اکثر دوستوں نے کمنٹس میں لکھا ہے کہ کپلز کو الگ روم ہی لینا چاہیے۔ مگر میں یہ مشورہ ہر گز نہیں دوں گا کیونکہ ایک تو علیحدہ کمرے کے پیسے بہت زیادہ ہیں، ایک لاکھ اَسی ہزار فی کس اضافی یعنی دو کے تین لاکھ ساٹھ ہزار اور اس میں مخصوص فائدہ اوسطاً سات آٹھ بار ہی اٹھا سکیں گے یعنی ایک باری آپ کو تو پڑ گئی ناں پینتالیس پچاس ہزار کی۔ اب کارِ حلال پہ اتنا پیسہ خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے اور ویسے بھی جب چیز دسترس میں ہو تو طلب میں شدت اور عمل میں وہ لذت نہیں رہتی۔ جیسے ریڈیو پہ چلتا ہوا کوئی عام سا گیت بھی بہت بھلا لگتا ہے جو کیسٹ میں اپنے پاس پڑا ہو تو شاید ہی کبھی سنیں۔
دوسرا اس طرح پھر آپ کی بیگم آپ کی liability بن جاتی ہے مطلب اب مکمل طور پہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے حرم لے کر جائیں واپس لائیں۔ جبکہ خواتین میں عبادت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے اور مرد فطرتاً سْست ہوتا ہے اس لئے دونوں کی فریکوئنسی ہی میچ نہ ہو پائے گی اور واپسی پر اتنا خرچ کر کے بھی شوہر کو تا عمر یہی سننا پڑے گا کہ آپکی وجہ سے میری عبادتیں رہ گئیں آپکو تو وہاں بھی ” اْس” کام کی پڑی رہی۔
ہاں جب شیئرنگ ہوتی ہے تو خواتین اپنا گروپ بنا کر آٹو پہ لگ جاتی ہیں جب جی چاہا حرم چلی گئیں جب چاہا آ گئیں بس ایک بار انہیں راستہ سمجھا دیا تھا پھر تو کبھی صبح اٹھنا تو میسج آیا ہونا کہ ہم حرم جا رہی ہیں میسج کا وقت دیکھنا تو رات دو بجے کا ہونا۔ جب تک ہم نے وہ پڑھنا ان کی واپسی بھی ہو چکی ہوتی تھی۔ دوسرا کوئی بیمار ہوگئی یا جیسے حج کے ایام میں اکثر بیہوش بھی ہو جاتی ہیں تو آپس میں ہی سنبھل سنبھال کر لیتی تھیں۔ ورنہ بندہ اکیلا ہو تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں جیسے جاوید بھائی (نیوی والے) نے الگ روم لیا ہوا تھا تو کتنی پریشانی جھیلی جیسا کہ میں نے لکھا تھا۔
تیسرا شیئرنگ میں نئے نئے لوگوں سے تعلق داری بن جاتی ہے اور چند دن میں ہی ایسی بے تکلفی ہو جاتی ہے جیسی برسوں کی جان پہچان ہو بلکہ اب تو رشتہ دار سے لگنے لگے ہیں۔
عبادات سے یاد آیا کہ ہم پاکستانی عبادات سے صرف ثواب کشید کرتے ہیں تربیت نہیں۔ جیسا کہ حرم کی انتظامیہ نے ایک قانون لاگو کیا ہوا ہے کہ آپ مطاف میں صرف حالت احرام میں جا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی شرعی نہیں بلکہ ایک انتظامی حکم ہے جس کا مقصد نئے آنے والوں کو مطاف میں طواف کا موقع فراہم کرنا ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ اسکے باوجود ہمارے اکثر پاکستانی ِبنا عمرے کے خوامخواہ کا احرام باندھ کر مطاف میں گھسے رہتے ،اگر انہیں ٹوکا جاتا تو آگے سے کہتے کہ یہ کوئی شرعی حکم تھوڑا ہے ہم کیوں ان کی بات مانیں۔ تو بھئی پھر بِنا پاسپورٹ اور ویزے کے بھی آ کر دکھاؤ۔ اور زیادہ شوق ہے تو اوپر طواف کر لو مگر وہ چار پانچ کلومیٹر کا بنتا ہے تو اس لئے جان جاتی ہے۔
ہاں کچھ اتنا تکلف ضرور کر لیتے تھے کہ بھاگ کر مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرے کی نیت کر لیتے تھے جو کہ میری معلومات کے مطابق درست نہیں کیونکہ میں نے اپنے علمائے کرام سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ پراپر میقات نہیں ہے بلکہ حضرت عائشہ کو محض ایک بار مخصوص نسوانی علت کی وجہ سے اسکی استثنائی طور پہ اجازت دی گئی اگر آج اس کی اجازت ہوتی بھی تو وہ خواتین کو اسی حالت میں ملتی جو مردوں کو کبھی درپیش نہیں ہونی۔ البتہ مسجد جرانہ کی آنی کانی سی اجازت دے دی ۔ہم نے اس آنی کانی کو بھی غنیمت جانا اور طائف کے سفر سے کنی کتراتے ہوئے جرانہ سے احرام باندھا۔ یہاں ہمیں قریشی صاحب کا ایک دوست لے گیا تھا جو مکہ میں ٹیکسی چلاتا تھا اس سے پہلے اس نے ہمیں غار ثور اور حرا بھی دکھائے، گرمی بہت تھی اس لئے ہم نے دور دور سے دیکھنے پہ اکتفا کیا اور چونکہ اوپر چڑھنے کی فضلیت یا حکم بھی نہیں ہے اس لئے چڑھنے کی ہمت نہ کی۔
البتہ مدینہ میں زیارتیں کیں، مسجد قبا، قبلتَین، خندق اور میدان احد دیکھا۔ احد میں ایک بڑا سا قطعہ ہے جسں کے چاروں جانب فینس لگی ہوئی ہے اس میں شہداء احد کی چند قبریں ہیں وہاں ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ جب ہم حضرت حمزہ کی لحد کے پاس کھڑے ہوئے جو اور قبور سے ذرا ہٹ کر ہے تو مجھے ایک بہت ہی پیاری خوشبو کی لپیٹ سی محسوس ہوئی، میں نے بات کی تو ساتھ کھڑا گائیڈ بولا کہ سر آپ جب بھی یہاں آئیں گے تو یہ خوشبو آئے گی۔ یاد رہے یہ کوئی مزار نہیں ہے کہ بند کمرے میں اگربتی یا ائیر فریشنر کی خوشبو ہو سکتی ہے مگر یہ تو ایک کھلا میدان تھا۔ اور میں چونکہ لائی لگ مؤمن نہیں ہوں میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے آس پاس کسی نے کوئی خوشبو لگائی ہوئی ہو۔ میں تجربے کے طور پر وہاں سے دور چلا گیا اور بیس پچیس منٹ کے بعد واپس آیا جب تک پہلے والے سارے لوگ آگے جا چکے تھے مگر دوبارہ بھی مجھے وہی خوشبو واضح طور پہ محسوس ہوئی اس بار میرے ساتھ قریشی صاحب بھی موجود تھے جنہوں نے توجہ دلانے پہ اس خوشبو کی تصدیق کی ورنہ وہ بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ شاید میں نے لگائی ہوئی ہے۔
وہ یار لوگ جو کہ وہاں رہتے ہیں یا جا چکے ہیں اس بارے میں کیا کہتے ہیں ضرور بتائیے گا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں