ایران کے اُجڑتے گلشن/شکور پٹھان

یہ شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے جو مشرق سے مغرب جارہی ہے۔ اس شاہراہ کو شمال سے جنوب جاتی ایک اور مصروف سڑک کاٹ رہی ہے۔ ان دونوں کے سنگم پر بنی عمارتوں کے نکڑ پر ایک برطانوی راج کے دور کی بنی پتھر کی دیواروں والی عمارت کے اوپر ایک نیلے رنگ کا بورڈ لگا ہے۔ یہ بورڈ دونوں سڑکوں کی جانب لگے ہیں۔
“ گلشن ایران بیکری اینڈ ریسٹورنٹ”
یہ منظر کہاں کا ہے ؟
یہ عمارت ممبئی، کراچی، کلکتہ یا کسی بھی بڑے شہر میں نظر آسکتی ہے۔ نکڑ پر بنی اس عمارت میں دونوں جانب سے داخل ہوا جاسکتا ہے۔ اندر ہال میں سنگ مرمر یا ماربل والی گول میزیں صاف ستھرے میز پوش سے ڈھکی ہیں۔ ان میزوں کے گرد قدیم طرز کی سیاہ رنگ کی ساگوان کی کرسیاں ہیں۔ دونوں داخلی دروازوں کے عین درمیان لکڑی کا براؤن رنگ کا کاؤنٹر ہے جس کے عقب میں دیوار میں شو کیس لگے ہیں۔ شوکیسوں میں مختلف قسم کے کیک، پیسٹری ، بسکٹ وغیرہ رکھے ہوئے ہیں۔ کاؤنٹر کے پیچھے، اونچے اسٹول پر کھلتی رنگت والا، درمیانی عمر کا ایک ہنس مکھ شخص بیٹھا ہوا۔
ہال کے ایک جانب دیوار کے ساتھ لکڑی کے پارٹیشن کے درمیان چوکور میزیں اور آرام دہ صوفے لگے ہوئے ہیں۔ ایک کونے میں واش بیسن کے ساتھ والی دیوار پر مختلف ہدایات لکھی ہیں۔ صفائی کا خاص خیال رکھیں۔۔۔گندگی نہ پھیلائیں۔۔۔کرسیوں پر پیر لے کر نہ بیٹھیں۔۔۔سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔۔۔سو روپے کے نوٹ والے حضرات پہلے کاؤنٹر سے معلوم کریں۔۔ملازمین کی بدتمیزی کی شکایت کاؤنٹر پر کریں۔ ۔غیر اخلاقی حرکتوں سے گریز کریں۔۔۔۔
اور ہاں کاؤنٹر کے پیچھے شو کیس سے ذرا اوپر ایک بڑی سی تصویر ہے۔ سر پر پٹکا نما بڑا سا رومال باندھے، سرخ بھرواں داڑھی والی یہ تصویر زرتشت کی ہے۔ آتش پرستوں کے مذہب کا بانی۔
ہندوستان اور پاکستان کے بڑے شہروں میں بکھرے ان صاف ستھرے اور نیک نام ریستورانوں کے مالک ایران کے بڑے شہروں سے نہیں آئے۔ یہ زیادہ تر “ یزد” “ کیان” “ سیستان” اور سرا وان جیسے شہروں سے آئے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اٹھارویں صدی میں سیاسی اور مذہبی جبر کے باعث ایران سے ہندوستان آئے۔ میں نے اس کے لئے کوئی تاریخ نہیں کھنگالی ہے۔ یہ ان ریستورانوں کے نام ہیں، کیانی، یزدانی، سیستانی، سرا وان وغیرہ۔
معاملات میں ہم سے زیادہ راست باز، عادتا” صفائی پسند ایرانیوں کو یہاں کے ہندوؤں کی توہم پرستی راس آگئی۔ نہ جانے کس وجہ سے ہندو بیوپاری نکڑ کی دکان کو منحوس سمجھتے تھے۔ ہندوؤں کی نقالی میں یہاں کی دیگر قومیں یعنی ہندوستانی مسلمان، سکھ وغیرہ بھی پیچھے نہیں تھے۔ ایرانیوں نے اس توہم پرستی کا فائدہ اٹھایا اور کونے والی دکانوں پر اپنے کاروبار جمائے۔ نکڑ پر ہونے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ دو سڑکوں سے یہ دکان نظر آسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف سمتوں میں بنے دو دروازوں سے روشنی کا گذر رہتا ہے اور دکان بھی ہوا دار رہتی ہے اور یہاں بیٹھنے والے گاہکوں کو گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔
گھٹن کا احساس تو دور کی بات ہے، گاہک یہاں بہت مطمئن اور مسرور رہتے ہیں۔ یہ ایرانی ریستوران امیر غریب ہر ایک کے ذوق پر پورے اترتے ہیں۔ دفتر کے افسر یا جنرل مینیجر کو یہاں بیٹھ کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی کمتر جگہ پر بیٹھا ہے تو دوسری جانب بابو لوگوں اور مزدوروں کو بھی یہاں ان کی جیب کے مطابق کھانا مل جاتا ہے۔ جیب میں زیادہ پیسے نہ ہوں یا وقت کم ہو تو چائے کے ساتھ مسکا بن اور یہ بھی نہ ہو کھارے بسکٹ اور سبز چائے سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
صفائی اور خوش اخلاقی کے علاوہ ان میں سے اکثر ہوٹلوں کی پہچان کوئی نہ کوئی خاص چیز ضرور ہوتی ہے۔ یہ خاص چیز کڑک ڈبل روٹی کے ساتھ مکھن جام اور ایرانی سبز چائے بھی ہوسکتی ہے، یا سموسے اور ریستوران کی اپنی چٹنی یا ساس ، یا ابلے انڈے یا پھر پیٹیز ، نہیں تو بریانی یا جھینگا پلاؤ بھی ہوسکتے ہیں۔
یہ سب کچھ وہ ہے جن سے میں گذرا ہوں۔ میرا پسندیدہ کیفے خیرآباد جو آئی آئی چندریگر روڈ اور شاید ضیا الدین روڈ ( مجھے اس سڑک کا نام ٹھیک سے یاد نہیں ) کے سنگم پر ایک جانب شاہین کمپلکس اور دوسری جانب اسپنسر بلڈنگ کے مقابل ہے۔ یہ میرے کالج کے راستے میں واقع تھا اور جب کبھی جیب میں چار پیسے زیادہ ہوتے تو اس کی سبز چائے اور سموسے جن کے ساتھ اس ریستوران کی اپنی بنی ٹماٹو کیچپ کا لطف ضرور اٹھاتا۔ گرما گرم تازہ سموسوں اور اس لذیز ٹماٹر کی چٹنی کی یاد تازہ کرنے کے لئے تین سال قبل اس ریستوراں میں گیا اور سخت مایوس ہوکر لوٹا۔ اس کے شاید مالک بدل گئے ہیں یا پھر سموسہ بنانے والے کاریگر۔ یا شاید میں ہی بدل گیا ہوں۔
کراچی کی ہر مشہور شاہراہ پر کوئی نہ کوئی ایرانی ہوٹل ضرور ہوتا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ نہ صرف اندرون شہر بلکہ ناظم آباد اور پی سی ایچ سوسائٹیز اور لیاری وغیرہ میں بھی ایرانی ہوٹل تھے جن کی تعداد کچھ نہیں تو سو کے قریب ضرور ہوگی۔ بہت سے نام میری یاد داشت سے محو ہوچکے ہیں۔ بہت سے ریستورانوں کے بارے میں ٹھیک سے یاد نہیں کہ وہ ایرانی ہے تھے یا کوئی اور۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ زیادہ تر اچھے اور صاف ستھرے ہوٹل ایرانیوں کے ہی ہوتے تھے۔ خیرآباد کے علاوہ ایک اور ریستوران جو یاد آتا ہے بمبینو اور لیرک سنیما کے نکڑ پر یعنی ایم اے جناح روڈ اور پریڈی اسٹریٹ کے سنگم پر واقع “ پہلوی ریسٹورنٹ ، تھا۔ اس کے علاوہ کیفے جہانیاں، سیستانی ریستوران، درخشاں کیفے صدر میں واقع تھے۔ گارڈن کے علاقے میں ایک کیفے مبارک جہاں میں نے جھینگے کی بریانی کھائی تھی اور وہ مجھے اس لئے نہیں بھولتی کہ میں عموماً جھینگا اور مچھلی وغیرہ گھر سے باہر نہیں کھاتا لیکن اس بریانی یا پلاؤ کا ذائقہ نہیں بھولتا۔
ایک وکٹری کیفے بھی تھا۔ طارق روڈ پر واقع مشہور لبرٹی کیفے کے بارے میں مجھے درست علم نہیں کہ اس کے مالک ایرانی تھے یا کوئی اور لیکن انداز اس کا بھی ایرانی ہوٹلوں جیسا ہی تھا۔ اچھے کھانوں اور صاف ستھرے ماحول کے علاوہ ان ہوٹلوں کی خصوصیت ان کی قیمتیں تھیں جو ہر طبقے کے لوگوں کی پہنچ میں تھیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے ریستوران تھے جہاں شہر کے شاعر، ادیب اور دانشور جمع ہوتے اور گھنٹوں ایک دوسرے کو اپنی تخلیقات سناتے۔ ریگل چوک کے نکڑ پر ایک ہوٹل میں ابراہیم جلیس، حبیب جالب ، حمید کاشمیری اور بہت سے اہل قلم جمع ہوتے۔ ان ہوٹلوں میں آپ چاہے تو اخبار کھول کر گھنٹہ بھر بیٹھ سکتے تھے یا چائے کی سڑکیاں لگاتے ہوئے باہر کی رونقیں دیکھتے ہوئے وقت بتا سکتے تھے۔
مجھے نہیں علم کہ کب اور کیوں یہ خوبصورت اور صاف ستھرے ریستوران ختم ہوتے چلے گئے۔ ممبئی میں ساؤتھ انڈین اور اڑپی ریستورانوں نے ان کی جگہ لے لی۔ کئی ہوٹلوں میں بئیر بار کھل گئے۔ بہت سے اب بھی ہیں جہاں ایک جانب بئیر بار اور دوسری جانب فیملی ہال یعنی کھانے پینے کا ہوٹل ہے۔ کراچی میں بے ہنگم سے چائے خانے کوئٹہ ریستوران کے نام سے کھل گئے۔ گلشن اقبال میں زیادہ تر یہ ریستوران غیر قانونی زمینوں پر اور ناجائز طریقوں سے بنے ہوئے ہیں۔ خیر یہ کراچی ہے، جو سب کا ہے، یہاں کون پوچھتا ہے، بس پولیس، بلدیہ اور متعلقہ حکام کو ان کا حصہ پہنچتا رہے۔
کچھ ایرانی کاروبار خاندانی جھگڑوں کا شکار ہوئے، کچھ کی اولادوں نے یہ کام جاری نہیں رکھا۔ بہت سے ایرانی یہاں کے لوگوں کی عدم برداشت اور انتہا پسندی سے دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ گئے۔ مذہبی تنگ نظری میں ہمارے پڑوسی بھی کسی سے کم نہیں۔ وہاں سے بھی بہت سے بہت سے غیر ہندؤوں نے اپنے کاروبار باہر کے ملکوں میں جما لئے۔
عدم برداشت، تنگ نظری اور گھٹن دونوں ملکوں میں یکساں ہے۔ فہمیدہ ریاض نے غلط تو نہیں کہا تھا۔۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے۔۔۔۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply