رات کے قریباً ساڑھے تین بجے ہوں گے، جعفر ایکسپریس بلوچستان میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ کچھی بولان کا کوئی ویرانہ تھا جہاں اچانک ٹرین نے بریک لگائی۔ آخری سے پہلے ڈبے کے ٹھنڈے کمپارٹمنٹ میں سوتے ہوئے مجھے لگا کہ کوئی اسٹیشن ہو گا۔
اچانک کہیں سے مختلف آوازوں کا شور بلند ہوا جو آہستہ آہستہ قریب آتا محسوس ہوا۔ یہ تو بلوچستان کا خطرناک علاقہ ہے، یہ سوچ کہ میں اٹھ بیٹھا۔ ہمت کی اور دروازے سے سر باہر نکالا، کیا دیکھتا ہوں کہ بندوقیں لٹکائے اور چہروں کو ڈھکے کچھ آدمی ٹرین کے قریب بڑھ رہے ہیں جن کے ہاتھ میں مشعلیں ہیں۔
یہ دیکھ کہ میرا خون خشک ہو گیا اور علیحدگی پسند بلوچوں کے حوالے سے اپنے تمام تر وہم مجھے سچ ہوتے نظر آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو سوموار کو ہسپتال میں بہت مصروفیت ہوتی ہے لیکن انوار بھائی نے میسج ہی ایسا کیا تھا کہ وقت نکال کر کال کرنا لازمی ٹھہرا۔
حافظ آباد کے شُدھ چاول جیسا انوار بھٹی، مجھے تکیہ تارڑ سے ملا تھا اور ہماری دوستی ابھی نئی نئی تھی۔ تکیہ تارڑ لاہور میں ماڈل ٹاؤن پارک کا وہ خوبصورت گوشہ ہے جہاں مشہور سیاح اور ادیب، مستنصر حسین تارڑ صاحب روز صبح واک کے بعد محفل سجاتے ہیں۔ یہاں ان کے دوستوں سمیت ملک بھر سے بھانت بھانت کے لوگ انہیں ملنے آتے ہیں۔ پہاڑوں کے دیوانوں اور صحراؤں کے جوگیوں کی محفلیں جمتی ہیں اور ہم جیسے کم علم اپنی جھولیاں بھر کے اٹھتے ہیں۔
انوار بھائی آج کل لاہورکے اسلامیہ کالج سول لائنز میں انگریزی کے لیکچرار ہیں اور میرے سفر کے جنون سے خوب واقف ہیں۔
بیس مئی کو نجانے کیا سوچ کے انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ شاہ جی، کوئٹہ چلیں۔ ؟ کوئی عقل و شعور والا شریف بندہ ہوتا تو ہیٹ ویو کی وجہ سے فوراً منع کر دیتا لیکن الحمد للہ، ایسا دماغ رکھتے ہی نہیں جو سفر کی آفر پہ دوبارہ سوچے۔۔یہ بھی مت سمجھیے گا کہ ہم دنیا جہان کے ویلے ہیں، اتفاقاً کچھ دن پہلے ہی ضلع بھر میں چوبیس مئی بروز جمعہ کی چھٹی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اللہ نواب صادق محمد خان عباسی پنجم، سابقہ والیء ریاست بہاولپور کے درجات بلند کرے جن کے یومِ وفات پر یہ اضافی سرکاری چھٹی رحیم یارخان سمیت پورے بہاول پور ڈویژن میں بھی کی جا رہی تھی۔
سو جمعہ اور اتوار کی دو چھٹیوں کے ساتھ ہفتہ اور سوموار کی چھٹی کی عرضی ڈالی اور انوار بھائی کو کنفرم کر دیا کہ مابدولت آپ کے ہمراہ بلوچستان کی قدم بوسی کو تیار ہیں۔
موصوف تو شاید نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے، جھٹ سے آنے جانے کی ٹکٹیں بُک کروا لیں اور مجھے مطلع کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بلوچستان میں اپنے دوستوں کو فون گھمانے شروع کر دیئے ۔
چمن جانے کی شدید خواہش بھی نجانے کب سے دل میں دبی تھی جو کوئٹہ کا سن کہ باہر آ گئی اور ہم نے ایک دن کوئٹہ سے چمن ٹرین پہ جانے کا پلان بنانا شروع کر دیا۔ لیکن نصیب میں زیارت کی زیارت لکھی جا چکی تھی۔۔چوبیس مئی بروز جمعہ کو رات ایک چالیس پہ جعفر ایکسپریس خانپور رکی تو آنکھوں میں نئی منزلوں کا خمار لیئے دو مسافر اپنے ڈبے میں جا بیٹھے۔ اندھیرے میں اپنی سیٹ ڈھونڈی اور باقی مسافروں کو تنگ نا کرتے ہوئے برتھ بچھا کے سو گئے۔ اوپر سوئے انوار بھائی کو تو فوراً نیند آ گئی تھی لیکن میں اوباڑو پہنچنے تک جا کے سویا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے قریباً ساڑھے تین ہوں گے، جعفر ایکسپریس بلوچستان میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ کچھی بولان کا کوئی ویرانہ تھا جہاں اچانک ٹرین نے بریک لگائی۔
آخری سے پہلے ڈبے کے ٹھنڈے کمپارٹمنٹ میں سوتے ہوئے مجھے لگا کہ کوئی اسٹیشن ہو گا۔ اچانک کہیں سے مختلف آوازوں کا شور بلند ہوا جو آہستہ آہستہ قریب آتا محسوس ہوا۔ یہ تو بلوچستان کا خطرناک علاقہ ہے، یہ سوچ کر میری سٹی گم ہو گئی اور میں اٹھ بیٹھا۔ ہمت کی اور دروازے سے سر باہر نکالا، کیا دیکھتا ہوں کہ بندوقیں لٹکائے اور چہروں کو ڈھکے کچھ آدمی ٹرین کے قریب بڑھ رہے ہیں جن کے ہاتھ میں مشعلیں ہیں۔
یہ دیکھ کہ میرا خون خشک ہو گیا اور علیحدگی پسند بلوچوں کے حوالے سے اپنے تمام تر وہم مجھے سچ ہوتے نظر آئے۔۔۔
یہ نقاب پوش جتھا بھاگ کے ٹرین کے قریب آیا، اس سے پہلے کہ یہ مجھ پہ حملہ کرتے میری آنکھ کھل گئی اور سفر کا یہ پہلا خواب ٹوٹ گیا۔
اے سی کمپارٹمنٹ میں میرے علاوہ سب سو رہے تھے۔ بس اس بھیانک خواب کے بعد پھر پورے سفر میں مجھے نیند نہ آئی۔ کہتے ہیں خواب میں آپ وہی کچھ دیکھتے ہیں جو پسِ پردہ آپ کے ذہن یا خیالات میں چل رہا ہوتا ہے۔ مجھے بلوچستان سے کبھی ڈر نہیں لگا اور ہمیشہ محبت ہی ملی لیکن انوار بھائی کے کچھ خدشات میرے بھی ذہن کے کسی خانے میں بیٹھ گئے تھے۔ اگلے دن صدقہ دینے کا سوچ کر خود کو مطمئن کر لیا۔
صبح چھ بجے کے قریب جعفر ایکسپریس روہڑی جنکشن پہ رکی تو مجھے چائے کی طلب نیچے اتار لائی۔ یوں تو میں اسٹیشن کے کھانوں سے بالکل پرہیز کرتا ہوں (اور خصوصاً سخت گرمی میں کوئی بھی باسی کھانا یا گندا پانی آپ کی صحت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے) لیکن چائے مجبوری تھی۔ ایک سٹال سے گرما گرم چائے کا کپ پکڑا اور پورے اسٹیشن کا چکر لگایا۔ فوٹوگرافی کے ساتھ ساتھ کچھ قلیوں سے گپ شپ بھی ہوگئی۔ یہاں روہڑی سے دادو جانے والی ایک پسنجر ٹرین میں ”کراچی سرکلر ریلوے” کا ایک ڈبہ لگا نظر آیا۔
اس کا بھی ایک شاندار ماضی رہا ہے۔
کراچی واسیوں کی سہولت کے لیئے پاکستان ریلوے نے 1969 میں کراچی سرکلر ریلوے کی بنیاد رکھی جو ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی سٹی سے لانڈھی اورملیر چھاؤنی کے درمیان لوکل ٹرینیں چلتی تھیں۔ یہ ریلوے کراچی کے لوگوں میں بے حد مقبول ہوئی اور اس نے خوب منافع کمایا۔
ستر اور اسّی کی دہائی اس کے عروج کا زمانہ تھا جب روزانہ کم و بیش 104 ٹرینیں چلائی جاتی تھیں، جن میں 80 مرکزی لائن جب کہ 24 لُوپ لائن ایک ریلوے برانچ لائن (ایسی لائن جو مرکزی ریلوے لائن سے نکلتی ہے اور تھوڑے فاصلے کے بعد اس میں دوبارہ شامل ہو جاتی ہے) پر چلتی تھیں۔ لیکن ٹرانسپورٹ مافیا کی سازشوں نے اس کا بٹھہ بٹھا دیا۔
نوے کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا۔ ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کرنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا، اور اس کا ڈبہ مجھے آج روہڑی میں نظر آ گیا ۔
ٹرین روہڑی سے چلی تو مجھے دو خوبصورت مقامات کا انتظار تھا جنہیں دیکھنے میں ٹرین کے دروازے میں آ ٹھہرا۔ سب سے پہلا روہڑی جنکشن سے کچھ آگے کا وہ مقام جہاں سے کراچی اور کوئٹہ جانے والی لائنیں جدا ہوتی ہیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں یہ مقام کہیں محفوظ تھا۔ دوسرا سکھر کے ایوب پُل کو پار کرتی ٹرین سے سندھو دریا اور ستین جو آستان کا نظارہ، جو ایک لاجواب منظر ہے۔
سکھر، سندھ میں میرا پسندیدہ ترین شہر ہے اور میرے کچھ قریبی دوستوں کا آبائی وطن بھی۔ یہ شہر تاریخی، ثقافتی، سیاحتی و معاشی ہر لحاظ سے بہترین کہلایا جا سکتا ہے۔ ایک سیاح کے لیئے اس شہر میں بہت کچھ ہے جیسے سات سہیلیوں کا مزار (ستین جو آستان)، سادھو بیلا مندر، معصوم شاہ مینارہ، گھنٹہ گھر، لائیڈ بیراج و میوزیم، لینس ڈاؤن پل، ایوب پل، لب مہران، ہندو تاجروں کے پرانے گھر، اروڑ کے کھنڈرات، پرانا شہر، مندر اور پارکس۔ یہ شہر آپ کو بور نہیں ہونے دے گا بشرطیکہ ٹھنڈے موسم میں جائیں۔ سکھر پہ میرا تفصیلی مضمون آپ ایکسپریس کے گزشتہ شماروں میں پڑھ سکتے ہیں۔
سکھر کو الوداع کرتے ہی میں اپنی سیٹ پہ آ بیٹھا۔ ساتھی عوام اب آہستہ آہستہ جاگ رہی تھی۔ تب تک میں محمود کھوسہ کو میسج کر چکا تھا، جو ڈیرہ اللہ یار میں ہمارے لیئے ناشتے کا انتظام کرنے میں مصروف تھا۔ آٹھ بجے ہم دونوں پاکستان کے گرم ترین شہروں میں سے ایک، جیکب آباد اترے تو چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا جیسے دوپہر کے دو بج رہے ہوں۔
یہاں ٹرین نے پانی بھرنے اور سامان اتارنے میں کچھ وقت لگایا۔ یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ پاکستان ریلوے کی ٹریکنگ ایپ میں جعفر ایکسپریس کا روٹ صرف جیکب آباد تک دکھایا گیا ہے، آگے بلوچستان کے اسٹیشنوں کا کوئی نشان نہیں۔ یہ شاید وقت کی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔ گزشتہ کچھ سالوں میں بلوچستان میں ٹرینوں پر ہونے والے حملوں کے پیشِ نظر یہ ایک اچھا فیصلہ ہے تاکہ کوئی ٹرین کی لوکیشن کو ٹریس نہ کر سکے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں