منہ طرف ‘یورپ شریف'(3)-ندیم اکرم جسپال

بڑے چبوترے پہ بیٹھے ہم دور شانزے لیزے کے کنارے موجود دمکتے آرک کو دیکھ رہے تھے۔میرے ایک میزبان “اگ لاری بمب ڈرائیور” جیسے تتے تھے۔انکا خیال تھا کہ یہ آرک نزدیک جا کے بھی ایسا ہی دِکھتا ہے اور شانزے لیزے پہ بھی محض چند مہنگی دکانیں ہی ہیں۔میں نے اس کا کافی پہ تھوڑا خرچہ کروایا تاکہ یہ بیٹھ کے ٹھنڈے دماغ سے سوچ سکے۔ کافی پی کے پھر اُس سے مشورہ کیا،میری امید اور اندازے کے عین مطابق اس نے اب بھی وہی جملہ کہا کے “اوتھے کُج وی نہیں”۔میزبانوں میں موجود میری فریکوئنسی پہ چلنے والے مسیر کو دیکھا،اس نے مجھے دیکھا۔ہم “بمب” ڈرائیور کے مشورے کو یکسر کنڈ پیچھے ڈالے نکل پڑے شانزے لیزے کی طرف۔
شانزے لیزے پہ میں الگ کہانی لکھ چُکا ہوں جِسے دُھرانا بورنگ ہوسکتا ہے۔شانزے لیزے جیسی انتہائی مشہور جگہ پہ بھی پارکنگ کا وہ مسئلہ نہیں درپیش آیا جو لندن میں کسی محلے کی ہائی سٹریٹ پہ آتا ہے۔شانزے لیزے سے اُتر کے سو میٹر اندر گلی میں گاڑی پارک کی۔اور میرے اس ٹور کی سب سے بڑی کہانی اسی گلی سے مجھے ملی۔جیسے اپنے ہاں کوئی امیر سیٹھ کسی مہنگی سوسائٹی میں کارنر پلاٹ پہ اپنا گھر بناتا ہے عین اُسی طرح دنیا کے سیٹھ،قطر کے شیخ نے اپنی ایمبیسی شانزے لیزے پہ موجود آرک کے سامنے کارنر پلاٹ میں آبنائی ہے۔آرک اور ایمبیسی کے درمیان کوئی اور عمارت یا رکاوٹ نہیں ہے،محض ایک اوپن سپیس ہے جہاں عمومی طور پہ سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔جیسے کوئی احساسِ کمتری کا مارا مڈل کلاسیہ کسی سیٹھ کی نکل میں کارنر پلاٹ میں گھر بناتا ہے بالکل ویسے ہی قطر ایمبیسی کے پچھلی گلی میں پاکستان جیسی ڈیفالٹ کے دھانے کھڑی ریاست کی ایمبیسی ہے۔
شانزے لیزے پہ پراپرٹی ویلیو کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔یہاں دنیا جہان کے مہنگے برانڈز کھڑے ہیں،مہنگے ہوٹل اور کھابے بھی۔ایسی محلےداری میں پاکستانی ایمبیسی کی عمارت دور سے دیکھ کے سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ دھکے سے یہاں پہ ہے ورنہ اس کی جگہ کہیں دور ویرانے میں تھی۔پاکستان کی شان میں قصیدے پڑھتے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس اتنے قدرتی وسائل ہیں،معدنیات ہیں،ایسے شاندار موسم ہیں،شاندار لینڈ سکیب،پہاڑ اور صحرا ہیں اور ساحلی پٹی۔ہاں سب ٹھیک ہے،یہ تو رب کی دین ہے تمہارا اس میں کیا؟تم نے ان وسائل کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس بابت بات کرو،تم نے جو لینڈ سکیب،پہاڑوں اور صحراؤں کا چہرہ بگاڑا ہے اس کی کہانی سناؤ نا۔
بالکل پاکستان کے قدرتی وسائل کی طرح یہ ایمبیسی بھی کیا ہی شاندار لوکیشن پہ موجود ہے،مگر اس کی حالت دیکھ کے خون کھولتا ہے۔اس کے آس پاس چمکتی دمکتی عمارتیں ہیں،سوہنے پھول پودے، روشنائیاں،نئے رنگ روغن اور اس عمارت کے باہر کُہڑا سا دروازہ،سالوں پرانا رنگ روغن جو اکھڑ چکا اور بالکونیوں میں پھولوں کی جگہ کندگی اور جالے ہیں۔ان چند گلیوں میں یہ واحد عمارت ہے جس کے باہر لوہے کے جنگلے پڑے ہیں،اور ایک ساٹھ سالہ چاچا ٹوٹے ہوئے لِتر پہن کے ایک شوہدی سی کُرسی پہ دفتر اوقات کے بعد بھی باہر بیٹھا ہے۔ریاست کے امیج کے ساتھ اس سے بڑا مخول ہوسکتا ہے؟
وسائل کے ساتھ کھلواڑ کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔کوئی آپکو اس ریاست سے امید کی کہانی سُنائے تو سمجھ جائیں وہ جھوٹ بھول رہا ہے۔ناشکرا انسان ہو یا ریاست،ان کے پلے ذلت کے سوا کُچھ نہیں ہوتا۔بے ہنر اور بی سلیقہ آدمی ہو یا ریاست وہ ننگ اور افلاس میں ہی نام کرتا ہے۔قدرت کا سادہ سا قانون ہے،جس چیز کی بے توقیری کی جائے گی وہ آپ سے چھین لی جائے گی۔میں اپنے جملوں پہ کبھی غرور کروں یا انکی بےتوقیری کروں ،میرا ایمان ہے مجھ سے الفاظ چھین لیے جائیں گے میرا دماغ کندھ ہوجائے گا اور دل باہنجھ۔جب ریاستوں کو ایسے وسائل دیے جائیں اور وہ بے توقیری کریں تو انصاف والا رب وسائل کو مسائل میں بدل دیتا ہے۔
میں شانزے لیزے پہ بہت ایکسائٹیڈ ہوکے پہنچا تھا،مگر میں عام آدمی کی نسبت ذرا زیادہ حساس ہوں،بیرونی عوامل موڈ پہ زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔وہی ہوا،اپنا جھنڈا دیکھ کے خوش ہونا تھا،مگر میںرا خون جلتا رہا۔شانزے لیزے پہ کھڑے میرا دماغ اس جھنڈے،وسائل،اور مسائل پہ اٹکا رہا۔مشکلوں سے دماغ کو شانزے لیزے کے حسن کی طرف مائل کیا۔سوشل میڈیا سٹارز کی طرح شوہدہ گیری کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام رہا۔بس ایک کارآمد تصویر آئی جو یہاں چپکا دی۔
اب شام ہو چُکی تھی،اندھیرا اور روشنی بغل گیر ہو رہے تھی۔ایسے میں شانزے لیزے پہ موجود روشنائیاں اپنا سحر دکھا رہی تھیں۔گھنے ہرے درختوں کی اوٹ سے کہیں کہیں سنہری روشنی برآمد ہو رہی تھی۔ ہوا سے درختوں کی شاخیں جھوم رہی تھیں اور روشنائیاں کبھی نظر آتیں،پھر چھپ جاتیں،جیسے میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی ہوں۔
میں اس ماحول کے سحر میں تھا جب مجھے اپنے بمب میزبان کی آواز آئی”او چلییے نہیں،بُھک لگی اے”۔اب چونکہ روٹی کا ذکر تھا،اب مجھے اس کی جلدی اچھی لگ رہی تھی،اب کی بار مجھے اس کی جلدبازی پہ بہت پیار آیا۔میں نے کہا “چوہری تیرے پیچھے آں،جو تو کہندا کر لیندے ہاں”۔تھوڑی ہی دیر میں ہم پیرس شہر کے ملحقہ ایک پُرسکون علاقے میں ترکش ریسٹورنٹ پہ تھے۔

julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply