مرمیکوفائل/ناصر خان ناصر

23 جولائی کو  ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر افتخار نسیم صاحب عرف افتی کی برسی تھی ۔ انھوں نے جہاں نثر کی کتابیں نریمان، شبری، افتی نامہ، ادبی پھکڑ اور شاعری کی کتابیں غزال، آبدوز تحریر فرما کر زیور طبع سے آراستہ کیں، وہیں انگریزی میں کہی اپنی نظموں کی ایک کتاب مرمیکوفائل بھی تحریر فرمائی ۔ اس کتاب کو شکاگو کی ایک یونیورسٹی میں بھی پڑھایا جاتا رہا ہے۔ وہ عمر بھر اردو ادب کے سمندر کی تہوں سے غزل، نظم و نثر کے درخشاں، آبدار، در نایاب اور لعل و گہر برآمد کرتے رہے تھے۔ محترم شاعرانہ ادعا اور طنطنے ٹھہکے سے ادبدا کر بے محابا اور بھرپور طنز و مزاح، چبھتی نوکیلی، چار چوٹ کی مار لیے چہل، کھڑکاتی تعریض، پھڑکاتی ہجو، پھڑکتی پھبتی، سلگتی جگت، سلگاتی لپ چھپ، گرما گرم فقرے بازی، پٹاخہ بولی ٹھولی اور تخلیقی اپچ کو مہمیز دیتا طرز نگارش استعمال کرنے کے عادی تھے۔ ان کے لطیفے، ظریفے، قہقہے، چہچہے، ولندیزی چلتے لقمے، ولایتی بان، چابکدستی سے کسے فقرے، محفلیں، رونقیں، تقریبیں، تقریریں، وضعداری، محفل آرائی آج بھی ان کے لاکھوں ہزاروں چاہنے والوں کو ازبر ہیں۔

افتی صاحب ہمارے بہت بے تکلف دوست تھے۔ وہ متعدد بار ہمارے پاس نیو اورلینز میں رونق افزا ہوئے۔ ہم بھی جب پہلی بار ان سے ملنے اپنے پیارے دوست جناب خالد خواجہ صاحب کے ہمراہ شکاگو گئے تھے تو انہی کا کلمہ پڑھتے ہوئے گھر واپس لوٹے تھے۔ پھر جب کبھی بزنس کے سلسلے میں شکاگو جانا ہوتا، ہم ان سے ملاقات کا وقت اصرار کر کے ضرور لے لیتے تھے۔

ہماری پہلی کتاب کا دیباچہ بھی افتی صاحب نے کمال مہربانی سے تحریر فرمایا۔ ہماری دوسری کتاب کا نام “آئینہ خانہ دہر” بھی انھوں ہی نے تجویز کیا تھا۔ ایک دہائ قبل جب نے نیویارک کے اردو اخبار پاکستان ایکسپریس اور لاس اینجلس کے اردو اخبار اردو لنک کے لیے ہفتہ وار کالمز لکھنے شروع کیے تو افتی صاحب نے متعدد مرتبہ ہمیں کال کر کے ہماری بے حد حوصلہ افزائی  فرمائی۔

افتی ایک نہایت محبی، وضعدار، خوش پوش، پر جوش اور مثبت نظر انسان تھے جہاں ایک طرف وہ صاحب طرز، جینوین لکھنے والوں کے دل کھول کر قدر دان تھے، وہیں نمبر دو لکھاریوں اور شاعروں کی بیخ کنی کے لیے ایک شمشیر برہنہ کی مانند تیز و تند بھی تھے۔ “طوطی چگے تو اونچ چگ، نیچ چگن مت جا”۔ نمبر دو ادبی لوگوں کی ہٹ دھرمی، دیدہ دلیری، اکڑفوں اور ہیکڑی نکالنے کے لیے ان کا قلم بنا کوئی  لگی لپٹی رکھے معرکہ آرائی اور کٹا چھنی میں مشغول رہتا تھا۔

وہ محترم ہم پر بہت نظر عنایت فرمایا کرتے تھے اور تقریبا ًہر ہفتے ہی ہم سے فون پر بات چیت کرتے رہتے تھے۔
محترم سب دوستوں کے لئے مادہ صیغہ گفتگو استعمال کرنے کے عادی تھے۔ جہاں ہم ان کو “آفت کا پرکالہ افتی” کہتے تھے، وہیں انھوں نے ہمارا نام بھی لکھنو اُردو لکھنے کی بنا پر “امراو” رکھ دیا تھا۔ اور تو اور انھوں نے ایک مشہور شاعر جو نیک صفت ریورینڈ اور پادری بھی ہیں، تک کو نہیں بخشا تھا۔ ان کا نام “گشتی” رکھ دیا تھا۔ محترمہ ریحانہ قمر صاحبہ، محترمہ ریحانہ روحی صاحبہ، محترم عدیم هاشمی صاحب ، جناب عباس تابش صاحب، امجد اسلام امجد، نوشی گیلانی صاحبہ سے لے کر پاک و ہند کا کوئی  معتبر نام ان کے تیر ظرافت سے کبھی نہ بچ سکا۔ ہر بات سنانے کے بعد ان کا پیٹ فقرہ”فیر ہور سناو! کی ہو رہیا اے” اور بڑا سا جاندار قہقہہ ابھی بھی کانوں میں گونجتا ہے تو آنکھوں میں نمی خود بخود آ جاتی ہے۔ افتی نے “ادبی پھکڑ” نامی دو نہایت مرچ مصالحوں سے مزیں دلچسپ تحریریں قلمبند کیں تو سب سے پہلے ہم سے ہی بلبل نغمہ سنج ہوئے۔ انھوں نے ہمارے مشورے پر چند مشہور ہستیوں کے بارے میں کچھ “ہتھ ہولا ” بھی کیا تھا۔
هائے! ان سے کیا کیا مزے کی دلچسپ مزے دار سنسنی خیز باتیں ہوا کرتی تھیں جو ہم بالغ سے بھی زیادہ بالغوں کے لئے ہونے کی بنا پر یہاں تحریر نہیں کر سکتے۔
وہ ایک پاکستانی شاعرہ کی بے حد شاندار پیروڈی کر کے خوب نخرے بھری اداؤں اور اداکاری سے دکھاتے تھے۔
ع
میں نے جب بھی کبھی جانے کی اجازت چاہی
اس نے بڑھ کر میرا اسباب سفر کھول دیا
یہ شعر پڑھتے ہوئے وہ شلوار کا نالا کھولنے کی خوب ایکٹنگ کرتے اور دیکھنے سننے والے لوٹ پوٹ ہو کر، ہنستے ہنستے اپنا پیٹ پکڑ لیتے۔
انھوں نے کبھی کسی ادبی شخصیت کا لحاظ کیا نہ کوئی مروت۔ نہ شرم، نہ حیا۔ سب کی حسب مراتب ایسی ایسی دهجیاں اڑائیں اور خوب جی بھر بھر کر اڑائیں کہ وباید و شاید۔۔۔ وہ نمبر دو شعرا اور شاعرات کا تیا پانچہ ایک کرنے اور ان کے بخیے ادھیڑنے کو ہمہ وقت شیر تھے۔

ہم جب بھی زندگی سے بڑی کسی شخصیت کے بارے میں سوچتے ہیں تو بے اختیار محترمہ الزبتھ ٹیلر صاحبہ اور افتی صاحب ہی کی صورت نگاہوں میں بسنے لگتی ہے۔
اپنی پیدائش کا ماجرا انھوں نے خود کیا خوب کہہ چھوڑا ہے۔ اب اس پر مزید حاشیے کیا چڑھانے؟
جب درد زہ سہتی ہوئی  کالی رات نے اپنی سیاہ زلفیں بکھرا کر کڑوے لڈو کے تھال بانٹے تھے اور اپنے سوگ رنگے دوپٹے ہواؤں میں بکھیر کر ماتم کیے تھے۔ جب دھوپ آندھیوں میں اندھیرے کے سیاہ گھپ دئیے جلانے اور اداسیوں کے گھنیرے لمبے سائے پہن کر ماتمی رقص ناچنے لگ پڑی تھی۔

ان کی ناگہانی وفات حسرت آیات کا قصہ ہمارے دل کے نہال خانوں میں ان کی امانت بنا ایک عرصے سے دفن ہے۔ ہم جب بھی اس بابت سوچیں تو فوراً  آنکھ بھر آتی ہے۔
عرصے سے ٹھان رکھا تھا کہ کسی دن ہمت کر کے اسے لکھ بھی ڈالیں گے۔ آج آدھی رات کو آنکھ کھل گئ اور پھر بیٹھے بٹھائے اچانک ہم میں وہ ہمت پیدا ہو گئ کہ ہم اسے تحریر کر رہے ہیں۔
سب کو ہمہ وقت ہنسانے والے، بظاہر بہت خوش و خرم دکھنے والے ہنسوڑ افتی خود اپنے اندر سے کتنے دکھی انسان تھے؟

اپنی شگفتہ مزاجی، بلا جھجک فقرہ بازی، بے ساختہ برجستہ گوئی کے باوجود اندر سے زخمی اور دل شکستہ تھے۔ اگرچہ اپنی چین جبیں سے غم پنہاں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، ہمہ وقت خوش مزاجی، مسرت و انسباط کا ملمع چڑھائے رکھتے۔ جگ ہنسوڑ ماسک ان پر پھبتا بھی تھا۔ خزاں کے باوجود بوئے یاسمن اور خو بو باقی تھی۔
ان کے دل کا خلا کتنا بھیانک اور بڑا تھا؟
ان کی مینا کماری جیسی کثرت کی شراب نوشی کا اصل راز کیا تھا؟
شاید وہی ازلی پیاس، جنسی غیر آسودگی، ابدی تنہائی اور دل کی گہرائیوں سے چاہے جانے کی حسرت۔۔۔
سچی محبت جو اس نامراد دنیا میں حد سے زیادہ حساس لوگوں کو کبھی نہیں ملتی اور کہیں نہیں ملتی۔
وہ مرد کے جسم میں قید ایک عورت کی ایک ایسی بے چین روح تھے جسے زندگی میں ایک پل کہیں قرار تھا نہ چین، سکھ نہ سکوں۔
ان کے انمٹ دکھوں کا اصل سبب کیا تھا؟
یہ سب کچھ ہم ہی جانتے ہیں یا خدا۔

کئی بار وہ اپنی زندگی کی داستان ہمیں ٹکڑوں میں سناتے ہوئے اتنی سسکیاں سبکیاں لینے لگتے تھے کہ سن کر ہمارا دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جایا کرتا تھا۔
افتی موت مبارک ہو۔ بل آخر تمھاری آبدوز میں بند بھٹکتی روح کو چین اور سکون تو مل گیا۔
تمھاری پیدائش پہ کڑوے لڈو بانٹنے والی رات اب بیوہ عورتوں کی طرح بین کرتی ہے تو شاید تم آسمانوں پر دور کھڑے ہو کر ضرور مسکراتے ہو گے؟
کیا صبح کی آنکھ سے ٹپکتے شبنم کے قطرے تمہارا ہی سندیسہ تو نہیں؟
نہیں!
صبح کی پہلی کرن کی جگمگاہٹ بھری مسکراہٹ اور کسی انجان پرندے کا مسرت انگیز چہچہانا ہی شاید اب تمہارا پیغام ہو سکتا ہے۔
افتی کے بارے میں لکھتے ہوئے ذہن میں عجب کھد بد ہو رہی ہے: “چاکر کے آگے کوکر، کوکر کے آگے پیش خدمت” کہہ کر ٹال جاوں یا “جیسی دائ آپ چھنال، ویسی جانے سب سنسار” کے مصداق سارا قصہ کہہ چھوڑوں؟

افتی صاحب کھلم کھلا ہم جنس پسند، امرد پرست تھے اور یہ کوئی  ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ محترم کھلے بندوں اس بات کا اظہار نہایت آزادی سے فرماتے تھے۔ وہ لاس اینجلس، نیو یارک سمیت بہت سے شہروں کے بڑے بڑے عالمی مشاعروں میں سونے کے بنے ہوئے دلہن جیسے زیور مثلاً  نتھ، ٹیکا، جھومر، چھپکے بمع چوڑیاں و کنگن ٹھنکائے، سرخ لباس سجائے، ٹھمکتے اتراتے، زنانے ناز و نخرے دکھاتے چلے جاتے تھے کہ “اتڑی میں روپ اور بگچی میں چھب” کا محاورہ زندہ جاوید ہو جاتا تھا۔

ایک بار ہم نے کریدا تو فرمایا کہ یہ سارے زیورات میری والدہ محترمہ نے مجھے اپنی ہونے والی بہو کے لیے دیے تھے۔

وہ بلا کے شاعر اور غضب کے عمدہ نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت بذلہ سنج، حاضر جواب، منہ پھٹ بھی تھے۔ ایسی ایسی پھبتیاں اور قسم قسم کے فقرے کسنے کے ماہر، رقم رقم کی گفتگو کے چغے بدلنے کے شوقین تھے کہ اپنے مخالف کی فورا ً  بولتی بند کر دیں۔ بہ فضل خدا پوتھیاں ان کے بہ نوک زباں تھیں۔ فیصل آبادی تو یوں بھی سخت فقرہ باز مشہور ہیں مگر افتی سچ مچ قیامت کے بذلہ سنج تھے۔ بھلے جان چلی جائے مگر کسا ہوا فقرہ نہ جائے ان کا ماٹو تھا۔ ان کی عجب ہئیت کذائی  کی بنا پر مشاعروں میں انھیں منہ پر تو کوئی کچھ نہیں کہتا تھا مگر پیٹھ پیچھے لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے، جس کی افتی صاحب کو ہرگز کوئی  پروا ہ نہیں تھی کہ “یا سوئے جوگی ابدھوت یا سووے راجہ کا پوت”
وہ ایسے لوگوں اور ان کی باتوں کو جوتی کی نوک پر رکھنے کے قائل تھے۔

افتی جنسی آزادی و گے موومنٹ کی ایک تنظیم “سنگت” کے بہت بڑے علمبردار اور بے حد ایکٹو ممبر تھے۔
شہر بھر کے گے لوگ خصوصا گے پاکستانیوں کا ان کے دولت کدے پر مجمع رہتا۔ ان کے یہاں مفت خور الفتے ڈھیر رہتے، مطلب کے یار، مقصد کے دوست سر رہتے۔ ایک عالم مہمان بنا ہے، لوگوں کی آر جار جاری ہے۔ شہر کے سارے نکھٹو نکمے یہیں ڈھئ دئے ہیں اور تینوں وقت مفت کی توڑتے ہیں۔ ہمہ وقت پینا پلانا، چرندم خرندم ہوتی ہے۔ بہتا پانی، رمتے جوگی، راہ چلتے ٹھگ سب یہیں مرتے ہیں کیونکہ افتی یاروں کا یار اور پیاروں کا پیار ہے۔
وہ انہی لوگوں سے اپنی زندگی کی خوشیاں کشید کرتے تھے۔ انہی کی بابت لکھتے تھے۔ اپنی جاندار تحریروں میں انھوں نے ایل جی بی ٹی لوگوں کی زندگیوں کے احوال اس خوبی سے رقم کیے ہیں کہ اردو لٹریچر میں اس قسم کی مثالیں کم کم ہی ملتی ہیں۔
ان کا اسم شریف شکاگو کے ایل جی بی ٹی ہال آف فیم میں بھی لکھا ہوا ہے۔
کہتے ہیں کہ”کرتے کی سب بدھیا ہے”۔

شکاگو میں ان کا دولت کدہ لیک مشی گن کے کنارے پوش علاقے میں ایک بلند و بالا بلڈنگ میں غالبا چالیسویں منزل پر تھا۔ جس کی کھڑکیاں اور بالکنیاں شکاگو کی بہت بڑی لیک مشی گن پر کھلتی تھیں اور جہاں سے تقریبا پورے شکاگو کا دلفریب نظارہ نظر آتا تھا۔ جھکے جھکے بادل امڈ کر نیچے اترتے، ان کی قدم بوسی کے لیے کھلے ہوئے دریچوں سے ان کے کمروں میں در آتے تھے تو بہت سہانے خوابناک منظر پیش کرتے تھے۔ افتی نے اپنا گھر نہایت ٹیسٹ فل آرٹسٹک طریقے سے سجا رکھا تھا۔ ان کے گھر میں نایاب اردو کتابوں کی اچھی خاصی بڑی لائبریری موجود تھی۔ افتی خود بھی تو ایک چلتی پھرتی لائبریری اور انسائیکلوپیڈیا ہی تھے۔ انٹرنیٹ اور گوگل سے قبل ان ایسے ہوشمند، ذہین اور قابل رشک یاداشت کے مالک افراد بے حد غنیمت ہوا کرتے تھے، جن سے کسی بھی وقت کسی بھی ٹاپک پر گل فشانی و محاذ آرائی کی جا سکتی تھی۔
اپنے ہاں مہمان بننے والے ہر شخص کو گے کلبوں میں اپنے ساتھ لے کر جانا افتی کے لیے اک ناگہانی رسم تھی۔
“پورب یا پچھم، گھر سب سے اتم”۔ نوشاد صاحب، شبانہ آعظمی صاحبہ اور ان کے شوہر نامدار جاوید اختر صاحب، منو بھائی سمیت ہند و پاک کے لاتعداد نامور لوگ ان کے خوبصورت دولت کدے پر مہمان بن چکے تھے اور اس خدمت و رسم سے مبرا نہیں ہوئے تھے۔

ہم ان سے ملنے شکاگو گئے اور ان کے دولت کدے پر ان کے مہمان ہوئے تو وہ ہمیں بھی کشاں کشاں شہر کے لاتعداد گے کلبوں میں اپنے ہمراہ گھسیٹ کر لے گئے اور اپنے سب دوستوں سے بہ اصرار ملوایا۔ اپنے ایک محترم دوست کو وہ ماں کے مقدس لقب سے یاد فرماتے تھے۔ یہ لحیم شحیم لمبی چوڑی داڑھی مونچھوں والی ماں ان پر سچ مچ ماوں ہی کی طرح صدقے فدا اور قربان ہو رہی تھی۔ انھوں نے گے بچوں کے لیے ایک تنظیم رین بو الائنس بھی بنا رکھی تھی جس کے تحت وہ گھر سے بھاگے ہوئے اور کلازٹ میں چھپے رہتے ہم جنس پرست بچوں کو معاشی، اخلاقی، قانونی اور سماجی سپورٹ اور تحفظ فراہم کرتے تھے۔ انھیں سٹی آف شکاگو سے ان کی انہی خدمات کی بدولت کافی اعزازات اور سرٹیفکیٹ حاصل ہو چکے تھے اور آنریری ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی عطا کی گئ تھی۔ افتی صاحب کے ہاں “سنگت” سمیت کئ سوشل آرگنائزیشنز کی ہفتہ وار اور مہینہ وار میٹنگز بھی ہوا کرتی تھیں اور پاک و ہند سے تشریف فرما شاعروں، ادیبوں، اداکاروں، موسیقاروں، فنکاروں اور ارٹسٹوں کا تانتا بھی بندھا رہتا تھا۔ خیر “اس سے کیا حاصل کہ شیر شاہ کی داڑھی بڑی یا سلیم کی؟”
انھوں نے اپنا جیون ساتھی اپنے ایک ہندو دوست “پریم” کو چن رکھا تھا۔ دیکھنے میں یہ ڈومیسٹک پارٹنرز جوڑا بے حد عجیب و غریب اور مضحکہ خیز دکھائی دیتا تھا۔ افتی صاحب لمبے چوڑے، بھاری بھرکم، لحیم شحیم، دیوزاد انسان تھے، سانولے رنگ میں قدرے کلونچ کی آمیزش۔

پریم صاحب اتنے ہی ننھے منے، منحنی، دبلے پتلے چھریرے، چھوٹے قد اور صاف رنگت کے نیک دل محبی آدمی تھے۔ افتی صاحب پریم صاحب کو my husband کہہ کر ان کا تعارف کروایا کرتے تھے۔ وہ ان کے لیے خود مزےدار کھانے بھی پکاتے اور دبے منہ یہ شکایت بھی کرتے رہتے :
“ویکھو تاں سہی، ایتھے ہن کنجری نوں ریندھنا پے گیا اے”

انھوں نے ایک عرصے سے پریم صاحب کے ساتھ اپنا گھر اپنی پریم نگری بسا رکھی تھی۔ پریم صاحب غالبا ٹیکسی چلایا کرتے تھے۔ اور افتی صاحب کے لیے اپنا گھر بار اور بیوی بچے چھوڑ کر آ گئے تھے۔ افتی صاحب مرسیڈیز سمیت مہنگی گاڑیوں کی کسی ایجنسی میں سینئر سیلز مین ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب پراپرٹی ڈیلر بھی تھے۔ پریم صاحب سے انھوں نے وعدہ کر رکھا تھا کہ ان کے بعد ان کا گھر انھیں مل جائے گا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

ان کی وفات کے بعد ان کا گھر ان کی چھوٹی بہن کو مل گیا تھا اور پریم صاحب کو اس گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ افتی صاحب کی اپنی فیملی سے ہمیشہ ان بن ہی رہا کرتی تھی کیونکہ فیملی والوں نے ان کی جنسی ترجیح کو کبھی بہ نظر آحسن نہیں دیکھا تھا اور ان کی اس شخصی انفرادیت کو تسلیم کرنے سے سدا انکاری رہے تھے۔ “کرم ریکھ نہ مٹے، کرو کوئی لاکھوں چترائی ”
افتی خود سے کیے گئے ساری دنیا، معاشرے اور خصوصاً اپنے خاندان کے ناروا سلوک کی بنا پر ہمیشہ بہت دکھی اور اداس رہتے تھے۔ ان کی تنہائیوں کی ساتھی ان کی ایک پالتو بلی بھی تھی۔ کھوکھلی ہنسی، مصنوعی خوشی “ماتھے چاند، ٹھوڑی تارہ” بنے رہتے تھے۔

پہلے امریکہ میں ہم جنس پرست لوگوں کے مخالف سخت تعصب بھرے قوانین نافذ ہوا کرتے تھے۔ ہومو سیکچول اور لزبین لوگوں کو یہاں سخت نفرت اور عبرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہاں گے یا سٹریٹ ڈومیسٹک پارٹنرز کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا مگر پچھلی چند دہائیوں سے ایسے تمام قوانین کو مکمل طور پر بدلا جا چکا ہے۔ افتی صاحب کی ساری لائبریری ان کی بڑی ہمشیرہ صاحبہ کو مل گئی  تھی جسے ان محترمہ نے شکاگو میں اپنی کتابوں کی دوکان میں رکھ کر فروخت کر دیا تھا۔ ہم نے افتی صاحب کو اپنے دستخط سمیت بھجوائ اپنی کتاب “آئینہ ذرا دیکھ” اس شاپ سے خرید کر واپس لے لی تھی۔
دل کے سارے پھپھولے پھوڑنے کا یہ موقع  اب ملا ہے تو لگے ہاتھوں ان کی وفات حسرت آیات کا واقعہ بھی لکھ دیا جائے تاکہ سند رہے۔
ہوا یوں کہ ہمیں افتی صاحب کے سخت بیمار ہونے اور بستر مرگ پر ہونے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ شومئی قسمت سے 22 جولائی 2011 کو جب دل کا دورہ پڑنے کے سبب دو دن کومے میں رہنے کے بعد ان کی رحلت ہوئی تو ہم اس دن شکاگو میں ہی موجود تھے مگر وقت کی کمی اور دیگر مجبوریوں کے باعث نہ تو ان کا آخری دیدار کر پائے اور نہ ہی ان کے جنازے میں شریک ہو سکے۔
ہوا یوں کہ ہم اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پاکستان جانے کے لیے اپنے شہر نیو اورلینز سے رخت سفر باندھ کر چلے تھے اور بطور ٹرانزٹ شکاگو میں مختصر وقت کے لیے ٹہرے تھے۔ یہ سفر بچی کی ہائی  اسکول گریجویشن پر ان کے لیے ہمارا تحفہ تھا۔ ہماری بیگم صاحبہ ہم سے ایک ہفتہ قبل پاکستان تشریف لے جا چکی تھیں۔ ہم نے اپنی بزنس مصروفیات کی بدولت ایک ہفتہ بعد پاکستان جانے کا پروگرام طے کیا تھا۔ نیو اورلینز سے وایا شکاگو، وہاں سے کراچی اور پھر بہاولپور جانے کا قصد تھا۔ شکاگو میں آدھا دن رک کر افتی صاحب سے ملاقات کا بھی ہمارا پروگرام تھا۔ شکاگو میں اپنے ہوٹل پہنچ کر ہم نے افتی صاحب کو اپنی آمد کی بابت مطلع فرمانے کے لیے فون کیا تو جواب ندارد۔۔۔
پریم صاحب کو فون کیا تو ان کا فون نمبر کٹ چکا تھا۔

ہم نے پریشان ہو کر افتی صاحب کی فیملی کو کال کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو کئی  دن سے اسپتال میں ہیں اور اب کومے کی حالت میں بستر مرگ پر ہیں۔
یہ سن کر تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

ہم نے ان کے بہنوئی صاحب سے التجا کی کہ ہمیں ان کے پاس لے چلیں مگر وہ محترم بے حد مصروف تھے۔ ہم نے اپنے ہوٹل سے چیک آوٹ کیا، اپنے پاکستان کے سفر کے لیے تیار بھاری بھرکم دو سوٹ کیس سنبھالے، اپنے دو سوٹ کیس خود گھسیٹی اپنی بچی کو ہمراہ لیا اور ٹرینیں بدل بدل کر اسپتال جانے کی سعی کی۔
دل کو عجب ہول اٹھ رہے تھے۔ پریشانی کی بدولت سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔
ہم شکاگو سب وے سسٹم سے مکمل نابلد تھے اور لوگوں سے پوچھتے پوچھتے دو ٹرینیں بدل کر اسپتال کے اسٹیشن کے قریب پہنچے ہی والے تھے۔۔۔
“مگر زندگی تم بھی تو رکو! ”
وہیں ٹرین ہی میں افتی صاحب کے کچھ دوستوں سے سناونی ملی کہ افتی صاحب تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ دل کو سخت دھچکا لگا۔ ہاتھ پیر سن ہو کر رہ گئے۔
دو تین گھنٹے میں ہمارا جہاز پاکستان کے لیے اڑنے والا تھا۔
ماتم کرنے یا رونے کا کوئی  مقام نہ تھا۔
ہمیں فوری فیصلہ کرنا تھا کہ اپنا پاکستان کا سفر کینسل کریں اور افتی کے جنازے میں جائیں یا اپنا سفر جاری رکھیں؟
پہلے قصد کیا کہ ہم افتی کی روح سے ہرگز ہرگز شرمندہ نہیں ہو سکتے۔ سفر کینسل کرنا ہی مناسب ہو گا مگر پھر اپنے رخت سفر بھاری سوٹ کیسوں اور اپنے ہمراہ جوان جہان بیٹی پر نظر پڑی تو سوچا کہ ان کا کیا کریں گے؟
ہم تو جنازے میں شمولیت کر لیں گے مگر یہ کہاں جائیں گے؟
ذہن میں افتی کے لکھے ایک افسانے اور اسی سے ملتی جلتی میرل اسٹریپ کی ایک فلم Sophie’s choice کے وہ سین تیزی سے گھومنے لگے جب ہٹلر کے نازی سپاہی ایک ماں کو اپنے بیٹے یا بیٹی میں سے کسی ایک کی زندگی بچانے کا اختیار ودیعت کرتے ہیں اور وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی۔
پھر غیر جذباتی ہو کر اک گھڑی سنجیدگی سے سوچا:
“بجا نقارہ کوچ کا اکھڑن لاگی میخ، چلنے ہارے تو چل بسے، کھڑا ہوا تو دیکھ”
ہم نے اگلے اسٹیشن پر اتر کر ائیر پورٹ واپس جانے کے لیے ٹیکسی پکڑ لی۔

julia rana solicitors london

افتی کے آخری دیدار کی خونچگاں حسرت دل میں لیے ہوئے ہم جب جہاز میں بیٹھے تو ہماری آنکھیں لہو سے اور چہرہ پسینے سے تر تھا۔
شکاگو کی فضا میں بلند ہو کر ڈبڈباتی آنکھوں سے ہم نے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے بادلوں کے جھرمٹ سے چھن کر نظر آتے ہوئے شہر کو بہ حسرت دیکھا، اپنے پیارے دوست کے لیے فاتحہ کے لیے اپنے لرزتے ہاتھ اٹھائے اور مغفرت کی دعاؤں کے لیے رب کے حضور اپنی خالی جھولی پھیلا دی۔ یہ شرمندگی اور پشیمانی اب ایک ایسی کالک ہے جس کو اپنے چہرے پر لپا پتہ ہم خود ہمہ وقت دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply