لندن سے ایک خط(آرٹ گیلری)-فیضان عارف

میں اُن دنوں بہاول پور کے عباسیہ ہائی سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب مجھے عربی یا ڈرائنگ میں سے کسی ایک مضمون کا انتخاب کرنا تھا۔ میں نے ڈرائنگ کو اپنے لئے ایک اختیاری مضمون یعنی آپشنل سبجیکٹ کے طور پر چُنا، رضی صاحب اُن دِنوں ڈرائنگ کے استاد تھے۔ اُن کا کمرہ گراؤنڈ فلور کی راہداری کے آخر میں ہو ا کرتا تھاجو ایک طرح سے آرٹ گیلری اور کلاس روم دونوں مقاصد کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کشادہ کمرے کی دیواروں پر رضی صاحب کی بنائی ہوئی تصاویر/پینٹنگز آویزاں تھیں۔ زیادہ تصاویر عبد الرحمن چغتائی کی مصوری سے مماثل تھیں۔

ڈرائنگ/آرٹ کے ہم سب طالبعلم جب بھی ڈرائنگ کے پیریڈ میں اس کلاس روم میں جاتے تو رضی صاحب کمرے کے درمیان میں ایک سٹول پر گلدستہ، جگ، کوئی مجسمہ یا کچھ پھل ماڈل کے طور پر رکھ دیتے اور ہم سب طلباء اس ماڈل کی اپنے اپنے زاویے سے تصویر بنانے کی کوشش کرتے۔ کبھی کبھار رضی صاحب ہمیں مختلف اشیاء کے خیالی سکیچ بنانے کا ٹاسک دیتے۔ ہماری کلاس میں کچھ لڑکے اس قدر عمدہ تصویر کشی کرتے کہ رضی صاحب بھی حیران رہ جاتے اور انہیں شاباش دیتے۔ مجھے انہی دِنوں مصوری، ڈرائنگ اور خطاطی سے انسیت ہوئی اور میری یہ دلچسپی آج بھی برقرار ہے۔

لندن آ کر میں نے سب سے پہلے جن مقامات کو دیکھنے کو اولیت دی اُن میں اس شہر کی آرٹ گیلریز پہلے نمبر پر تھیں۔ برطانوی پارلیمنٹ سے ٹریفالگر سکوائر کی طرف آئیں تو اس مشہور مقام پر لگے فوارے کے پیچھے ایک پُرشکوہ عمارت دکھائی دیتی ہے۔ یہ برطانیہ کی شاندار اور منفرد نیشنل گیلری آف آرٹ ہے جس کے پہلو میں پورٹریٹ گیلری کی بلڈنگ ایستادہ ہے۔ کئی برس پہلے پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی کے پروفیسر لندن آئے۔ اُن کا اصرار تھا کہ میں ویک اینڈ پر انہیں شہر کی سیروسیاحت پر لے جاؤں۔ یہ پروفیسر صاحب بظاہر آرٹ، مصوری اور فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ برطانوی دارالحکومت میں نیشنل آرٹ گیلری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں گیلری کے بارے میں مزید کوئی تفصیل بتاتا وہ بے قرار ہو کر کہنے لگے کہ میں تو لندن کی رونقیں دیکھنے، نائٹ لائف، گہما گہمی اور موج مستی کو انجوائے کرنے آیا ہوں۔ آرٹ گیلری میں کیا رکھا ہے۔ یہ سب گوروں کے چونچلے اور غیر ملکی سیاحوں سے مال بٹورنے کا حربہ ہیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ اس آرٹ گیلری میں جانے کی کوئی ٹکٹ نہیں ہے یعنی آپ مفت میں نامور مصوروں کے شاہکاروں کو دیکھ سکتے ہیں تو وہ تب بھی اپنا وقت ضائع کرنے پر راضی نہ ہوئے۔

لندن آرٹ گیلریز اور عجائب گھروں (میوزیمز) کاشہر ہے۔ یہاں دو ہزار سے زیادہ آرٹ گیلریز دنیا بھر کے سیاحوں اور مصوری سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خاص کشش رکھتی ہیں۔ بہت سی آرٹ گیلریز اور میوزیمز کا شمار دنیا کی بہترین نمائش گاہوں میں ہوتا ہے جن کی وجہ سے لندن کو فنون لطیفہ کا اہم مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ اسی لئے مصوری اور آرٹ کے دلدادہ اور فنونِ لطیفہ سے رغبت رکھنے والے لاکھوں لوگ اس شہر میں آ کر سرشار ہو جاتے ہیں اور کئی کئی ہفتے یہاں قیام کرتے اور اپنے پسندیدہ عجائب گھروں اور آرٹ گیلریز کے دوروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لندن کی نیشنل گیلری یا نیشنل گیلری آف آرٹ کا شمار صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اہم آرٹ میوزیمز میں ہوتا ہے۔

اس کا قیام 1824ء میں عمل میں آیا۔دو صدیاں پہلے قائم ہونے والی اس آرٹ گیلری میں تقریباً اڑھائی ہزار پینٹنگز اور آرٹ کے نایاب نمونے موجود ہیں۔ گذشتہ برس 10لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اس آرٹ گیلری کا دورہ کیا اور اکثریت نے وزیٹرز بک میں اپنے تاثرات کا اندراج کیا۔اس آرٹ گیلری میں دنیا کے نامور مصوروں اور پینٹرز کی تخلیقات کے ان نایاب اور قیمتی نمونوں میں ہر ایک کی مالیت کروڑوں پاؤنڈز ہے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دو صدیوں سے اس آرٹ گیلری کی ہر تصویر اور فن پارے کی اس طریقے سے حفاظت کی گئی ہے کہ وہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس گیلری کے بہت سے فن پاروں کو ویلز منتقل کردیا گیا تاکہ کسی حملے کی وجہ سے مصوری کا کوئی نایاب نمونہ ضائع نہ ہو جائے۔انگریزوں کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے عجائب گھروں اور آرٹ گیلریز میں نہ صرف مصوری، نوادرات اور آرٹ کے شاہکاروں کو یکجا کیا بلکہ دنیا بھر سے قیمتی فن پاروں کو اپنے ملک میں لا کر اُن کی حفاظت اور دیکھ بھال میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

نیشنل گیلری میں صرف ماضی کے بے مثال مصوروں اور پینٹرز کی ہی تخلیقات کو نمائش کے لئے نہیں رکھا گیا بلکہ موجودہ دور کے اہم مصوروں کے فن پاروں کو بھی اس مرکز کی زینت بنایا گیا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں کسی بھی پاکستانی مصور کا کوئی فن پارہ نمائش کے لئے نہیں رکھا گیا۔ نلینی نالانی (NALINI NALANI)نامی ایک انڈین خاتون آرٹسٹ کے تخلیق کردہ ڈیجیٹل امیج کو اس آرٹ گیلری میں جگہ دی گئی ہے۔ یہ خاتون 1946ء میں کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور انہوں نے 1969ء میں ممبئی کے سر جے جے سکول آف آرٹ سے گریجوایشن کیا تھا۔ میں نے نیشنل گیلری کو آخری بار چند برس پہلے دیکھا تھا۔

جرمنی سے میرے ایک پاکستانی دوست لندن آئے ہوئے تھے۔ میں انہیں پکاڈلی، بکنگھم پیلس، ٹاور برج اور اس شہر کے دیگر اہم مقامات کی سیر کراتے ہوئے ٹریفالگر سکوائر لے گیا۔ ایک زمانے میں یہاں فواروں کے اردگرد کبوتروں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔سیاح انہیں دانا ڈالتے تھے تو یہ کبوتر اُن کے کندھوں یا بازوؤں، ہاتھوں اور سروں پر آ کر بیٹھ جاتے۔ سیاح ان کبوتروں کے ساتھ تصاویر بنوا کر خوش ہوتے تھے۔ کبوتروں کی تعداد جب بہت زیادہ بڑھ گئی اور ٹریفالگر سکوائر کے فرش یا فوارے اور مجسمے اِن کبوتروں کی بیٹھوں کی وجہ سے آلودہ ہونے لگے تو ویسٹ منسٹر کونسل نے اِن کبوتروں کو دانا ڈالنے پر پابندی لگا دی اور پھر رفتہ رفتہ کبوتروں کی تعداد اور آلودگی میں کمی ہوتی چلی گئی۔ میں اپنے دوست کے ہمراہ بہت دیر تک ٹریفالگر سکوائر کی رونقوں کا نظارہ کرتا رہا اور پھر ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ کر نیشنل گیلری میں چلے گئے۔ اس گیلری کو پوری طرح دیکھنے کے لئے کئی گھنٹے چاہئیں۔ گیلری کے بند ہونے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ چنانچہ ہم نے اس آرٹ گیلری کے ہر حصے کو سرسری طور پر دیکھنے کو ہی غنیمت جانا۔ میرا دوست گیلری کے جس حصے میں بھی خواتین کی برہنہ یا نیم برہنہ پینٹنگز دیکھتا وہاں اس کے قدم رُک جاتے اور وہ بہت غور سے اِن شاہکار تصاویر کو دیکھتا اور آرٹسٹ کے کمالِ فن کی داد دیتا اور مجھے مجبوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے حصے میں لے جانا پڑتا۔

مصوری ہو یا مجسمہ سازی برطانیہ اور یورپ میں برہنگی (NUDITY)کو معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے آرٹ اور فن کا فطری حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں اس وقت ڈیڑھ سو سے زیادہ نیوڈ کلب (NUDE CLUB)ہیں جس کے تمام ممبرز بالکل برہنہ ہو کر کلب میں داخل ہوتے ہیں اور بغیر لباس کے تیراکی، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اور دیگر اِن ڈور گیمز سے لطف اندوز ہوتے، ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے اور مل بیٹھ کر لنچ اور ڈنر کرتے ہیں۔ اِن کلبزکا عملہ بھی لباس کے بغیر اپنے ممبرز کی میزبانی کرتا ہے۔ سُنا ہے کہ اِن کلبز کے ممبرز کو کسی نامحرم کو چھونے یا گھورنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دس برس پہلے اِ ن نیوڈ کلبز کی تعداد تقریباً ساڑھے تین سو تھی جو کڑی شرائط اور قانونی پابندیوں کی وجہ سے اب ڈیڑھ سو تک محدود ہو گئی ہے۔

برطانیہ میں آرٹ اور آرٹسٹوں کی بہت قدر کی جاتی ہے۔ اُن کی تخلیقات کو بھار ی معاوضہ دے کر خریدا اور گیلریز کی زینت بنایا جاتا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان میں بھی مصور، پینٹرز، مجسمہ ساز اور بہت سے ہنرمند آرٹسٹ موجود ہیں لیکن اُن کی عزت افزائی اور پذیرائی اس طرح نہیں کی جاتی جیسا کہ برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ اور آرٹ کی اہمیت زائل ہوتی جا رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران ہماری سماجی اقدار اور معاشرتی ترجیحات یکسر بدل گئی ہیں۔ متمول لوگ مجرا پارٹی میں لاکھوں روپے لُٹا دیتے ہیں لیکن اگر کہیں کوئی سنجیدہ محفل موسیقی کا اہتمام کیا جائے تو اس کا ٹکٹ خریدنے کی بجائے مفت کا پاس حاصل کرنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ویسے بھی خوشحال ملکوں میں فنون لطیفہ کو فروغ ملتا ہے کیونکہ وہاں خواندگی کی شرح سو فیصد ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں جاہل اور کرپٹ سیاستدانوں کو وزیر ثقافت بنایا جائے وہاں آرٹ اور فن کو دریا میں بہا دینا چاہئے لیکن اب تو پاکستان کے دریا بھی خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply