۱۲۔ مائکرو ارتقاء اور میکرو ارتقاء
نظریہ ارتقاء کے رد میں ایک نکتہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مائکرو ارتقاء (Microevolution) کے مشاہدات اور ثبوت موجود ہیں، لیکن میکرو ارتقاء (Macroevolution) کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یعنی میوٹیشن کی صورت میں کسی جاندار کی کچھ خصوصیات تو تبدیل ہو جاتی ہیں، لیکن وہ ایک نوع یعنی species سے دوسری نوع میں تبدیل نہیں ہو سکتی اور ایسی کسی بھی چیز کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔ مائکرو ارتقاء چھوٹے پیمانے پر جینیاتی تبدیلیوں کا عمل ہے، جو کسی آبادی کی خصوصیات کو تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ تبدیلیاں جینیاتی اتلاف، جینیاتی بہاؤ، میوٹیشنز، اور قدرتی انتخاب کے ذریعے ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کسی آبادی میں فر کے رنگ یا بیج کی شکل کی تبدیلی مائکرو ارتقاء کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ اس بات کا بھی خاص خیال رہے کہ ایک آبادی میں مائکرو ارتقاء کے تحت ہونے والی تبدیلی اپنے بقا کے فائدے یعنی Survival advantage کی وجہ سے پوری آبادی میں پھیل جاتی ہے وہ ارکان جو اس تبدیلی کے بغیر ہوں اپنا وجود یا اپنی نسل باقی نہیں رکھ پاتے۔ میکرو ارتقاء بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا عمل ہے جو نئی انواع (species) کے ظہور کا باعث بنتا ہے۔ یہ تبدیلیاں ہزاروں یا لاکھوں سالوں میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
معترضین کا کہنا ہے کہ میکرو ارتقاء کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے، اور یہ کہ جاندار ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیل نہیں ہو سکتے۔ عام طور پر ہم دو جانداروں کو مختلف نوع (species) قرار دیتے ہیں جب یہ دو جاندار ایک دوسرے سے تناسل کر کے ایسی نسل نہ پیدا کر سکیں جن کی اولاد فرٹائل ہو۔ مثال کے طور پر، گھوڑے اور گدھے کے تناسل سے خچر پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن یہ خچر اپنی اولاد پیدا نہیں کر سکتے۔ معترضین کی طرف سے واضح نہیں ہے کہ وہ کونسی رکاوٹ یا آڑ ہے جو بہت ساری معمولی تبدیلی یا مائکرو ارتقاء کو ایک بڑی تبدیلی یعنی میکرو ارتقاء میں تبدیل نہیں ہونے دیتی۔
بہرحال اس کی ایک سائنسی توجیہ آبادی کی علیحدگی(Population Isolation) کی تھیوری ہے۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے دی جاتی ہے۔ کوئی دو ملین سال پہلے افریقہ میں جینس پین “genus Pan” نامی دو پیروں والے جاندار رہتے تھے۔ دریائے کانگو نے اپنا راستہ بدلا اور ان کی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ دونوں حصوں کی آبادی کے درمیان جینیاتی بہاؤ رک گیا۔ ان دو الگ الگ آبادیوں میں قدرتی انتخاب اور میوٹیشنز کے ذریعے مختلف جینیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ لاکھوں سالوں کے بعد، یہ تبدیلیاں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ دونوں آبادیوں کے افراد ایک دوسرے سے تناسل نہیں کر سکتے تھے اور اس طرح نئی انواع کا ظہور ہوا۔ یہ دونوں جاندار چیمپنزی اور بونوبوس ہیں۔ چمپینزی اور بونوبوس کا جینیاتی تقابل اور دریائے کانگو کے راستہ بدلنے کی ارضیاتی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ساتھ ہوئے ہیں۔ مزید تحقیق کے لیے اس پر انٹرنیٹ پر کافی مواد مل جائے گا۔
بہرحال یہ واقعہ ایک سپورٹنگ evidence کے طور پر ہے۔ یہاں پر بنیادی جواب تو یہی ہے کہ میکرو ارتقاء دراصل مائکرو ارتقاء کا ہی مجموعہ ہے اور ایسا کوئی قدرتی نظام موجود نہیں ہے کہ مائکرو ارتقاء کرتے کرتے کہیں پر اس لئے رک جائے کہ مزید آگے بڑھنے کی صورت میں میکرو ارتقاء ہوجائے گا۔ یہاں پر بھی آ جا کر یہ پوائنٹ موجود رہتا ہے کہ سائنسی حلقے ارتقاء کی تھیوری کی دلیل دے یا پھر ارتقاء کی پوری کہانی جو کہ 3.8 ارب سالوں پر محیط ہے اس کو ثابت کرے۔
۱۳۔ ایک عام انسان کی تحقیق کی حدود کیا ہیں؟
کسی مشکل اور مرحلہ وار نظریے اور اصول کو سمجھانے کے لئے تحریر یا تو پیچیدہ ہوگی یا طویل ہوگی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحریر بہ یک وقت پیچیدہ اور طویل بھی ہے۔ ایک عام فرد اگر اس کو فطری طور پر موضوع سے مناسبت نہ ہو تو ایسی تحریروں میں دلچسپی محسوس نہیں کریگا۔ یہاں پر میں نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف وہ بنیادی نکات ہیں جن کے بغیر تحریر کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ تحریر میں پیچیدگی کم رکھنے کے لیے کچھ طوالت بڑھانی پڑی۔ اس کے باوجود میرا گمان ہے کہ اکثریت اس تحریر کو پڑھنے میں مشکل محسوس کریگی۔ اس میں موجود مواد پر تحقیق کر کے نظریے کی ہر ہر تفصیل سمجھنا اور پھر ارتقاء کی کہانی کی واقعات کی کڑیاں ملانے کے لئے ہوئی پوری تحقیق کو سمجھنا مزید وقت اور ذہنی مشقت کا تقاضا کرتا ہے۔ فاسلز کے ریکارڈ کے بارے میں کئے گئے دعوؤوں میں کسی قسم کا تناقض (Inconsistency)ڈھونڈنا مزید مطالعہ اور مشقت کا تقاضا کرتا ہے۔
اور اگر فاسلز کے بارے میں کیے گئے دعووں کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرنے لئے آپ کو خود ان فاسلز تک رسائی حاصل کرنی پڑی گی تو تقریبا ناممکن۔ یہاں پر سائنسی تحقیق کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ ایک عام فرد تو رہنے دیں بلکہ کسی پی ایچ ڈی کے لئے بھی کئی پروٹوکول پورے کرنے پڑیں گے۔ لیکن ان سب کی وجہ کوئی سازش نہیں بلکہ ان باقیات کی حفاظت کا انتظام ہے جو کہ ایک ضروری مجبوری ہے۔
تو کیا ہم یہ کہہ دیں کہ جس چیز کی تحقیق ہم براہ راست نہیں کر سکتے، وہ غلط ہے؟ کیا عام سائنسی معلومات اور تحقیق کے بارے میں بھی ہمارا رویہ یہی ہے؟ ایسی صورت میں بہت ہی آسان طریقہ یہی ہوگا کہ ہم اپنی ذہنی کاہلی کا اظہار کرتے ہوئے ہر اس چیز کا انکار کرتے چلے جائیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں، تو اس بات کا خیال رہے کہ ذہنی طور پر کاہل لوگوں کی جماعت ایک دوسرے کی تائید کرتی رہے گی اور جو قابل ذہن لوگ ہوں گے، وہ آپ کے دسترس سے نکل جائیں گے۔
۱۴۔ کیا سائنسدان بد نیت ہیں؟
سائنسی تحقیق ایک جمہوری عمل ہے اور اس میں دنیا کے تمام قابل لوگوں کی شراکت ہوتی ہے۔ سائنسی تحقیق کو کھلے عام نشر کیا جاتا ہے۔ سوائے ان تحقیقوں کے جو ہتھیار بنانے کے کام آ سکتے ہیں وہ تمام تحقیقیں معروف سائنسی رسالوں میں نشر کی جاتی ہیں۔ ان کا مطالعہ کر کے دنیا کے کسی اور کونے میں بیٹھا ہوا کوئی شخص تحقیق کو آگے بڑھا کر اپنی نئی تحقیق کو بھی نشر کر سکتا ہے۔ جن یونیورسٹیوں اور اداروں میں سائنسی تحقیق کا کام ہوتا ہے وہاں ہر مختلف مذہب اور قوم کے لوگ کام کرتے ہیں۔ امریکہ، چین، روس اور دوسرے ممالک میں قومی رقابتیں ہونے کے باوجود علمی حلقہ ایک دوسرے تعاون کرتا ہے۔ اس لیے ایسا گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ سائنس میں کوئی خفیہ سازش ہو رہی ہے۔ اگر کوئی ایسی سازش ہوتی تو پھر ایک شفاف اور جمہوری عمل میں یہ چیز ضرور نکل کر باہر آتی۔ ایسا ماننے والے اپنے آپ کو اعلی اخلاقی معیار پر رکھ کر ہر ذہین شخص کو بدنیت سمجھنے کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے سائنسدان کسی بھی متبادل تھیوری جیسے انٹیلی جنٹ ڈیزئن کی طرف مائل ہونے کے لئے کیوں آمادہ نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس کی وجہ سائنسی سوچ ہے۔ ان نکات پر غور کریں۔
سائنسی سوچ کاز اینڈ ایفیکٹ یعنی علت و معلوم کا تقاضا کرتی ہے اور ہر معلول (Effect) کی بھی ایک قدرتی علت (Cause) کا تقاضا کرتی ہے۔ اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ اگر ہم کسی بھی علت کو ماورائے کائنات قرار دیں تو پھر ہم تحقیق میں کبھی بھی آگے نہیں بڑھ جائیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہوگا جہاں سے تحقیق رک جائے گا۔
نظریہ ارتقاء پر ہونے والی تحقیقوں سے بہت سارے لاینحل سوالات کا جواب ملا ہے۔ اس لئے اگر بہت سارے سوالات کا جواب نہ بھی ملا تو یہی اعتماد رہے گا کہ آگے ان کا جواب مل جائے گا۔ اور اگر کچھ سوالات کا جواب کبھی بھی نہ ملے تب بھی تحقیق کا رخ صحیح سمجھا جائے گا۔
کائنات کے اندر ہی تمام علتوں (Causes) کی جستجو نے سائنس کی تحقیق کو آج تک اس معیار پر پہنچایا ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ سائنسی حلقے کو اس بات پر مطمین کیا جائے کہ اس ایک چیز کے لیے کائنات کے باہر کسی علت کو مان لے۔
سائنس میں ایک اصول ہے جس کو elegance کہتے ہیں۔ اردو میں اس کے لئے قریب ترین الفاظ جمال یا اجمال ہیں۔ اس اصول کا تقاضا یہ ہے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ مظاہر کی تشریح کرنے لئے کم سے کم اور سادہ قوانین بنائے جائیں جو ہم آہنگی کے ساتھ بہت سارے پیچیدہ مظاہر کو بیان کر سکیں۔ یہ سائنس کا ایک کامیاب ترین اصول ہے اور جو کوئی بھی سائنسی ذہن سے سوچتا ہے وہ فطری طور پر اس قانون سے لگاؤ محسوس کریگا۔ اس اعتبار سے نظریہ ارتقاء میں یہ جمال بھر پور طریقے سے پایا جاتا ہے کہ یہ اربوں سال میں پیدا ہوئی پیچیدگی کو کچھ ہی بنیادی اصولوں کے تحت بیان کردیتا ہے۔ ان اصولوں کو ہم ” نظریہ ارتقاء ہے کیا؟” کے تحت بیان کر چکے ہیں۔ اس اعتبار سے کسی بھی متعلقہ سائنسدان کا نظریہ ارتقاء سے لگاؤ ایک فطری بات ہے۔
سائنسی تحقیق کی شفافیت، جمہوری عمل، نظریہ ارتقاء میں پایا جانے والا جمال، اور مختلف قوموں اور مذاہب کے سائنسدانوں کی شراکت اس بات کی نفی کرتی ہے کہ سائنسدان بد نیت ہیں یا کوئی خفیہ سازش ہو رہی ہے۔ سائنسی سوچ علت و معلول کے اصول پر مبنی ہے، اور یہ اصول ہی سائنسی ترقی کی بنیاد ہیں۔ اس لئے سائنسدان متبادل تھیوریز جیسے انٹیلی جنٹ ڈیزائن کو قبول نہیں کرتے کیونکہ

یہ سائنسی سوچ کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں