سینٹ میریز حیدرآباد/ یادوں کی برات(قسط6)-تزئین فرید

سینٹ میری کے گیٹ سے نکل کر تلک چاڑی کی طرف مڑیں تو اوپر کی طرف جاتے ہوئے قمر سلطانہ کا ہاسپٹل آتا تھا۔ یہ ایک میٹرنٹی ہوم تھا جو ایک پرانے ہندو آرکیٹکچر پر مبنی خوبصورت گھر میں ہی کھلا ہوا تھا۔ یہ جگہ تلک چاڑی سے بھی بلندی پر تھی۔ مجھے اس بلند راہداری کے زرد ٹائلز ابھی تک یاد ہیں جو ہاسپٹل کی عمارت تک جاتے تھے۔
میرے تایا کے سب بچے یہیں پیدا ہوئے تھے۔ شاید فواد کی پیدائش پر میں بھی عتیق بھائی  جان کے ساتھ اسے دیکھنے بھی گئی  تھی۔

حیدرآباد شہر بھی روم کی طرح مختلف پہاڑیوں پر بنا ہوا تھا۔ اسی لئے اکثر راستوں میں اوپر نیچے جانے کے لئے سیڑھیاں استعمال ہوتی تھیں۔ قمر سلطانہ کے ہاسپٹل جانے کے لئے تلک چاڑی سے کچھ سیڑھیاں اوپر چڑھنی ہوتی تھیں۔ وہیں حیدرآباد کا سب سے پرانا بیوٹی پارلر روپ سنگھار بھی تھا۔ وہیں قریب میں ایک پرانی کتابوں اور رسالوں کا کھوکھا بھی تھا۔

تھوڑا اور آگے جائیں تو وہاں بہت مزے کے چھولے ایک ٹھیلے پر فروخت ہوتے تھے۔ وہیں پگٹ اسکول بھی تھا جہاں کچھ عرصے عتیق بھائی  جان نے بھی پڑھا تھا۔اور سینٹ میریز کی بہت سی لڑکیوں کے ساتھ میں نے بھی وہاں سیٹ کلاس میں ایک ایگزام دیا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ گریڈ نائن کے بورڈ کے ایگزام میں ہمارا سینٹر بھی یہی اسکول تھا۔

اس سے آگے ایک گلی سرے گھاٹ کی طرف جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد میرے دادا نے کچھ بچوں کو پاکستان بھیج دیا تھا۔ انہوں نے یہاں آکر سرے گھاٹ پر ایک گھر کرائے پر لیا۔ اس بڑی سی بالکونی والے گھر کا تذکرہ ہمارے بڑے بہت کرتے تھے۔ لیکن ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔
بعد ازاں جب دادا خود بھی حیدرآباد گئے

سرے گھاٹ پر حیدرآباد کی بہت مشہور سیویں ملتی تھیں جو باقاعدگی سے گھر آتی تھیں۔ ہمارے ہاں یہ سیویں گھر کی پکی روٹی کے ساتھ بھی کھائی جاتی تھیں اور بہت مزیدار لگتی تھیں۔ اسکے علاوہ پاپڑ تل کر اسکی چوری بھی بنائی  جاتی تھی۔

ہمارے بچپن میں کچھ جودھپوری خواتین میری دادی کی زندگی تک اکثر گھر پر آکر رہتی تھیں۔ ان میں ایک فاطمہ بائی  بھی تھیں۔ انکا لباس اور وضع قطع خاندان کی دوسری خواتین سے مختلف ہوتی۔ مجھے انکی یاد اس لیے آئی  کہ یہ خواتین انڈیا سے پاپڑ وغیرہ لایا کرتی تھیں۔

ہم گریڈ سکس وغیرہ میں تھے۔ دادی کے انتقال کو عرصہ گزر گیا تھا ۔ تو فاطمہ بائی  کچھ عرصے کے لئے پھپو کی اجازت سے ہمارے چھوٹے مکان میں آکر رہیں ،جو اس دور میں خالی پڑا ہوا تھا۔ گھر کے مستعمل حصے سے چھوٹے مکان میں جانے کے لئے ایک بڑا خوبصور ت محراب نما کوریڈور تھا جسکی چھت بہت نیچی تھی۔ ہم تو گزر جاتے تھے لیکن لمبے قد کے بالغ انسان کو یقیناً جھکنا پڑتا ہوگا۔
ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ فاطمہ بائی  کچھ عرصے کے لئے گھر میں رہیں۔ ایک دفعہ وہ ہم بچوں کی  شکایت لیکر چچی کے پاس آئیں کہ ہم نے شرارت میں ایک نازیبا تصویر انکے سامان میں ڈال دی ہے۔
ہم بچے نا  صرف اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے بلکہ ہمیں تصویر بھی نازیبا نہیں لگی۔ اس دور میں صرف پی ٹی وی ایک ہی چینل تھا۔ اور ظاہر ہے جنرل ضیاء کا دور تھا تو سب کچھ بہت سینسرڈ تھا۔ تبدیلی آ رہی تھی مگر معاشرہ آج کی طرح انتہا پسندی کا شکار نہ ہوا تھا۔لیکن فاطمہ بائی  بہر حال بہت ناراض تھیں اور ہماری کسی بات پر یقین کرنے کو آمادہ نہیں تھیں۔ غنیمت کسی بڑے نے ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ورنہ ہماری کلاس ہو جاتی۔

مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز کی آوازیں بتدریج بڑھتی جارہی تھیں۔ ایک اذان شروع ہوتی۔ اسکے کچھ دیر بعد دوسری اور پھر تیسری۔ ہر مسجد کی کوشش ہوتی کہ اسکے لاؤڈ اسپیکر کی آواز سب سے زیادہ تیز ہو۔

ہمارے علاقے میں چونکہ مسجدیں بہت تھیں اس لیے یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا چلا جارہا تھا۔ میرے گریڈ نائن تک پہنچنے تک صورتحال یہ ہو گئی  کہ اذان کے وقت ایسا محسوس ہوتا کہ یہ ایک دوسرے سے لڑ رہے  ہیں۔ گھر کا ماحول میری دادی پھوپھی والدہ کی وجہ سے مذہبی تھا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ اذان کا جواب دینا چاہیے اور اسکا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اذان کے الفاظ کو دہراؤ، مگر صورتحال یہ ہو گئی  تھی کہ اذانوں کے باہمی تصادم میں یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ مجھے اس وقت بہت شدید ذہنی تکلیف محسوس ہوتی جب میں اپنے عقیدے کے مطابق اذان کا جواب نہ دے پاتی۔
لیکن لاؤڈ اسپیکر صرف اذان تک محدود نہیں تھا۔ اکثر رات کو مسجد میں محفل میلاد منعقد ہوتی اور ہاؤس اسپیکر پر تیز آواز میں محلے والوں کو گیارہ گیارہ بجے تک زبردستی نعتیں سنوائی  جاتیں۔ جبکہ عشاء کی نماز کے بعد جلد سونے کی تاکید ہے۔

اس پر بھی بس نہیں تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر مسجد نے رمضان ٹرانسمیشن شروع کر دی۔ صورتحال یہ ہو گئی  کہ رمضان قریب آنے لگتے تو ابو بہت اینگزائٹی محسوس کرنے لگتے۔ انکا جھکاؤ لیفٹ کی طرف تھا۔ نماز کم ہی پڑھتے مگر روزے پابندی سے رکھتے اور سحری بھی کرتے جسکے لئے میری والدہ بہت اہتمام کرتیں۔

انکی نیند سحری کے ٹرانسمیشن کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہوتی  ۔ مولانا صاحب بڑے پروفیشنل انداز میں کہتے ، “مسجد خضریٰ کی گھڑی کے مطابق اس وقت رات کے سفیر گ بجے ہیں۔ آپ جلدی جلدی سحری کی تیاری لیجیے۔”
ہوتے ہوتے سحری کی ٹرانسمیشنزسحری سے ایک آدھ گھنٹے کے بجائے سحری سے دو ڈھائی  گھنٹے قبل ہی شروع ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ پانچ بجے سحری ختم ہوتی اور ٹرانسمیشن رات ڈیرھ دو بجے سے ہی شروع ہونے لگیں۔

ایسے میں پریشانی تو سب کو ہی ہوتی مگر مسجد کے ساتھ ایک تقدس وابستہ تھا۔ تو کسی کی اس بارے میں منہ کھولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔

مجھے یاد ہے جمیعت کے دور میں ہم پر زور دیا جاتا تھا کہ ہم فجر سے پہلے نفل ضرور پڑھیں خصوصاً رمضان میں۔ اس دور میں عبادتوں سے شغف یوں بھی بہت بڑھ گیا تھا۔ ایک دفعہ سحری سے قبل میں نے دو رکعات نماز کے لئے نیت باندھی مگر مسجد سے آنے والی نعت کی آواز اتنی بلند تھی کہ میرے لئے نماز پر فوکس کرنا اور دو رکعات ختم کرنا کرنا محال ہو گیا۔

ایسے مذہبی رویوں کی وجہ سے جو بے بسی میں نے محسوس کی اس سے مجھے خود مذہبی ہونے کے باوجود مولوی سے چڑ بلکہ نفرت محسوس ہونے لگی اور آج تک محسوس ہوتی ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply