کنیڈا دا پھیرا(1)-سلمان خالد

 امریکی 14 اگست، سرپرائز، لیگو لیند، بھولا بندہ اور خراٹے: 
چار جولائی 1776ء امریکہ کا (14 اگست) یومِ آزادی کا دن ہوتاہے۔ امسال یہ یومِ تعطیل جمعرات کو وارد ہو رہا تھا سو دفتر سے جمعہ کی اضافی رخصت میں ہفتہ اتوار کی پیوند لگا کر کُل ملا کر چار دن کی عمرِ دراز مانگ لائے۔ فیملی سے مشورہ مانگا تو فلوریڈا میامی جانے کا کہا گیا لیکن میرا پروگرام اتنی لمبی ڈرائیو کرنے کا ہرگز نہ تھا اور نجانے کیوں فلوریڈا سے کوئی ایسی انسیت بن بھی نہیں پائی تھی تو جواب المشورہ میں گھر کے باس بےبی عمر سلمان کی کنیڈا یاترا کی   سجیشن بلکہ حکم پہ آمین کہا گیا۔ دراصل عمر گزشتہ برس نومبر کے تھینکس گیوِنگ لانگ ویک اینڈ پہ کنیڈا کے ایک ریستوران سے پیزا کھا آیا تھا جہاں سرورز (ویٹرز) کی بجائے روبوٹ اپنی جھولی میں آپ کا کھانا میز پہ لے آتا ہے۔ برخوردار کو سات آٹھ مہینے سے وہ روبوٹ بھولا نہیں تھا اور صبح شام چلو کنیڈا، چلو کنیڈا کی رٹ لگائے رہتا۔ کئی مرتبہ اُسے جُل دینے کی کوشش کی مگر اب وہ اپنی والدہ کے فون سے تمام ایپس ڈیلیٹ کرکے احتجاج کرنا شروع ہو گیا کہ،مجھے کنیڈا دوبارہ لے جاؤ ورنہ ایداں تے ایداں ای سئی!

اہلیہ نے کہا کہ ڈزنی لینڈ کے ٹکٹ “کھڑے پیری” پہ بہت مہنگے ملیں گے تو اگر کینیڈا کا پروگرام بن ہی گیا ہے تو نیویارک میں نئے کُھلے تھیم پارک Legoland کی بکنگ کروا لی جائے۔ میں سفر بارے بےپرواہ اور کسی بھی قسم کی کوئی خصوصی منصوبہ بندی پہ یقین نہیں رکھتا مگر ڈزنی کے مقابلے Legoland کی ڈیل اپنے بجٹ میں فِٹ آئی تو فوری ٹکٹ بک کروا کر ایپل والٹ میں الیکٹرانک کاپی محفوظ کر لی گئی اور جمعرات چار جولائی کو طویل سفر کا آغاز ہوا۔ دراصل اس ٹرپ کا مقصد بچوں کو سرپرائز دینا مقصود تھا، لہٰذا انہیں یہی بتایا گیا کہ ہم نیویارک یا میامی میں سے کسی ایک جگہ جا رہے ہیں اور شام کو حسبِ سابق پاپا کے پسندیدہ ریستوران سے کوئی سٹیک مٹیک وغیرہ کھا کھو کر واپس لوٹ آئیں گے، جس پہ اُن کے مُنہ  NOT AGAIN کہہ کر لٹکے ہوئے نظر آئے۔ اہلیہ نے کوئی چھ بجے صبح اُٹھ کر آلو والے پراٹھے اور انڈوں کا خاگینہ (پنجابی میں بُھرجی کہہ لیجئے) بنا کر زادِ راہ کیے اور اَدھے سوئے بچوں کو سہارا دیتے ہوئے ایس یو وی میں بٹھایا۔ سفری سامان، کپڑے اور دیگر لوازمات بندہ رات کو ہی پیک کرکے شان دار طریقے سے ٹرنک (ڈگی) میں ٹھونس چکا تھا۔ اب بس “ڈبل ہے استاد” کی تھپکی کی ضرورت تھی سو اُسے دِل میں “آواز ہائے ہاکرانہ” کی طرح دہرا کر مُنہ  وَل نیویارک Legoland مع کنیڈا شریف ہو گیا۔

لیگو لینڈ نیویارک کے گُشن سٹی میں واقع ہے جو ابھی حال ہی 2021مئی میں کھلا ہے۔ جو قارئین نہیں جانتے انہیں بتاتا چلوں کہ لیگو دراصل پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے مستطیلی و چوکور مکعب ٹکڑے ہوتے ہیں جن کے سینکڑوں سے لے کر لاکھوں ٹکڑے جوڑنے کے بعد آپ کوئی سینری، تصویر، عمارت یا کامک کیریکٹر وغیرہ اسیمبل کر سکتے ہیں۔ بچوں کی ذہنی مشق اور کاگنیٹو سکلز کے لیے بہترین ایکسرسائز ہے۔ برخوردارِ اکبر عبداللّٰہ سلمان بچپن سے لیگو پیسز کو جوڑنے کے ماہر ثابت ہوئے ہیں اور اپنی قابلیت و جوہر دکھلاتے دکھلاتے اب ماشاءاللّٰہ اُس سٹیج پہ پہنچ چکے ہیں جہاں پاپا کی جیب کو بریکیں لگانی پڑتی ہیں۔ جی ہاں! یہ لیگو پزل کی صورت امریکہ میں نہایت مہنگے داموں فروخت ہونے والے کھلونوں میں شمار ہوتی ہے۔ پچیس تیس امریکی ڈالر سے لے کر کوئی امریکی 3000$ تک کی پرائس رینج سمجھ لیجیے۔ عبداللّٰہ ماشاءاللّٰہ 500$ تک کی پانچ ہزار لیگو بلاکس پہ مشتمل پزلز کا خرچہ کروا چکا ہے مگر اچھی بات یہ کہ وہ صبح سے شام تک لگا رہتا ہے اور سب ٹکڑے صحیح جوڑ جاڑ کر نئے لیگو کا خرچ کروانے کو تیار رہتا ہے۔ جس پہ اُسے بطور شاباشی مزید انعام دینا جیب پر مزید بھاری پڑ جاتا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ اب وہ روبوٹ پروگرامنگ والے لیگوز کی جانب مائل ہو کر ایک ہی لیگو پراڈکٹ سے ملٹی پل کمبی نیشن بنا لیتا ہے۔

بہرحال! لیگو لینڈ کی بات کریں تو 500 ایکڑ کے وسیع وعریض پہاڑی سلسلے پہ پھیلا ہوا یہ پارک لگ بھگ پانچ برس کے عرصے میں کوئی 500 ملین ڈالرز (آدھا بلین) کی لاگت سے تعمیر ہوا۔ دورانِ تعمیر مقامی آبادی کے ماحولیاتی آلودگی اور ٹریفک بڑھنے جیسے خدشات پہ متعدد مرتبہ احتجاج پر شہری حکومت نے پارک انتظامیہ کو قریباً ساڑھے تین لاکھ کا جرمانہ بھی کیا تھا۔ ابھی بھی گُشن سٹی اور لیگو لینڈ کے اڑوس پڑوس میں کوئی قابلِ ذکر ریستوران یا ہوٹل ملنا ڈھونڈنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کا حل لیگو لینڈ پارک والوں نے پارک میں ہی 250 کمروں کا تھیم بیسڈ ہوٹل بنا کر نکال لیا۔ آسان زبان میں پیکیاں دی (والدین) جیب سے مزید رقم اینٹھنے کا تکنیکی طریقہ سمجھ لیجئے۔ پارک کے مختلف سیکشنز ہیں جن میں دنیا کی مشہور ترین عمارتوں اور لینڈ مارکس کو miniature buildings کی صورت لیگو ٹیم نے سجا رکھا ہے۔ 4D مووی تھیٹر (سینما ہال) جہاں لیگو کامک کریکٹرز پہ ایک مووی دکھائی جاتی ہے اور تھیٹر کی نشستوں پہ براجمان حاضرین کو پانی کے چھینٹے، تیز ہوا کے جھونکے، گرم آگ کے بگولوں اور سکرین پہ ہوئے کار حادثے پہ لرزش محسوس کرنے کو ملتی ہے۔ پھر ایک مکمل واٹر پارک سیکشن ہے جہاں بچے، بڑے، بوڑھوں، مائیوں اوربالخصوص “بڑیوں”سمیت سبھی پانی کی چھالوں اور فوارہ نما کھیل کود کے دوران یک دم پانچ سو گیلن پانی کی ٹینکی کو خود پہ اُلٹنا ایک شان دار تجربہ رہا۔ ایک جانب رولر کوسٹر اور دیگر اینڈرالین رش رائیڈز تھیں اور دوسری جانب ڈاجنگ کارز اور دیگر فنَ سپورٹس کی آپشنز سو سبھی کو ایک ایک بار موقع دیا گیا۔ عموماً پارک شام چھ بجے بند ہو جاتا ہے مگر آج امریکی یومِ آزادی پہ سگنیچر آتش بازی کی تقریب کے لیے پارک کے اوقات غروبِ آفتاب کے بعد نو بجے کر دئیے گئے تھے۔ پارک انتظامیہ نے کاغذی سولر سن گلاسز کی طرح ایک خصوصی ڈسپوزیبل قسم کی عینک ہر زائر کو فراہم کی جسے پہنتے ہی آتش بازی کی افق پہ امڈتی چنگاریاں Lego Blocks کی طرح نظر آنے لگتی تھی۔ یہ بلاشبہ ایک انوکھا تجربہ تھا مگر مجھے وہ چشمہ اتار کر منظر کو آنکھوں میں اتارنا زیادہ دلچسپ لگا جو قریباً پندرہ منٹ تک جاری رہا۔

پارک سے واپسی پر فون میں موجود Expedia app سے قدرے مہنگے داموں فور سٹار ہوٹل بُک تو کروا لیا مگر نجانے کیوں کنفرمیشن کرتے ہوئے ناشتہ شامل کرنے کا چیک باکس ٹِک نہ کر سکا۔ بنا منصوبہ بندی سفری کَھچوں پہ اہلیہ کی جانب سے سرزنش نما احتجاج تو ہوا مگر بھولا بندہ “بولا” (بہرہ) سا بن کر مسکراتا رہا۔ اردگرد کوئی دیسی اور حلال ریستوران بھی نہ ملا تو امریکی فاسٹ فوڈ ریستوران سے مچھلی والے برگر اور فرنچ فرائز پہ شکم سیری کرکے ہوٹل کی جانب ایس یو وی دوڑا دی۔ بستر پہ استراحت افروز ہوتے ہی فون میں آج ٹوٹل پیدل فاصلہ دیکھا تو “تراہ” ہی نکل گیا کیوں وہ لگ بھگ پانچ میل تھا۔ اتنا فاصلہ اکٹھا طے کرنا ویسے بھی طاغوت کی علامت ہے سو شُف شُف کرتے ہوئے بچوں کو کمر اور پنڈلیوں پہ پانچ سات منٹ چلنے کا حکم دیا جو خود نمانے اَدھ موئے ہو چکے تھے۔ مگر اَبّا ہونے کا دبکا اور پروٹوکول نما خصوصی اختیارات کام آئے جس پہ اہلیہ کی جانب سے مکرر سرزنش آمیز خشمگیں احتجاج پہ بھولا بندہ پھر سے بولا بن کر نجانے کب خراٹوں کی گونج سے درودیوار کو لرزاتا رہا۔۔۔
یاد نہیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply