حکومتی دعوؤں کے باوجود مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ کسی وفاقی یا صوبائی وزیر کا رواروی میں یہ کہہ دینا کہ مہنگائی تو ہے لیکن سوشل میڈیا کا پروپیگنڈہ اس سے زیادہ ہے زمینی حقائی کو تبدیل نہیں کردیتا۔ وفاقی ادارہ شماریات کی حالیہ ہفتہ وار رپورٹ بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ مسلسل چوتھے ہفتے میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
گو اس رپورٹ میں 8 اشیاء کے سستا ہونے کی نوید دی گئی ہے مگر حقیقت میں یہ نوید بھی سرکاری کاغذات کا پیٹ بھرنے اور رپورٹ کو ’’غیرجانبدار‘‘ دیکھانے کے لئے ہی ہے۔
مہنگائی میں مسلسل ہوتے اضافے کی ایک بلکہ سب سے بڑی وجہ بجلی اور پٹرولیم کے نرخوں میں جان لیوا اضافہ ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران بجلی کی قیمت میں کم و بیش چار بار اضافہ ہوا اور اب پھر لگ بھگ اڑھائی روپے فی یونٹ اضافے کی اطلاعات ہیں۔
بجلی و پٹرولیم کے مقامی نرخوں (ملکی نرخ) کا اگر پڑوسی ملکوں کے نرخوں سے تقابل کیا جائے تو یہ نہ صرف بہت زیادہ بلکہ ظالمانہ نرخ ہیں۔ فقط یہی نہیں دو اہم پڑوسی ملکوں ایران اور بھارت میں ان کے علاوہ کھاد، ادویات، روزمرہ ضرورت کی اشیاء سستی اور ٹرانسپورٹ کرائے مقابلتاً بہت کم ہیں ۔
اس تقابلی جائز کو محض یہ کہ کر ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جاسکتا کہ یہ مستحکم معیشت کے فوائد ہیں۔ ایران پر تو بیرونی اقتصادی پابندیاں بھی عشروں سے عائد ہیں پھر بھی ان کے ہاں شرح غربت ہمارے مقابلے میں کم ہے بظاہر اس کی ایک وجہ ہمارے ہاں آبادی میں ہوتا بے لگام اضافہ ہے لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ وسائل پر آبادی کا دباؤ بڑھنے سے جن مسائل کا سامنا کرنے اور صورتحال کا ایرانی مذہبی قیادت کو احساس ہمارے ہاں کے مذہبی رہنما شعوری طور پر اس سے ہزار کوس پیچھے ہیں
صرف یہی نہیں بلکہ وہ آج بھی اس متھ کی تائید میں جُتے ہوئے ہیں کہ ہر آنے والا اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔
اس متھ کا ہی کیا دھرا ہے کہ سات سے نو کروڑ افراد کے لئے دستیاب وسائل پر 25 سے 26 کروڑ آبادی پل رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ ایک روٹی تین آدمیوں کے لئے ہے۔ ضرورت سے کم وسائل اور سہولیات کے حوالے سے یہ صورتحال خطرناک ہے مگر ہمارے اہل اقتدار، سماج سدھاروں اور اہل دانش میں سے کسی کو اس کا احساس تک نہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اپنے دوراقتدار میں برملا اعتراف کرتے رہے کہ ان کے دور میں مہنگائی گزشتہ بیس برسوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
اس کے برعکس پی ڈی ایم کے سولہ ماہ، نگران حکومت کا عرصہ اور اب منتخب حکومت کے ابتدائی چند ماہ میں مہنگائی میں جس طرح اضافہ ہوا اس پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ شرح مہنگائی ہے۔
بدقسمتی ہی کہہ لیجئے کہ اس ابتر صورتحال کے ذمہ دار کم از کم رواں صدی کے اڑھائی عشروں میں برسراقتدار آنے والی تمام قیادتیں ہی ہیں۔ گو ان قیادتوں کے حامی اپنے اپنے ادوار کے اعدادوشمار سے لوگوں کو بہلانے کی بھونڈی کوشش کرتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ اگر ان اعدادوشمار کو درست مان یا جائے تو ہر نیا دن نئے عذابوں کے ساتھ کیوں طلوع ہوتا ہے؟
وفاقی ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی مجموعی سالانہ شرح 20.09فیصد ہے لیکن اگر اسی ادارہ کی گزشتہ برس بالخصوص مئی جون جولائی 2023ء کی رپورٹس اور رواں سال کے تین مہینوں میں مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی کی مجموعی سالانہ شرح 20.09فیصد نہیں بلکہ یہ 31.03فیصد ہے ۔
ادارہ شماریات کی دفتری بابو شاہی اگر دفاتر سے نکل کر گلی محلوں اور بازاروں کا دورہ کر کے شرح مہنگائی کے حوالے سے سروے کریں تو اس کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ازحد ضروری ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک وجہ بہرحال بجلی و پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ہیں لیکن دوسری وجہ وہ ٹیکسز ہیں جن کا بوجھ بھی عام صارف کی گردن پر ہے اس کی زندہ مثال بجلی کے بلوں کے ذریعے ماہانہ بنیادوں پر وصول کئے جانے والے مختلف اقسام کے ٹیکس ہیں۔ حالیہ عرصہ میں مختلف اشیاء پر عائد جنرل سیل ٹیکس کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
صارف یہ سوال کرتے دکھائی دیتا ہے کہ جنرل سیل ٹیکس خریدار پر کیوں فروخت کرنے یا یوں کہہ لیجئے متعلقہ اشیاء بنانے والوں پر کیوں نہیں یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ سرمایہ کاروں کے مختلف طبقات کے لئے تو بجٹ میں ریلیف و ریبیٹ کے لئے کھربوں روپے سالانہ رکھے جاتے ہیں مگر جنرل سیل ٹیکس دینے والے ایک عام صارف کو ریلیف اور ریبیٹ کیسے ملے گا یا یہ کہ اس کے لئے حکومت کیوں نہیں سوچتی ۔
ستم یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء دوسری ضروری چیزوں یہاں تک کہ بجلی اور پٹرولیم تک پر جنرل سیل ٹیکس ادا کرنے والے ایک عام صارف کو ایک تو اس ٹیکس کی ادائیگی کا براہ راست کوئی فائدہ نہیں اس پر ستم یہ کہ جس کا جی چاہتا ہے منہ پھاڑ کر کہتا ہے لوگ ٹیکس نہیں دیتے کیسے ٹیکس نہیں دیتے ایک عام شہری تو ماچس خریدنے پر بھی ٹیکس دیتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آمدنی اور اخراجات میں در آئے پاکستانی تاریخ کے سب سے بدتر عدم توازن کی وجہ سے جنم لینے والے مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت مقرر کی گئی کم سے کم ماہانہ اجرت دلوانے کے لئے موثر اقدامات نہیں کرپائی۔
اسی طرح سیمنٹ، بجری، ریت، اینٹوں اور دیگر تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے سے سب سے زیادہ متوسط اور سفید پوش طبقوں کے لوگ متاثر ہوئے ان کے لئے ذاتی گھر کا حصول اب بھیانک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ تعمیراتی سامان کے مہنگے ہونے سے دیہاڑی دار مزدور بھی بری طرح متاثر ہوا اس سے فی کس اوسط آمدنی میں بھی کمی ہوئی۔
اندریں حالات جس طرح کے عوام دوست اقدامات کی ضرورت ہے ان کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ معاشی ابتری، بدترین مہنگائی اور غربت سے پیدا شدہ مسائل کو سامنے رکھ کر اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ بیرونی قرضوں کی رقم کا بڑا حصہ ان مدوں میں کیوں خرچ کیا گیا جو عوام اور ملک پر بوجھ ہیں تو بعض حلقوں کی حب الوطنی تڑپ اٹھتی ہے۔
حالانکہ ان سوالوں کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دن بدن گھمبیر ہوتے مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا تو اس سے جنم لینے والا عوامی ردعمل اشرافیہ کے طبقات، اداروں اور حکمرانوں کے اٹھارہ طبق روشن کردے گا۔

pc;fairobserver
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں