اک پھیرا اُس پار کا(4)-محمد کبیر خان

ابوظبی کے اسی ڈیرے پر جہاں وقتاًفوقتا ً ادبی ٹھٹّٗے بازیاں واقع ہوتی تھیں ، وہاں کبھی کبھی سیاسی پھڈّے سازیاں بھی جنم لیتی تھیں ۔ جن کے قریب رس اثرات ایک بار مرکزِ پاکستان کے سالانہ انتخابات پر پڑتے تھے اور سالہا سال وہیں پڑے رہے تھے۔ کوئی اُٹھانے والا نہیں ہوتا تھا۔ مرکز پاکستان کے انتخابات کے موقع پر پاکستانی برادری دو فرقوں میں بٹ جاتی تھی  اور ربّ جانے کیوں بٹی ہی رہتی تھی۔ یہاں تلک کہ مشاعرے میں مصرعے پرنہیں،فرقے پر داد بے داد پھینکی پھونکی جاتی تھی۔  ٹوہوم اِٹ مے کنسرن ۔ ہم نے تو مرکز پاکستان کی مسجد میں عید کی نماز کے بعد بھی صرف اپنے “فرقہ” کو جپھّی سے نوازنے کا چلن دیکھا ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر ایک صاحب روانی میں ہمارے گلے پڑکر نکل گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی نے عقب سے ہمارا کاندھا تھپتھپایا، مُڑ کر دیکھا تو وہی صاحب تھے ۔  “بھیّے ! روانی میں تم سے ٹاکرا ہو گیا، لو اپنی عید مبارک سنبھالو، میرا جپھّا واپس کرو۔۔۔ لین دین برابر”۔ اورجپھّا لے کرہی ٹلے۔

جہاں ادبی ہنگامہ آرائی ہوتی تھی وہاں ہمارے ڈیرے پرایک بار ایک عرب شیخ بھی تشریف لائے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس کثیرمنزلہ عمارت کے مالک ہیں، خیرسگالی دورہ پر آئے ہوں گے۔  دیکھ بھال کر دو چار منٹ میں چلے جائیں گے، لیکن وہ دو چاردن بھی نہ گئے ۔ فلیٹ میں شیخ صاحب کی موجودگی میں ہماری چھڑی چھانٹ زندگی گُھٹ کر رہ گئی۔ سرپر ٹوپی کےعلاوہ آنجناب کے احترم میں ہمیں ناصرف شرعی حدود و قیود میں جکڑے رہنا پڑرہا تھا بلکہ دور دراز علاقوں میں اُٹھنے والی سازشوں پرآزادانہ ہاتھ بھی نہیں ڈال پاتے تھے۔ صاحبو! خدانخواستہ آپ کو بھی وقفہ وقفہ سے ” خرخرا بدست “غسل خانے جانا اورخارش زدہ علاقوں کو “کُھرچنا ” پڑے تو لگ پتہ جائے کہ کتنے بِیسوں کا سو ہوتا ہے۔ یقین کریں لچکدار ایکسٹینشن والا سخت برش نہ ہو تو نشانہ خطا ہو سکتا ہے۔ پھر بندہ “خلا” میں کُھرک کُھرک کے غسل خانہ سے پسینوپسینی برآمد ہوتا ہے اور فوری طور کسی کو منہ لگانے جوگا بھی نہیں ہوتا۔ باقی  آپ خود سیانے بیانے ہیں، لیکن قربان جائیے یہ وہ “کُھرک ” ہی تھی جس کی شدّت نے ہمیں دست درازی کا حوصلہ دیا اور ہم سرعام اس بلا سے دو دو ہاتھ کرنے پر آمادہ ہوئے ۔ لیکن جب ہم نے حضرتِ شیخ کوکندوُرہ سے باہر،گیلری میں ہم سے کہیں زیادہ بے باکی کے ساتھ خشک خارش سے نبرد آزما دیکھا تو سخت حیران ہوئے، لیکن ہماری حیرانی اُس وقت دو چند ہو ئی جب وہ کُھرک کو خالص پہاڑی بولی میں بے پڑھی مغلظات سے نوازنے لگے ۔

ہم نے اپنے ایک باغی بھائی کو پرے لے جا کر پوچھا تو اُس نے کہا: “کون سا شیخ، کہاں کا حاجی ؟، گرائیں مُلکی ہے، بڑے بھائی سے بھی پہلے پانی کے خالی ٹینکر میں اسمگل ہو کر امارات میں آیا تھا ، مُڑکے مُلک موہڑے نہیں گیا ، کڑکڑاتے کندورے ، غترہ وعقال ،کنٹھا نما تسبیح اور گلابی عربی پر شیخیاں کرتا پھرتا ہے۔ اب آیا ہے تو کب جائے گا؟، ربّ جانے ۔ مجھے پھر کتنے مہینے باتھ روم کے دروازے میں سونا پڑے گا۔۔۔۔؟ یہ بھی اُوپر والا جانے” ۔ کہا بھائی آخر کاراپنا بندہ ہے ۔

” اپنا ہے تو تم لے جاؤ، چندے میں گیارہویں کے سات درہم ابھی اپنی گرہ سے دینے کو تیارہوں ۔”

شیخ صاحب مہمان تھے اور اسی طرح کئی سال مہربان رہے۔ ہمارے ڈیرے کی واحد شخصیت جو مہمان گرامی سے ذرّہ بھر نہیں چِڑتی تھی، محبّی شفیق سلیمی ؒ تھے۔ آپ اسکول میں بچّوں کو پڑھایا اورگھرمیں نوآموزشاعروں کوبانس پرچڑھایا کرتے تھے: ” میں نے آج تک ایسا چُوندا چُوندا مصرع نہیں سُنا، بس اتنی سی نیک صلاح ہے کہ جہاں جہاں سے مصرع کی بکھیاں کبیر خان کے فقرے کی طرح حدود سے باہر نکلی نظر آئیں،کُند کلہاڑی سے گھڑ ڈالیں۔ ۔ بعد میں آپے سے باہر ہوجاتی ہیں ، کندورے میں بھی نہیں جھاتیاں مارنے لگتی ہیں۔ ”

اُستاد شاعر شفیق سلیمی کے علاوہ اس فلیٹ میں ایک اورشاعراور ناول نگار بھی پایا جاتا تھا ۔ اُردو اور پنجابی میں “فرفرنویس” کہلاتا تھا۔ شعر کہنے سے پہلے چھوٹے بھائی کو سبزی لانے کے بہانے پاپیادہ مارکیٹ تک بھیج دیتا تھا۔ پھر بائیں ہاتھ کی چیچی اُنگلی میں جکڑسگریٹ سُلگا کر ایک کش میں سالم سگریٹ سے دوپیسی نکال پرے مارتا تھا۔ پھرکنک منڈی کے مُنشیوں کی طرح چوکی کے سامنے آلتی پالتی مار کر کُھل کے کھانستا۔ کھانسی کے ساتھ مِصرعے کے ٹوٹے بھی اُڑ اُڑ کر کاغذ پر جمتے چلے جاتے۔ دن بھرفوجی ہتھیارسنوارنا، شام کو گھر گھر جا کرطلبہ کو سائنس پڑھاتا اور رات گئے تک بقول شاعرادب کے سینگ جھاڑتا رہتا:

کس قدر وزن ہے خطاؤں میں

ذکر رہتا ہے پارساؤں میں

شفیق سلیمی ایک صاحبِ طرز شاعر تھا ، نہ رہا۔ گزشتہ عالمی وبا اُسے چٹ کر گئی۔ لیکن اُس کا منفرد لہجہ ہنوز باقی ہے

بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے

اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے

شفیق سلیمی

میر تنہا یوسفی اگلے چند مہینوں میں پنجابی اور اردو ادب کا ایک نمایاں اور معتبرصاحبِ قلم ٹھہرا، لیکن موت کے آگے نہ ٹھہر سکا۔ ۔

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ابوظبی کے حالیہ پھیرے کے دوران جی چاہا کہ اپنی پرانی “آماجگاہ” میں جھاتی مار چلیں  ۔ کیاجانیے کون سی یاد “بےغور/ گور” پڑی مل جائے۔ یہی سوچ کر چڑھ دروازے تک پہنچ گئے لیکن دروازے پر تالا پڑا تھا ،اور وہ میٹریس بھی غائب تھا جس کے نیچے چابی رکھی جاتی تھی۔ چنانچہ بے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔ تاہم نیچے فٹ پاتھ پر وہ سنگی بینچ اب بھی ثابت و سالم کھڑا تھا، جس پر بیٹھ کر کبھی کبھی ہم دُنیا کو دیکھا کرتے تھے۔ لیکن جس دُنیا کو سڑک کے اُس پارہم ننگی آنکھ سے بآسانی دیکھ سکتے تھے، اب “ریڈنگ ڈسٹینس” سے بھی دکھائی نہیں پڑتی تھی۔ جانے اوپر والا ، وہ یہاں ہے بھی یا فلپائن سدھار گئی۔ کیا جانیئے بیاہ گئی ہے “بیاہی” گئی؟۔(بہت بہت دیکھی ہیں لیکن اتنی فلپائینی ہم نے کہیں نہیں دیکھی۔ بارہا جی میں آئی کہ اپنی جیب سے اُس کے پیروں تلے  اڑھائی فٹ ہائی ہیل کا “پڑپاوا”دے دیں، لیکن پھر یہ سوچ کر چُپ رہے کہ کہیں گِرپڑ گئی تو اُلٹا گلے پڑجائے گی۔ اور ہمارا گلہ گلی سی ہے،داتوٹیوں کا “بوسہ گلہ” نہیں۔

گلے میں تلخی سی محسوس ہوئی تو ہم ساتھ والے “پختوں گاہ” میں کڑک چائے کی چُسکی لینے پہنچ گئے۔ وہاں کا سارا عملہ بدلا ہوا تھا، چائے کا ذائقہ بھی۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply