ادب میں تشدد کی دو قسمیں ہیں ایک مخصوص تشدد جو ایک کردار کسی دوسری شے کے ذریعے یا خود اپنے آپ کو دیتا ہے(یہ کرب وجودی ہے اس میں اختیار کا لازمہ موجود ہوتا ہے ) دوسری قسم عام تشدد ہے جو سماجی ،معاشی معاشرتی سیاسی حوادث اور واقعات کا سبب ہوتا ہے جو جبرا یا مجبوراً کردار کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح تشدد کے ماحول میں ادب اور تخلیقات بے اثر اور فالتو ہو جاتی ہیں اگر انہی جگہ ملتی ہے تو صرف حاشیے پر۔ حاشیہ کیا ہے اور یہ حاشیے کس طرح سیاہ حاشیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس سوال کا جواب شمیم حنفی نے اس کتاب میں دیا ہے ۔ادب ادیب اور معاشرتی تشدد شمیم حنفی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے یہ کتاب 2008 میں شائع ہوئی اس کتاب میں کل 13 مضامین شامل ہیں پہلا مضمون تخلیقی متن اور تنقید کی پیشکش” ہے اس مضمون میں شمیم حنفی نے یہ وضاحت کی ہے کہ ہر زمانہ اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ادب کی تخلیق اور اس کے تجزیے کا بیڑا اٹھاتا ہے ( جس طرح ہمارے زمانے کے ادب کی پہچان بھی ہمارے زمانے نے متعین کی ہے) یعنی شمیم حنفی یہاں سماج اور متن کے تعلق اور متعلقات پر زور دیتے ہیں. اس کے علاوہ اس مضمون میں شمیم حنفی نے اپنے عہد کے المیے کا بھی ذکر کیا ہے کہ تنقیدی اصولوں ،مکاتیب اور تصورات کی اندھی دوڑ نے تخلیقی ادب کی سمت و رفتار پر طرح طرح بندش عائد کر دی ہے مزید تنقید کی گرم بازاری نے تخلیقی ادب کو پس پشت ڈال دیا ہے اور بدقسمتی سے ادب کی دنیا میں تخلیق کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی ہے ۔
دوسرا مضمون ولی اور ان کا کلام ہے اس مضمون میں شمیم حنفی نے اردو شاعری کی پوری روایت کا احاطہ کیا ہے روایت کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے سماجی اور سیاسی حالات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور تذکرے کے بعد ولی دکنی کی شاعری پر مفصل بحث کی ہے اس بحث میں ولی کا تصور عشق ،تصوف، سراپا نگاری، اظہار حسن ،جمال پرستی اور زبان کے لوازمات شامل ہیں
غالب اور غالب کی دلی” کے عنوان سے شامل مضمون میں شمیم حنفی نے غالب کی دلی سے وابستگی کا ذکر کیا ہے یہ مضمون جیوگرافکل تنقید کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک شہر کو بطور ڈسکورس سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے .
جاوید نامہ اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ ” میں اقبال کی تخلیقی کائنات ،تخلیقی عمل اور اردو شعری روایت میں اقبال کے مقام و مرتبے کا تعین کیا گیا ہے ساتھ ساتھ جاوید نامہ کا موضوعاتی و اسلوبیاتی جائزہ بھی لیا گیا ہے
ادب میں انسان دوستی کا تصور “اس مضمون میں شمیم حنفی نے ادب کی تاریخ و روایت اور ادب و سماج کے رشتے پر بحث کی ہے اس کے علاوہ اس مضمون میں ادب اور تاریخ کا رشتہ ، اور کس طرح سیاسی سماجی اور مذہبی حالات ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں کا احاطہ کیا گیا ہے
اور اخر میں منٹو کی نثر میں انسان دوستی کی شعریات کا جائزہ لیا گیا ہے
تقسیم کا ادب اور تشدد کی شعریات” میں شمیم حنفی نے دو ادبی رویوں کے حوالے سے بحث کی ہے ایک رویہ جو تقسیم کے بعد یا ہجرت کے فوراً بعد سامنے اتا ہے جو وقتی ہوتا ہے اور ایک رویہ عرصہ بعد سامنے اتا ہے جو آفاقی قدروں کا حامل ہوتا ہے مجموعی طور پر تنقیدی مضامین کا یہ مجموعہ ادب،تخلیق تقسیم ، سماج اور جبر کے تجزیات کا بیان ہے جو قاری کو ادب کے نئے زاویے سے روشناس کراتا ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں