“بابو” آغا گل کا ایک شاہکار ناول/سید عبدالوحید فانی

آغا گل بلوچستان کے مشہور افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، ادیب اور محقق ہیں۔ انھوں نے اردو ادب میں اپنا ایک الگ مقام قائم کیا ہے۔ اور ان کی ہر تخلیق اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ ان کے مشہور تخلیقات میں “بابو” (ناول)، “بیلہ” (ناول)، “راسکوہ” (افسانوی مجموعہ)، “عکسِ قمر” (منتخب غزلیں)، “آبِ حیات” (افسانوی مجموعہ)، “دشتِ وفا” (ناول، اور اسے بلوچستان میں اکیسویں صدی کا پہلا ناول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے)، “پرندہ” (افسانوی مجموعہ)، “بھگوت گیتا” (ایک مطالعہ) اور “بلوچستان میں اردو فکشن کا تاریخی تناظر” (تحقیق) شامل ہیں۔

بابو ان کے بہترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ یہ ناول مکتبۂ الحمرا لاہور سے پہلی مرتبہ 2004ء میں شائع کیا گیا تھا۔

آغا گل کی نمایاں فنی خصوصیات میں سے ایک اپنے ناولوں اور افسانوں میں علاقائی زبان استعمال کرنا ہے۔ اسی لیے انھوں نے براہوی اور بلوچی الفاظ کو “بابو” میں اس کثرت سے استعمال کیے ہیں کہ وہ اجنبیت کا احساس دلانے کے بجائے ان کے ناول کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔ جہاں اس ناول کی کہانی کوئٹہ کی شہری آبادی کے اردگرد گھومتی ہے وہی اس میں کوئٹہ کی متین اردو کے مخصوص الفاظ، اصطلاحات، محاورے اور روزمرے استعمال ہوئے ہیں۔ جیسا کہ “آوارہ گرد” کے لیے “لغڑی”، “بڑا بولنا” کے لیے “غٹ غٹ مارنا” اور “مفلس و تباہ حال” کے لیے “ٹُکر ٹُکر” کے جیسے مختلف مقامی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ جو ایک طرف مزاحیہ عنصر رکھتی ہے (اور قاری کو بور ہونے نہیں دیتی)، تو دوسری طرف کوئٹہ کے خوبصورت اور امتزاجی کلچر سے بھی ہم آہنگ کرتی ہیں۔

اگر آپ کوئٹہ کے رہائشی ہیں یا کبھی کوئٹہ گئے ہوں اور مقامی لوگوں سے کوئی سماجی یا لسانی تعلق بنا ہو، تو آپ اس ناول سے زیادہ محظوظ ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ آغا گل نے خود ناول کے مقدمہ/دیباچہ میں اس بات کا اعتراف یوں کیا ہے:

“میرے افسانوں کو سمجھنے کے لیے کوئٹہ کے گلی کوچوں کی زبان سے شناسائی ازحد ضروری ہے”

ناول “بابو” ایک عہد ساز کہانی ہے جو ایک نوجوان کے ذاتی اور معاشرتی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار بابو ہے، جو اپنے والدین کا اکلوتا چشمِ چراغ ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے والدین کی جانب سے ہر طرح کے آسائشوں سے مستفید ہوتا رہتا ہے۔ اور چونکہ بابو کی تین بہنیں بھی ہوتی ہیں لیکن والدین کا تقریباً تمام تر محبتوں کا توجہ ان ہی کی طرف ہوتا ہے۔ انہی مالی آسائشوں سے ان کے مطلبی دوست (گھوڑا، ذمبیا، انور، یوسف اور صدیق) بھی وقتاً فوقتاً بلکہ ہر وقت فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ لیکن بعض کسوٹیوں پر وہ کھرے دوستوں کی کردار بھی نبھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اپنی آشکارا یا پھر بدنامِ زمانہ ذہنی تحفظات کے تحت بابو ان سے ہر وقت پرشکوہ رہتا ہے۔ اور جا بجا اپنے گلوں کا ایک وضاحتی لیکچر دینا شروع کردیتا ہے۔

اور وہ تحفظات اپنی معشوقہ یعنی نسیم سے بیاہ کرنے کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ جس سے بابو کے والد “خالو” اختلاف رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ راجھستانی ہیں اور نسیم کی غیر راجھستانی ہونے کی وجہ سے وہ یہ شادی کرانے سے مکمل طور مقاطعہ کرتا ہے اور اس شدت سے بائکاٹ کرتا ہے کہ بابو کا خرچہ پانی بھی اس پر بند کردیتا ہے۔ اور ایک بار تو کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بابو کو اپنے چچا کے ہاں حیدر آباد بھیج دیا جاتا ہے۔ اور ایک مہینے تک دوستوں کو ان کا کوئی خیر خبر نہیں آتا۔ اور تو اور وہ حیدر آباد میں کمزور ارادے کے ساتھ پل سے چھلانگ لگانے کی بھی ناکام کوشش کرتا ہے۔ لیکن عین موقع پر انور اور صدیق وہاں پہنچ جاتے ہیں (کیونکہ صدیق پہلے سے ہی وہاں پر دیہاڑی دار رکشہ ڈرائیور ہوتا ہے اور انور کو نسیم نے بابو کو واپس لانے کے لیے بھیجا ہوتا ہے)۔ اور انور اسے واپس کوئٹہ لے آتا ہے۔

کہانی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے اور خاص موڑ آنے پر خالو ان دونوں (بابو اور نسیم) کی شادی پر رضامند ہوجاتے ہیں۔ مگر شادی کے بعد بھی اس کی زندگی میں مشکلات برقرار رہتی ہیں۔ نسیم، جو پہلے ایک سرکاری ٹیچر تعینات ہوئی تھی، اب ایک ہیڈ مسٹریس بن چکی ہے، بابو کے سادہ ملازمت (کلرکی) اور ناکامیوں کی وجہ سے وہ اسے ہر وقت طعنے دیتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ واپس حیدرآباد چلا جاتا ہے اور وہاں دوبارہ خودکشی کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کرتا ہے۔ اور پچھلے بار کی طرح غیر شعوری طور پر انور اور صدیق (جو اب مختلف شخصیتوں کے حامل ہوتے ہیں) اسے پھر سے کوئی اور سمجھ کر خودکشی کرتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں۔ بابو انھیں دیکھ کر “اڑے صدیق تم، اڑے انور” کہتے ہوئے فیصلہ ترک کردیتا ہے۔ اور یہاں پر ناول ختم ہوجاتا ہے۔

اس ناول میں کچھ ایسے کردار اور واقعے ہیں جن کا میں نے قصداً ذکر نہیں کیا ہے، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ قارئین خود اس ناول کو پڑھے اور اس کے فکری اور فنی زاویوں سے لطف اندوز ہوسکے۔ اور اسی سبب میں نے بابو اور ان کے دوستوں کے ذاتی کردار، خدوخال اور فکری صفات کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ مجھے امید ہے کہ یہ خلاصہ اور تبصرہ پڑھنے کے بعد لوگ اس شاہکار ناول کو ضرور اپنے مطالعے کا حصہ بنائیں گے۔ اور مصنف کو داد دینے کی خاطر ان کے باقی تخلیقات کو اپنے مطالعاتی فہرست میں شامل کریں گے۔

اب آتے ہیں اس ناول کی ادبی اور فلسفیانہ تجزیے پر، کہ یہ کہانی اور خصوصاََ بابو کا کردار کس طرح سے ذاتی اور سماجی پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے۔

اپنی زندگی میں مختلف مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنے سے، اور خاندانی مسائل، معاشرتی توقعات، اور ذاتی خوابوں کے بیچ، بابو ایک متنازعہ سماجی حقیقت کے طور ابھرتا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے زندگی کی تلخیوں، طبقاتی فرق، اور ذاتی جدوجہد کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔ کہانی کی نثر سادہ اور سمجھنے میں آسان ہے، مگر اس میں گہرائی اور معنویت ہے۔ کرداروں کی نفسیات، ان کے معاشرتی مسائل، اور ان کے باہمی تعلقات کی تفصیلات خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں۔ مصنف نے کرداروں کی تفصیل اور ان کی زندگی کی حالات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری ان کے جذبات اور مسائل کو قریب سے محسوس کرتا ہے۔ کہانی میں خالو، نسیم، اور دیگر کردار بھی اہمیت رکھتے ہیں جو بابو کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں اور اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کے سرے تک بعض مواقع پر بابو پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے مگر مکمل طور پر پلانگنے پر وہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ جو کہ ایک اجتماعی سماجی تصور کے مقابلے میں ذاتی خواہشوں اور انفرادی رائے کی ناکامی ظاہر کرتی ہے۔

“بابو” فلسفیانہ طور پر انسان کی فطرت اور معاشرتی نظام کی کشمکش کو اجاگر کرتا ہے۔ کہانی میں بابو کی جدوجہد ایک علامتی پہلو رکھتی ہے جو زندگی کی بے معنویت، سماجی عدمِ انصاف، اور فرد کی ذاتی خواہشات کے درمیان توازن تلاش کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہے۔ بابو کا کردار ethics اور morality کے گرد گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جس میں بعض جگہوں پر وجودیت، بے معنویت اور رواقیت کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ فلسفیانہ تھیمز کے متوازی اس ناول میں روحانی کیفیات کا بھی ایک جامع منظر دکھائی دیتا، جہاں مختلف مواقع پر بابو اپنی عشق کی حصول کے لیے کوئٹہ کے گرد و نواح میں موجود مشہور بزرگانِ تصوف کے مزارات پر حاضری دیتا رہتا ہے، منتیں مانگتا رہتا ہے اور محرم کے جلوس اور ماتموں میں بھی شرکت کرتا رہتا ہے۔ جو مذہبی فرقہ واریت کے خاتمے کی طرف ایک خوبصورت اشارہ ہے۔ اور فکری وحدت کی دعوت ہے۔

بابو کی زندگی کی ناکامیاں اور اس کی ذاتی جدوجہد فلسفے کی روشنی میں انسانی حالت کی ناپختگی اور سماج کی بے انصاف رویوں کو بیان کرتی ہیں۔ ناول میں مختلف فلسفیانہ موضوعات جیسے تقدیر، اختیار، اور خودی کی کشمکش کو بھی چھوا گیا ہے۔ جو اسے بصیرت افروز اور عمیق ناول بناتا ہے۔ اس کی ادبی اور فلسفیانہ حیثیت اسے ایک اہم اور قابلِ مطالعہ ناول بناتی ہے۔ کہانی میں انسانی حالت اور معاشرتی نظام کی تفصیل قاری کو زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ کرتی ہے اور انھیں اپنی ذاتی زندگی کے مسائل پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ہاں یاد آیا کہ نسیم، بابو کی پہلی محبت نہیں تھی۔ البتہ پہلی محبوبہ سے زیادہ عزیز تھی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply