وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا جس میں ایک شخص سگریٹ لینے جاتا ہے تو دوکاندار اسے ایک پیکٹ تھما دیتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ” خبردار! سگریٹ نوشی مردانہ کمزوری کا موجب ہے” وہ شخص واپس پلٹتا ہے اور دوکاندار کے سامنے پیکٹ پٹخ کے کہتا ہے اے کیہڑی دے دتی جے، او کینسر والی دے خاں، ( یہ کونسی دے دی ہے وہ کینسر والی دو ناں)
تو بھائی سعودی عرب میں یہ سگریٹ ملتی ہے جس پر اسپرم بنے ہوئے ہیں اور وارننگ میں اس کو اسپرم میں کمی کا موجب بتایا گیا ہے۔
سگریٹ یہاں بہت مہنگی اور نکمی ہے۔ تھکی سے تھکی سگریٹ بھی بیس ریال کا پیکٹ ہے یعنی پاکستانی پندرہ سو روپے کی۔ لوگ یہاں سے کیپسٹن کے ڈنڈے لے جاتے ہیں وہاں وہ سو یا ایک سو بیس ریال کا بیچ دیتے ہیں اور دوکان دار آگے دو سو ریال کا بیچتا ہے۔ یہاں کی گولڈ لیف بھی انتہائی پْھسپھسی ہے۔
دوکاندار ” نہ” بٹے کی طرح مارتے ہیں مطلب کوئی بات کہہ دو آگے سے نہ کہہ دیں گے ذرا لحاظ نہیں کرتے۔ مطلب ہوٹل والے سے بولو پیاز تو دینا بولیں گے نہیں ہے، ماچس دینا اخے نہیں ہے۔ شاپر پکڑانا، نہیں ہے۔
لوگ دہی کا ناشتہ کرتے ہیں اور یہ نہیں کا۔ پتا نہیں سسٹم کی مجبوری ہے یا ہیں ہی بے مروت ۔
انڈینز
مدینہ آمد کے دوسرے تیسرے روز انڈینز کی آمد شروع ہو گئی۔ وہ دور سے ہی پہچانے جاتے تھے کیونکہ انکے گلے میں جو کارڈ آویزاں تھا اس کا ربن ترنگے کے رنگوں کا تھا۔
انہیں دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ چلو پاکستانیوں کے علاوہ بھی کوئی ہمزباں میسر ہوا۔
انہیں روک روک کر سلام دعا کرتا تھا گپ شپ لگاتا تھا مگر وہ خود سے کبھی کوئی بات نہیں کرتے تھے، کرو تو اچھی گپ شپ لگا لیتے تھے مگر خود شروعات نہیں کرتے تھے۔ پتا نہیں ہم سے خائف تھے یا اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت تھی۔
ان میں عمر رسیدہ لوگ زیادہ تھے نوجوان کم۔ ان کے بوڑھے منحنی مگر صحت مند اور چست تھے ۔ سب کے سب سفید رنگ کے کپڑے پہنتے تھے زیادہ سفید، کم سفید، اجلا سفید، میلا سفید، نیلگوں مائل یا پیلا سفید یوں سمجھیے کہ hundred shades of white والا معاملہ تھا۔
ان کا حج پیکج ساڑھے تین سے لے کر چار لاکھ روپے انڈین روپے تک کا تھا مگر اس میں کھانا شامل نہیں تھا۔ بیچارے مارے مارے پاکستانی ریستوران ڈھونڈتے تھے یا اپنا کھاتے پکاتے تھے۔ ایک دن ایک ریستوران میں انکی بھرمار دیکھ کر بیگم بولیں کہ کیا تھا اگر انکی سرکار بھی انہیں کھانا دے دیتی؟
میں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے
مخے کیوں؟
اس لئے کہ انڈیا ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی ہے اور بہت بڑا ملک ہے ہمارا فوڈ کلچر تو آلموسٹ سیم ہے بس نمک مرچ یا مسالوں کا فرق ہوگا مگر انکے یہاں کوئی گندم کھاتا ہے تو کسی علاقے میں باجرے یا مکئ کی روٹی چلتی ہے کوئی تین وقت چاول ہی کھاتا ہے کوئی صرف مچھلی ہی کھاتا ہوگا تو سرکار کس کس کو راضی کرے گی اس لئے اس نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے کہ اپنے پیسے سے جو چاہو کھا لو۔
کہنے کو تو روپے کے فرق سے ان کا پیکج تقریباً ہمارے جتنا ہی ہے مگر ایک تو فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوائی ٹکٹ کو دیکھیں تو سستا ہی ہے دوسرا ان کی خوشحالی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کا نچلا طبقہ بھی حج کرنے کے قابل ہے مجھے ان کے حاجیوں میں ترکھان، جولاہے اور چھوٹے موٹے دوکاندار بھی ملے۔ ویسے ان میں بھی پراپرٹی ڈیلرز ہی زیادہ خوشحال نظر آئے۔ ایسا ہی ایک دِلی کا ڈیلر سلیم خان ہمیں اپنے چائے والے پوائنٹ پر ملا جو تقریباً ساٹھ پینسٹھ برس کا ہوگا ،کجریوال سرکار کی بہت تعریف کر ریا تھا بتا رہا تھا کہ ہمیں دو سو یونٹس بجلی مفت ہے اس لئے سردیوں میں ہمارا بل بالکل نہیں آتا ۔
اور گرمیوں میں؟ میں نے پوچھا
بولا چالیس ہزار تک
قریشی نے تنک کے کہا پھر کیا فرق ہوا ہمارے سوا لاکھ بن گئے اس حساب سے
بولا میرے گھر آٹھ اے سی ہیں
یہ سن کر قریشی مْوت کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور کہا کہ ہمارے اتنے اے سی چلیں تو دو ڈھائی لاکھ سے کم نہ آئے۔
ہم انڈینز پہ ترس کھاتے تھے اور وہ ہمارے حالات پہ۔ مودی حکومت سے اس کی شدت پسندی کی وجہ خائف تھے( ورنہ اس کی معاشی پالیسیز پہ انہیں کوئی اعتراض نہ تھا) اس لئے ان سب کا رجحان کانگریس کی طرف تھا البتہ امن و امان کی صورتحال سب نے ٹھیک بتائی تقریباً سب نے یہی کہا کہ ہماری طرف سب ٹھیک ہے حالانکہ میری ہر طرف کے بھارتیوں سے ملاقات ہوئی بنگال، ہماچل پردیش ، یو پی، سی پی، میوات ، بیکا نیر ، گجرات وغیرہ والوں سے، البتہ کسی انڈین پنجابی سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
سلیم خان نے یہ بھی بتایا کہ کجریوال کی طرف سے ہر مذہب والوں کو شانتی حاصل ہے بلکہ دلی سرکار امام مساجد کو پندرہ ہزار اور موذن کو دس ہزار وظیفہ بھی دیتی ہے۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ انڈینز اپنے کام سے کام رکھتے ہیں بات کرو تو بات کر لیتے ہیں البتہ ان کی خواتین گفتگو میں بالکل حصہ نہیں لیتیں بلکہ لاتعلق بن کے بیٹھی رہتی ہیں۔
ایک بار جب ہم نے حرم میں اجیاد اسٹاپ کی طرف سے جا کر جمعہ پڑھا کیونکہ جمعہ کے روز صبح نو دس بجے بس سروس معطل ہو جاتی تھی اور ہم ٹیکسی کروا کے حرم پہنچے جس نے ہمیں مکہ ٹاور کی طرف اتارا ،واپسی پہ ہم گورنمنٹ کی بس میں بیٹھ گئے کہ یہ ہمیں ہمارے غزہ والے اسٹاپ پر اتار دے گی اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ اجیاد کے علاوہ دوسرا اسٹاپ غزہ ہی ہے اس لئے ہم بغیر پوچھ گچھ کے اس میں چڑھ گئے مگر ایسا نہ تھا اس نے ہمیں ایک اور ہی اسٹاپ پر اتار دیا جہاں ہر طرف انڈین بسیں کھڑی تھیں بس دو چار ہی پاکستانی بسیں تھیں ہم انکے پاس پہنچے تو وہاں موجود پاکستانی معاون نے ہمیں بتایا کہ یہ پاکستانی بسیں عزیزیہ نہیں بھتا قریش جائیں گی (یہ بھی حجاج کی رہائش کا ایک ایریا ہے) اور یہاں سے عزیزیہ فقط انڈین بسیں جائیں گی۔
اب ساتھی کچھ پریشان ہوئے اور بولے کہ ہم واپس سرکاری بس میں بیٹھ کر اجیاد چلتے ہیں وہاں سے غزہ والی بس پکڑتے ہیں۔
میں نے کہا چھوڑو اپن انڈیا کی بس میں بیٹھ جاتے ہیں۔
بولے وہ اعتراض نہ کریں۔ میں نے کہا مولوی سبق نہیں دے گا تو گھرتو جانے دے گا۔ مطلب اعتراض کریں گے تو واپس ہو لیں گے۔
خیر ہم اللہ کا نام لے کر انڈیا کی بس میں سوار ہو گئے قریشی صاحب بولے کہ ہم ” دْسمن دیس” کی گاڑی میں بیٹھ گئے ہیں اپنے اپنے شولڈر بیگ اتار کر الٹا کر کے گود میں رکھ لیں کیونکہ انکے پیچھے پاکستان لکھا ہوا ہے ایسا نہ ہو کہ بس میں گْھس بیٹھیوں کی موجودگی کا شور مچ جائے۔ مگر یقین کریں کہ کسی نے ہم پہ نگاہ غلط انداز بھی نہ ڈالی کہ بندہ پوچھ ہی لیتا ہے پاکستانیو! تمہارے ساتھ کیا بنی؟
وہ ہم سے تو کیا بات کرتے وہ تو آپس میں بھی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ خیر ہم جہاں اترے وہاں دور دور تلک “الہند” کے بورڈ والی بلڈنگز تھیں وہاں سے ہم نے ٹیکسی کی جس نے دس ریال میں ہمیں ہماری منزل پہ پہنچا دیا جو وہاں سے فقط ڈھائی تین کلو میٹر دور تھی ویسے یہ ڈرائیور بھی نارووال کا یوتھیا تھا۔
ایک ریستوران میں مَیں نے دال ماش اور دو چکن کباب منگوائے میرے برابر میں دو بھارتی نوجوان( وہ بھی پراپرٹی ڈیلر تھے) بھی آ کر بیٹھ گئے انہوں نے مٹن کڑاہی آرڈر کی اور بوٹیاں چھوڑ کر مسالے سے روٹی کھانے لگے پھر انہوں نے بریانی منگوا لی۔
میں نے بات شروع کرنے کیلئے ان سے پوچھا کہ آپ کو انڈین اور پاکستانی فوڈ میں کیا فرق لگتا ہے۔
بولے سیم سیم ہے ویسے بھی ہم میں آپ میں کیا فرق ہے۔
میں نے کہا یہ نہ کہیں ،فرق تو بہت ہے
تھوڑا چوکنے سے ہوگئے اور بولے وہ کیا؟
میں نے کہا آپ نے کڑاہی میں ساری بوٹیاں چھوڑ دی ہیں اور مسالے سے روٹی کھائی ہے جبکہ میرا پیٹ بھر گیا ہے تو میں نے دال چھوڑ دی ہے مگر کباب نہیں چھوڑ رہا

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں