بالغ ہوتی اولاد کو چند نصیحتیں (1)-خالد قیوم تنولی

بڑے دونوں بچے بلوغت کی ابتدائی  منزل کو پہنچے تو بیگم نے ہمیں اپنے مقابل کرسی پر بٹھایا اور بولیں : ”کیا آپ نے نوٹ کیا کہ ہمارے بڑے دونوں بیٹے اب بچے نہیں رہے؟“
”کیا مطلب ۔۔۔ دادے نانے بن گۓ ہیں کیا۔“ ہم نے حیران ہو کر الٹا سوال داغ مارا۔
”کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کریں۔“ بیگم نے سٹپٹا کر اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔
”تو پھر کچھ سمجھاؤذرا ۔“
بیگم بولیں : ”اب ان دونوں کی آوازیں بھاری ہونے لگی ہیں۔ یہ بلوغت کی پہلی نشانی ہے۔ باقی ہارمونل تبدیلیاں بھی پیدا ہو چکی ہوں گی۔ اگر یہ بیٹیاں ہوتیں تو میں خود سمجھا دیتی مگر اب یہ آپ کی فیلڈ سے متعلقہ امور ہیں تو ابھی سے ضروری باتیں انھیں سمجھا دیں تاکہ کسی الجھن میں نہ رہیں۔“
ہم فوراً سمجھ گئے  لہذا کہا : ”تو یہ بات ہے ، ٹھیک ہے تو پھر ابھی سمجھا دیتے ہیں ، کہاں ہیں دونوں؟“
”میں نے یہ تو نہیں کہا کہ ابھی اور اسی وقت سمجھانا شروع کر دیں۔ آپ تو ہتھیلی پہ سرسوں جمانے لگے۔ کسی مناسب وقت پہ پاس بٹھا کر دوستانہ انداز میں سمجھا دیجیے گا۔“
”بہت بہتر ۔“ ہم نے سر تسلیم خم کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مناسب وقت بھی جلدی مل گیا۔ دونوں کو اپنے سامنے بٹھایا اور سمجھانا شروع کر دیا : ”بھئی بات یہ ہے  کہ اب تم دونوں بچے نہیں رہے ، بڑے ہو گئے  ہو۔ یہ تبدیلی شاید تمھیں محسوس نہ ہو مگر ہمیں محسوس ہونے لگی ہے۔ تمہارے نرخرے اب سافٹ نہیں رہے ، کرخت ہو رہے ہیں۔ دوسری بات کہ ذرا ہاتھ لگا کر بتاؤ کہ بغلوں میں بال تو نہیں۔“ دونوں نے بتایا کہ ”جی بالکل ہیں“  ۔ پھر ہم نے اگلا سوال پوچھا کہ اب ہاتھ لگاۓ بغیر بتاؤ  کہ ناف سے نیچے بھی بال ہیں؟ ۔  دونوں نے قدرے ہچکچا کر کنفرم کیا کہ واقعی ہیں۔ ہم نے کہا ، فکر ناٹ ، جیلیٹ سیفٹی ریزر کسی بھی سپرسٹور سے مل جائیں گے ، دو عدد لے آنا اور نہانے سے پہلے ان غیر ضروری بالوں کو ریموو کر دینا، جیسے چہرے کو شیو کیا جاتا ہے۔ ہفتے میں ایک دن لازمی ، اگر جمعے والے دن ہو تو اور بھی اچھا ہے ، یہ طہارت (صفائی ) اور پاکی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ صفائی  چاہے جسمانی ہو یا ماحولیاتی نصف ایمان ہے۔ دونوں مقامات پر ایک بال بھی نہ رہنے پاۓ۔ اس عمل کے طبی اور روحانی کافی فوائد  ہیں۔ اب دوسری بات کہ نوجوان اور صحتمند لوگ رات کو سوتے تو اکیلے ہیں مگر اکثر صبح اکیلے اٹھتے نہیں۔
دونوں نے تعجب سے ہمیں دیکھا اور قدرے الجھے ہوۓ پوچھا ”یہ کیا بات ہوئی ؟“
بات بہت سمپل ہے ، یہ بتاؤ  کہ انرجی ڈائٹ کے بعد یا موویز دیکھتے ہوۓ کبھی محسوس ہوا کہ باڈی وارم اپ ہو رہی ہے؟ سنسناہٹ سی ہوتی ہو؟ بندہ خود کو ہیرو سمجھنے لگے؟ بلڈ سرکولیشن سپیڈ پکڑنے لگے؟ پیشاب والا ٹول ایبنارمل ہونے لگے؟ ہُوا کبھی ایسا؟
دونوں کافی شرما سا گئے ۔ گال سرخ ہو گئے  اور بڑے محی کے ماتھے پر پسینے کی ننھی منی بوندیں چمکنے لگیں۔
ہم نے کہا ”شرمانے کی کوئی  ضرورت نہیں۔ یہ نیچرل ہے ، شرع میں کوئی  شرم نہیں۔ ہاں یا ناں میں جواب دو !
دونوں نے کہا کہ جی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہم نے کہا ”شاباش ، لیکن آئندہ یاد رکھو ، ترش چیزیں روزانہ نہیں کھانی۔ سادہ اور ستھری غذا کے علاوہ گرم مصالحے سے پرہیز کرو ، اچھی ، علمی ،ُبامقصد اور معلوماتی موویز دیکھو ، گوگل اور یو ٹیوب پر بے تحاشا پورن مواد بھی ہوتا ہے ، ان سے گریز بہتر ہے ، اس کے نقصانات زیادہ اور فائدہ ایک بھی نہیں۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ بندہ ایک بار دیکھ لے تو پھر بار بار دیکھتا ہے۔ شخصیت تباہ ہو جاتی ہے۔ کبھی اچانک نظر پڑ بھی جاۓ تو تجسس میں نہ پڑو۔ کیونکہ یہ کوئی  پزل تو ہے نہیں کہ لازمی حل کرنا ہے۔ بچے ہوں یا بچیاں ، جب وہ اپنے اندر کچھ مختلف محسوس کرنے لگیں تو اپنے اپنے بستر الگ اور دور کر دینے چاہئیں۔ فاصلہ اور پرائیویسی بہت مفید ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کمفرٹ زون کا لحاظ رکھنا چاہیے، چاہیے وہ بہن ہو ، بھائی  ہو ، کزن ہو یا کوئی  بھی قریبی رشتہ ہو۔ کسی سے بے ہودہ مذاق یا گپ شپ بھی نہ ہو۔ اپنے پرائیویٹ باڈی پارٹس کو چھونے مت دو ،نہ ہی کسی اور کے ساتھ ایسا کرو۔ ایک نا قابل عبور سپیس قائم رکھو۔ اس عمر میں ہم عمر لڑکیاں دور سے بھی اور قریب سے بھی اچھی لگنے لگتی ہیں ، لڑکیوں کی بھی سیم فیلنگز ہوتی ہیں ۔۔۔ مگر ان فیلنگز کو کبھی بہت زیادہ سنجیدہ نہ لو ۔ سنجیدہ لو گے تو سارے خواب ، نصب العین اور منزلیں نامکمل رہ جائیں گی۔ اسی سے جڑی ہوئی سب سے اہم بات کہ عزت صرف بیٹیوں سے ہی نہیں بلکہ بیٹوں سے بھی مشروط ہوتی ہے۔ جو غیرت تمھیں اپنی بہن کے متعلق ہے وہی دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کے لیے بھی طے ہونی چاہیے۔ یہ دنیا گول ہے ، مکافات عمل کا اصول سمجھتے ہو ؟یعنی جیسا دوسروں کے بارے سوچو گے تو وہی کچھ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں تمہارے ساتھ بھی ہو کے رہے گا۔ فکشن بے شک خوبصورت سہی مگر فیکٹ سے زیادہ مضبوط کبھی نہیں ہو سکتا۔ جس ماؤنٹین کلائمبر نے چوٹی سر کرنی ہو وہ راہ کی خوبصورتیوں پر وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتا ورنہ ایکسپیڈیشن (مہم) کبھی پوری نہیں ہوتی۔ فی الحال اتنا کچھ ہی کافی ہے ۔ کسی بات کی سمجھ نہ آۓ تو پوچھتے رہنا۔“
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply