہیں۔
حقیقی فن کیلئے ہمیں ان چار گلیوں سے باہر نکلنا ہوگا، اس ملک میں بڑا ٹیلینٹ ہے، بڑے قابل لوگ ہیں،، ثقافت بہت وسیع ہے، ہم آنکھیں کھولیں تو ہمیں کچھ دکھائی دے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں