بالغ ہوتی اولاد کو چند نصیحتیں (2)-خالد قیوم تنولی

بڑے دونوں نے اگلے دن ہی اپنے وکیل شانی کے ذریعے ہم سے اپنی دانست میں بہت اہم سوال پوچھا : ”پاپے ! یہ ڈاکٹر یا نائی لوگ چھوٹے بچوں کی نونو کی کٹنگ کیوں کرتے ہیں؟۔ اور کیا ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے یا باقی دنیا بھر میں بھی؟ ۔۔۔اور اس کا فائدہ کیا ہے؟“
ہم کھانا کھا رہے تھے اور ایک نوالہ ہمارے ہاتھ میں تھا ، جسے ہم نے واپس پلیٹ میں رکھا اور کہا : ”فائدے تو کئی  ہیں لیکن سرِ دست پہلا یہ ہے کہ تھوڑے سے ماس کا ایک غلاف سا نونو کی ٹِپ سے آگے لٹکا ہوتا ہے جس کے ہوتے ہوۓ جسمانی صفای  نہیں ہو سکتی۔ اس کی اندرونی طرف میل کچیل اور جراثیم جمع ہوتے رہتے ہیں جو اکثر پیچیدہ سکن الرجی کا باعث ٹھہرتے ہیں۔ پھر پیشاب کرتے وقت دھار نہیں بنتی بلکہ لباس اور جسم غلیظ ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی جلدی بیماریاں پیدا ہونے کا غالب امکان رہتا ہے ، لہذا پہلے پہل حجام یہ فریضہ ادا کرتے تھے پھر جدید طبی اور سرجیکل سہولت آ جانے کے بعد سرجن یہ کام محفوظ طریقے سے کرنے لگے۔ جیسے محی اور عالی کیساتھ  سرجن ڈینیل اوبرائن نے کیا تھا  اور تمہاری ، اللہ بخشے ڈاکٹر برکت اللہ نے۔ تم لوگوں کو تو یہ تجربہ یاد بھی نہیں ہو گا ، مہینہ مہینہ بھر کے تھےتم لوگ ۔ ۔ لیکن جب ہماری تقریب ختنہ ہوئی ، تب ہم سات برس کے تھے اور مابدولت دوسری جماعت میں پڑھ رہے تھے۔ اپنی جنرل نالج اپڈیٹ کر لو کہ اس عمل کے دوران نونو کی کٹنگ نہیں ہوتی بلکہ فالتو لوتھڑے کو ذرا سا Trim کیا جاتا ہے۔ باقی ساز محفوظ ہی رہتا ہے۔“
”اُفففف ۔۔۔ درد تو بہت ہوا ہو گا ، ہیں نا پاپے؟“ شانی نے ایک ہاتھ کی مُکی  دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پہ تین بار بجا کر پوچھا۔
”بہت زیادہ ، یو کانٹ امیجن اٹ۔“
اب عالی نے ہمت کر کے ہمیں لاجواب کرنے کی اپنی سی کوشش کی : ”پاپا جی ! جب ختنہ اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قدرت ختنہ ڈن بچہ کیوں نہیں پیدا کر دیتی ۔ ۔ اس طرح کم از کم کسی بھی بچے کو درد تو نہیں ہو گا ۔۔۔ کیوں؟“

ہم نے گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ لیا : ”پُتر جی ! قدرت ہر کام پر قادر ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ھے کہ کوئی بھی بچہ ننگا پیدا نہ ہو بلکہ سوٹڈ بوٹڈ دنیا میں آۓ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فرفر انگریزی، اردو، عربی ، فرنچ یا رشین بولتا ہوا پیدا ہو ، بلکہ وہ بچہ ہو ہی نہ بلکہ سدھا سدھا گھبرو جوان ہو کر دنیا میں آ دھمکے جس طرح تم بند دروازے کو دھڑلے سے کھول کر اندر آ جاتے ہو ۔۔۔ لیکن قدرت کی اپنی وکھری پروگرامنگ ہے۔ کچھ کام قدرت انسانوں کی مرضی پر چھوڑ دیتی ہے۔ لہذا ختنہ بھی ایسا ہی عمل ہے جسے والدین نے سرانجام دینا ہوتا ہے بوساطت نائی یا سرجن کے۔ ختنہ کی روایت مسلمانوں سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے ، جس قوم میں بھی کوئی نبی یا رسول مبعوث ہوا ، ختنے کی رسم اس قوم میں موجود رہی ہے، کئی اقوام اب بھی ایسی ہیں جو ختنے نہیں کرواتیں۔ مثلاً ہندو ، بودھ ، پارسی اور مظاہر پرست وغیرہ۔ وہ as it is کی قائل ہیں۔“

julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply