مثبت عصبیت – Kith & Kin/احمر نعمان

ابن خلدون دلچسپ شخصیت ہیں انہوں نےپندرہویں صدی عیسوی میں ڈارون سے کوئی چار سو برس قبل کہا کہ انواع کا شمار بدلتا رہتا ہے، مارکس سے پانچ سو سال قبل لکھا کہ منافع کی بنیاد ‘لیبر’ ہے۔ کامٹے سے صدیاں قبل، کلچر کی ‘سائنس’ پر بات کی، نطشے کی Will to power سے سینکڑوں سال قبل بتایا کہ انسان کی جبلت غلبہ پانے کی ہے۔

ابن خلدون کے خیال میں انسان فطری طور پر وحشی ، احمق اور جاہل ہے مگر اس کے باوجود جو بات اسے ممتاز کرتی ہیں ، وہ اس کی عصبیت ہے۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ دنیا میں ظلم ہے اور انصاف کا وجود نہیں، ہابس کی لیوتھین کی طرح ریاست کے بارے میں ابن خلدون کا فرمان ہے کہ چونکہ ریاست خود بےپناہ طاقت رکھتی ہے، اس وجہ سے وہ فطری طور پر ناانصاف ہے اور ایسے میں آپ کا خاندان ہی آپ کو انصاف دلا سکتا ہے۔ اپنے خاندان، اپنے بیوی بچے، والدین کے لیے پیار محسوس کرنا فطری ہے ، انہیں نقصان سے بچانا فطری ہے۔ یہ اجتماعیت اور Group Solidarity یا سماجی ہم آہنگی/ اجتماعیت عصبیت ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو یہ اتنا منفی لفظ نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔

ان کے بقول تہذیب اور سویلائزیشن آسمان سے نہیں اُترتیں، تہذیب ان دیہی علاقوں سے پھوٹتی ہے جہاں زندگی زیاہ سفاک ہوتی ہے اور بقا کو خطرہ زیادہ لاحق ہوتا ہے کہ انسانوں میں جارحیت فطری ہے۔ ابن خلدون دیہی اور شہری زندگی کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں، دیہی لوگ جنہیں وہ بدو لکھتے ہیں، گروہی عصبیت رکھتے ہیں مگر شہری لوگ پُر تعیش زندگی کے باعث سُست ہو جاتے ہیں اور اجتماعی شعور سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں پھر اندرونی تقسیم ہو جاتی ہے، شہری بمقابلہ دیہی، امیر بمقابلہ غریب، روشن خیال بمقابلہ پسماندہ  اور شہر والے اس کی نظر میں زیادہ بیچارے ہیں، ریاستی مظالم کا بھی شکار اور عصبیت سے بھی آزاد، اور ریاستی عفریت کے نرغے میں جن سے دیہی لوگ آزاد رہتے ہیں۔

روشن خیالی کی تحریک دیکھیں اور اس دور کے کسی نمایاں فلسفی کو دیکھیں تو وہ فرد کو مرکز کائنات بناتے، انفرادیت کی بات کرتا ہے مگر ابن خلدون کہتے ہیں کہ انسان فطرتاً  اجتماع کی جانب میلان رکھتا ہے۔ (افسوس !یہ بات بھی ہم اب اگسٹ کامٹے کے حوالہ سے جانتے ہیں)۔

ابن خلدون کی نظرمیں عصبیت خانہ بدوشی کے زمانہ سے موجود ہے اور قبائلی دور میں یہ مضبوط تھی، مگر تہذیبی ارتقا کے ساتھ یہ کمزور ہوتی جاتی ہے۔ یہ عصبیت قبیلہ کو، قوم کو اور انسانوں کو متحد رکھتی ہے، آپس میں محبت کے علاوہ دوسروں سے جنگ پر مجبور کرتی ہے تاکہ وہ اپنی یا اپنے قبیلہ/قوم کی حفاظت کر سکیں۔ یہی قربانی کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ قومیں، حکومتیں ، سلطنتیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں ہمیشہ یعنی ایک قوم کسی مثبت تعصب کی بنیاد پر حاکم بنتی ہےپھر شیرازہ بکھرنے لگتا ہے کیونکہ سالیڈیریٹی یا عصبیت کمزور ہونے لگتی ہے اور پھر ایک نیا گروہ/نئی جماعت یا قوم اُبھر کر سامنے آتی ہے، مگر کچھ عرصہ بعد اسی کے اندر سے اسی زوال کے اسباب پیدا ہوتے ہیں، جس عصبیت کی بنا پر افراد متحد ہوتے ہیں، اس کی میعاد پوری ہونے لگتی ہے۔

ابن خلدون اس سفر کو دائروی /دوری cyclic قرار دیتے ہیں جو تقریبا ًہر خاندان، قوم، حکومت یا سلطنت، ہر ریاست اور تہذیب کے عروج و زوال کی وضاحت کرتا ہے۔ ان میں بھی ہر جاندار کی طرح پیدائش کا وقت آتا ہے، شباب اور پھر جوانی، ادھیڑ عمری ، بڑھاپا اور پھر اختتام یا موت۔ اقبال نے اس تصور کو اہم ترین قرار دیا جن پر ابن خلدون کے کافی اثرات دکھائی دیتے ہیں، غالباً ان کے مّلت کے تصور کے پیش نظر یہی گروہی تعصب ہی کارفرما تھا۔ جس طرح ابن خلدون بدوی، قبائلی اور صحرائی کلچر کو شہری پر مقدم گردانتے ہیں جہاں تہذیب کی بنیاد ملتی ہے، اقبال کا بندہ صحرائی اور مرد کوہستانی اسی کی شاعری ہے۔

ابن خلدون کہتے ہیں کہ اقوام شاذ ہی اس وقت قائم رہتی ہیں جب مختلف ثقافتوں، زبانوں اور مذاہب پر ایک ہی حکومت قائم ہو، اسلامی خلافتوں کی عظیم ترین خلافت، اس دور کی خلافت قرطبہ، جس نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں، عرب بولنے والوں، لاطینی بولنے والوں، عبرانی بولنے والوں، اور مختلف زبان کے لوگوں پر حکومت کی۔ اپنی تمام شان و شوکت کے باوجود اس کا انہدام اس لیے ہوا کہ وہاں یہ عصبیت یا سماجی ہم آہنگی کمزور تھی۔

ہمارے ہاں اس کی ایک مثال مشرقی و مغربی پاکستان کی علیحدگی ہے، برصغیر میں یوں بھی گروہی تعصب شاید ابھی بدوی دور جیسا ہی ہے مگر منفی پہلو کے علاوہ اس کے مثبت پہلو فراموش نہیں کرنا چاہئیں۔ جہاں ریاست ناکام ہو، وہاں گروہی تعصبات شاید حل بھی ہیں۔ ریاست جب روزگار، بنیادی سہولیات اور تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو تو آپ کو آپ کا گروہ، خاندان، قبیلہ، برادی ہی تحفظ دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(پوسٹ ہذا، ایک بات چیت کی تحریری شکل ہے جہاں موروثیت کے خلاف بہت سے اصول پرست لوگ متفق تھے تو سوچا اپنے ‘بے اصولی’ موقف   کو بھی بیان کردیا جائے،جس میں موروثیت ، برادری اور دوستی یاری Kith and Kin کی اہمیت نظر انداز کرنا مشکل ہے یا شاید ادھیڑ عمری کی نشانی ہے)۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply