پشاور روڈ سے آیون کسی ایسی دُلہن کی طرح نظر آتا ہے جس کا ایک ایک انگ حُسن دلربائی کی تصویر ہو۔ پر جونہی نیچے اُتر کر نقاب کشائی ہوتی ہے تو ایک بھدا بے رونق اُجڑا پُجڑا چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے یوٹرنز کی خطرناک چڑھائیوں اُترائیوں کے بعد بلندی پر گاڑی کے سیدھا ہونے پر وہی دلربائی دامن دل کو پھر کھینچتی ہے۔
ژوبار چیک پوسٹ سے ریمبور جانے کے لیے ڈرائیور نے گاڑی دائیں ہاتھ موڑ لی۔ راستہ بہت تنگ اور دشوار گزار تھا۔ سیاہ اور براؤن چٹانیں خوفناک تھیں۔ بہت نیچے نالہ ریمبور بہتا تھا۔ چوبی پُل پر کراسنگ کے بعد گاڑی کے سامنے عمودی چڑھائی تھی۔ یہ چڑھائی دہلانے والی تھی یوں کہ دو قدم آگے بڑھتے تو چار قدم پیچھے لڑھکتے۔ چند بار کے اس عمل سے مجھے یوں لگا جیسے تڑپتی اور ہونکتی گاڑی اب نالے میں گر کر ہی دم لے گی۔
میرا اضطراب اور بے چینی ڈرائیور سے پوشیدہ نہ رہ سکی تھی شاید اسی لیے اس کی آواز میں اطمینان تھا اور لہجے میں دلاسا۔
” پریشانی والی بات نہیں یہاں گاڑی کو ریورس کیے بغیر آگے نہیں جایا جا سکتا۔“
درے نما راستے کے بعد آسمان کی کشادگی اور درختوں فصلوں کی ہریالی خوف و دہشت کی گرداب میں ڈولتے ڈوبتے دل کو زندگی کے حسن اور رعنائی کے توانا احساس سے قوت دیتیں۔
” گمبائیک پُل۔ ڈرائیور نے بتایا۔ نالے کے ساتھ راستہ دیکھیے۔ “
میں نے آنکھوں کو ممکنہ حد تک پھاڑتے ہوئے اشارہ کردہ سمت کی طرف دیکھنا شروع کیا یہ راستہ اُس جنگل کو جاتا ہے جہاں بہت بڑی چرا گاہ اور کھیت کھلیان ہیں۔ موسم گرما میں کاشتکاری ہوتی ہے۔ یہاں سُرخ رنگ کے پانی کا ایک چشمہ ہے جو پیٹ کی بیماریوں کے لیے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔
پراکالک۔ کوٹ دیش۔ بالا دیش۔ اوچھوک گول کے گاؤں گزرتے گئے۔ اور ایک عجیب سا منظر آنکھوں کے سامنے اُبھرتا گیا۔ کالاش مرد و زن پیروجواں بچے بالے راستے پر کہیں جتھوں میں کہیں اکا دکا نشیب میں بہتے نالے کی طرح ہوائی فائرنگ کی گھن گرج کے ساتھ چلے جاتے تھے۔
”مرکز میں کوئی مر گیا ہے۔ موت بھی کسی امیر آدمی کی ہے۔“ ڈرائیور نے مجھے مطلع کیا۔ موت کیسا خوفناک دہشت بھرا اور وجود کی رگ رگ میں کپکپی دوڑانے والا لفظ ہے۔ پر یہاں گاڑی میں اسے سُن کر میرے اندر جیسے مہتابیاں سی چھٹنے لگی تھیں اس لیے کہ نسلی تخلیق کے لیے ملاپ کے بندھن موت خوشی و غمی جیسے فطری عناصر کسی بھی قوم قبیلے کے وضع کردہ رسم و رواج اور طور طریقے اس کے مزاج اور خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
” چلو اب یہ تو دیکھوں گی ہی۔“
مرکزی وادی گروم میں جب داخلہ ہوا تو سچی بات ہے یوں محسوس ہوا تھا جیسے طبل جنگ بجا ہو۔ ہوائی فائرنگ اور لوگوں کا جم غفیر اوپر پہاڑوں کی طرف رواں دواں تھا۔ کالاش ہوٹل کے سامنے ڈرائیور نے مجھے اُتار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ”موت کا یہ کھیل اب دو تین دن چلے گا۔ اطمینان سے رہیے اور دیکھیے۔ “
موت کے اس ہنگامے کو دیکھنے اور اس کے بارے میں جاننے کی شتابی کے ساتھ ساتھ میرے لیے عصر کی نماز کے لیے کسی مسجد کے فرش پر سجدہ کرنا بھی ضروری تھا۔ ہوٹل کے عقبی لان سے ماحول کی دلکشی سے لطف اندوزی کو میں نے کسی دوسرے وقت پر اٹھا دیا اور باہر نکل آئی۔ دریا کے کنارے اس کا گھر مجھے نظر آ گیا تھا۔ میں نے اس نئی زمین پر عاجزانہ عبودیت کے اتھاہ جذبے کے زیر اثر سر جھُکا دیا تھا۔
دریا پر بنے چوبی پُل پر پار سے آتے ایک نوجوان لڑکے کو میں نے روک لیا۔ وادی کی اس ہنگامی حالت پر بات چیت سے معلوم ہوا کہ کالاش قبیلہ مُردے کو اس کی موت کے فوراً بعد چارپائی پر ڈال کر ڈانس ہال لے جاتا ہے۔ گروم گاؤں کے ایک معزز آدمی کا آج گیارہ بجے انتقال ہو گیا ہے۔
میری اوپر جانے کی خواہش پر اُس نے فی الفور چلیے کہہ کر ہاتھ بڑھا دیا۔ شوق کے ہاتھوں پیٹ کا مسئلہ پس پشت چلا گیا۔ حالانکہ اُس وقت بھوک کی شدت سے میری کنپٹیوں میں ٹیسیں سی اُٹھ رہی تھیں۔ بیگ سے بسکٹوں کا پیکٹ نکال کر میں نے بسکٹ کھاتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لیے قدم اُٹھائے۔
کیا عجیب منظر تھا دائیں بائیں آگے پیچھے ڈھول بجاتے ڈانس کرتے ہا ہو کی آوازیں نکالتے زینہ در زینہ چڑھائیوں پر سیاہی سے اٹے پڑے دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کے ساتھ ساتھ تنگ راہوں پر چلتے لوگوں کا ایک ہجوم ندی کے سبک خرام پانیوں کی طرح بہتا چلا جاتا تھا۔ یقیناً یہ دو سو فٹ کی بلندی تھی۔ فطرت کی گود میں رنگوں کی روشنی میں ہنستا مسکراتا اٹکھیلیاں کرتا یہ ایک بھریا میلہ تھا۔ پر ذرا آگے ایک حیرت انگیز منظر بھی تھا۔
چارپائی پر ایک میت ستونوں پر مشتمل بے در و دیوار چھت والی ایک کشادہ اور ہموار جگہ کے بیچوں بیچ پڑی تھی جسے دیکھنے میں یہاں آئی تھی۔ تین چار عورتیں سرہانے بیٹھیں سر کے کھلے بالوں سے چہرہ ڈھانپے اپنی زبان میں اونچے اونچے کچھ گا رہی تھیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی بیوی بہوئیں اس کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔
اب سورج کی نارنجی کرنوں نے ایک اور منظر کا راستہ کھولا۔ دو کالاشی بزرگ ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کلہاڑیوں کے ساتھ مجمع میں سے نکلے آگے بڑھے میت کے قریب آئے اور بلند آواز میں کچھ پڑھنا شروع کیا۔ ہزاروں کا ہجوم دم سادھے کھڑا تھا۔ اُس سمے مجھے اپنا آپ ماضی کی کسی ایسی ٹنل میں محسوس ہوا تھا جہاں وہ رزمیہ شاعری کرنے والا ہومر ایسے ہی ماحول میں کھڑا ٹروجن وار کے بعد یولیسس کے کارناموں اور اس کی دس سالہ طویل مسافتوں کی داستان گا رہا ہو۔
اس سین کا کلائمکس اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی کلہاڑیاں میت کے وسط میں لا کر ٹکرائیں۔ اس زوردار ٹکراؤ کی ٹک گویا وہ صور اسرافیل تھی کہ جس نے فطرت کے نظاروں میں گھرے اس کشادہ قطعہ پر کھڑے لوگوں کو یوں مہمیز کیا کہ ان کی خاموش زبانیں اور اجسام اس طرح متحرک ہوئے کہ سیٹیوں کے ساتھ ایک ایسا زوردار ڈانس شروع ہوا کہ لگا جیسے کائنات اب کسی تندوتیز بگولے میں تحلیل ہو کر فضا میں پھیتی پھیتی ہو کر بکھر جائے گی۔ اس جگہ کے ساتھ ایک خستہ حال عمارت تھی۔ سردیوں کا ڈانسنگ ہال جس کے ستونوں پر بکرے کے نقش و نگار تھے۔
جب ڈھول کی ڈھم ڈھم کانوں کے پردے پھاڑتی تھی۔ جب گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور سنسناہٹ رگوں میں خون کو منجمد کرتی تھی اور جب حسیناؤں کے پُرے رقص بسمل میں مگن تھے میرا گائیڈ مجھے مہاندیو کی زیارت کی دعوت دیتا تھا۔ سامنے والی پہاڑی پر بڑے سے پتھر کے سائے تلے چار دیواری میں مہاندیو رہتا ہے۔ میں نے دیکھا راستہ تنگ بھی تھا اور دشوار گزار بھی وقت کی کمی بھی پیش نظر تھی۔ یہاں گھوڑوں کے چوبی سروں والے مجسمے ہوں گے جا بجا دیودار کی ٹہنیاں خون کے چھینٹے جلتی آگ یا شاید راکھ ہو۔ قربان گاہ میں یہی سب کچھ ہوتا ہے نا۔ میں نے استفہامیہ انداز میں اُسے دیکھا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں