میں اس وقت قریباً دس برس کی تھی، کہ رات پلنگ پر لیٹے لیٹے بقول غالب نوائے سروش نے میری آغوش میں پناہ لی اور میں نے پھر نعت کا ایک مصرعہ کہا اور پھر ساری رات وہ مصرعہ گنگناتی رہی، یہاں تک کہ صبح اذان کی آواز میرے کانوں میں گونجی اور صبح صادق ہوئی!
میں سارا دن اس بارے سوچتی رہی کہ آخر یہ میرے ساتھ کیا ہوا، پھر دوسری رات کو دوسرا، تیسری رات کو تیسرا یہاں تک کہ مسلسل سات راتوں تک سات شعر کہتی اور پھر گنگناتی رہتی، مجھے اب یہ تو یاد نہیں کہ پوری نعت کیا تھی البتہ یہ یاد ہے کہ اس نعت کی ردیف اور قافیہ ” مدینے میں“ تھی!
پھر ایک رات میرے ایک دوست ایاز احمد نے مجھ سے کہا:
”میری ایک سہیلی کی سالگرہ پر کچھ اشعار کہو“
تو میں تخلیات کی رو میں بہہ نکلی اور نجانے کیا کیا اشعار کہہ بیٹھی، جس کی ردیف ” بن کر آیا“ تھی، صبح جب ایاز سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ تم نے تو رات کو کمال کر دیا!
وقت گزرتا گیا اور میں نوائے سروش کی آغوش میں شاعری کرتی رہی، پر میں نے اسے کبھی بھی اکٹھا کرنے کی خواہش نہ کی، اور نہ ہی کبھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی، مگر دسمبر 2016 میں عقیل بٹ نے میری ایک نظم کو اپنے نام سے منسوب کر کے مجھ سے اصلاح چاہی پھر اسی طرح رضوان علی رضوی نے کیا تو مجھے اس چیز کی ضرورت محسوس ہوئی کہ میں اپنا ایک مجموعہ تیار کروں، پھر غالب کی ایک غزل میں سے ایک لفظ ”سررزنداگانی“ عنوان لیا اور ایک کتابچہ ترتیب دیا!
اس کتابچہ کی ابتداء میں یہ رباعی لکھی!
خود شکل کا اپنی بت تراشا میں نے
اپنا سا خدا کا نقش ڈھالا میں نے
ممکن نہیں میرا باہر آنا خود سے
ہر رنگ میں اپنے ہی کو پوجا میں نے
سرر زاندگانی تک آتے آتے ہر شے بدل چکی تھی، منزل بھی اور منزل رسا بھی!
زندگی میں ان گنت موڑ آئے ہر موڑ پر کچھ نہ کچھ سیکھا، دوست بنے اور نجانے کیوں بے مدد و بے گانہ سمجھ کر چھوڑ گئے!
میری زندگی نے کروٹ پہ کروٹ بدلی پر نہ نجانے کیوں بے چین رہی، اب بھی میری زندگی کچھ خاص نہیں اب بھی لہو میں لتھڑی گلہ کرتی ہوں!
اب جب میں وہ وقت یاد کرتی ہوں تو مجھے میری زندگی پھٹا پرانا کاغذ لگتا ہے، ہر شخص چاہے جانے کی خواہش نہیں کرتا کچھ ایسے ہوتے ہیں جو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی صرف اور صرف اسے ہی چاہے اور سرر زنداگانی ایک ایسے ہی فرد کی کہانی ہے!
سرر زاندگانی ہی میری شناخت کا آئینہ دار ہے اور یہی میری زندگی کا اثاثہ ہے، زندگی کے وہ درد ناک لمحے جو میں نے محسوس کیے، تخلیات کی رو میں بہہ کر لفظوں کے موتیوں سے پروتی رہی اور سرر زنداگانی کے عنوان سے قلمبند کرتی رہی، بقول پروین شاکر
بشارت دے کوئی تو آسمان سے
کہ اک تازہ کتاب آنے کو ہے پھر
Facebook Comments
میں مکالمہ کی ٹیم کی بے حد مشکور ہوں کہ کہ انہوں نے میرے اس مضمون کو شائع کیا