سات اکتوبر 2023ء سے جاری غزہ جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوسکی۔ چالیس ہزار فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود بھی جنگ دسویں ماہ میں جاری ہے۔ جون میں اسرائیل نے تل ابیب میں ہونے والے ڈرون حملے کی ذمہ داری یمن کے عسکری گروپ انصار اللہ الحوثی پر عائد کرتے ہوئے یمن کی بندرگاہ الحدیدہ کو فضائی حملے کرکے نشانہ بنایا۔ جس سے یمن کو 20 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔
26 جولائی کو اسرائیل کے زیر قبضہ شامی علاقے گولان ہائٹس میں ایک گمنام اور پُراسرار میزائل حملے میں ایک فٹ بال گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے 12بچوں کی موت واقع ہوئی ۔ جس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنا دورہ امریکہ مختصر کرکے اسرائیل پہنچ گئے۔ اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ پر عائد کردی ہے۔ یمن کے حوثی گروپ کے برعکس حزب اللہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور اسرائیلی الزام کو مسترد کردیا ہے۔ تاہم اسرائیل کی منی کیبنٹ نے لبنان پر محدود حملے کے آپشن کو زیر بحث لایا ہے۔
لبنان پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے ساتھ عراق،شام اور یمن میں سرگرم عسکری تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جس پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب میڈیا کے متعدد اداروں اور تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کردیاہے کہ حالیہ لڑائی کا پھیلتا ہوا دائرہ امریکی منصوبے جدید مشرق وسطی کی جانب بڑھ رہاہے۔
جدید مشرق وسطی کیا ہے۔؟
1953ء میں پہلے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے عرب وطن کو ٹکڑے کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا ۔یہ منصوبہ جدید مشرق وسطی کے نام سے تھا۔ اس منصوبے کا ترجمہ 1972ء میں عراقی محقق عبدالوہاب جبوری نے عبرانی سے عربی میں منتقل کیا۔
اس منصوبے میں پانچ بڑے عرب ممالک، سعودی عرب، لیبیا،عراق،شام اور یمن کو 14 ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس نقشے میں عراق کو شمال ،وسط اور جنوب کے تین ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جو بالترتیب کردوں، سنیوں اور شیعہ شناخت پر مشتمل تھا۔ سعودی عرب کو پانچ ،لیبیا کو تین اور یمن سوڈان کو دو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تھا۔
عالمی میڈیا میں اس شرانگیز منصوبے کے بارے بہت کچھ شائع ہوا۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں۔ متعدد اسٹڈیز سینٹرز سے اس پر کتابچے اور مقالے لکھے گئے۔
درمیان میں اس منصوبے کو عالمی میڈیا سے بلیک آؤٹ کیا گیا۔ 2003ء میں عراق جنگ سے خطے میں شروع ہونے والے حالات سے دوبارہ یہ منصوبہ زیر بحث آیا ۔ عرب خطے میں امریکی اتحادی ممالک کے میڈیا نے اس منصوبے کو پروپیگنڈا قراردے کر دبانے کی کوشش کی۔
مارچ 2011ء سے شمالی افریقہ کے ملک تیونس سےحکمران زین العابدین ابن علی کے خلاف یاسمین انقلاب کے نام سے عوامی بغاوتی تحریک اٹھی ۔جو ہمسایہ ملک لیبیا منتقل ہوگئی ۔جہاں اسے عرب اسپرنگ کا نام دے دیا گیا۔ یہ عرب اسپرنگ لیبیا سے مصر، یمن، شام اور سوڈان منتقل ہوگئی۔ غربت، اقتصادی تنگی اور بے روزگاری کے ساتھ پابندیوں سے تنگ عرب عوام نے اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوتی تحریکیں چلائیں۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا ۔
اکتوبر 2014ء میں برطانوی ادارے ایچ ایس بی ایس نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا کہ عرب اسپرنگ نے چار برس کے دوران 7 عرب ملکوں کو 800 ارب ڈالر کا نقصان دیا۔ عرب اسپرنگ کے سبب مصر میں دوسال میں دو صدور کو برطرف کیا۔ لیبیا کے سربراہ معمر القذافی کا تختہ الٹ کر انہیں قتل کردیا گیا۔ عرب اسٹریٹجک فورم دبئی نے دسمبر 2015ء میں اپنی رپورٹ میں کہاکہ عرب اسپرنگ کے چار برس کے دوران جنگوں اور مسلح کشیدگیوں میں 1.34ملین انسان قتل اور زخمی ہوئے۔
عرب اسپرنگ کے نتیجے میں 14.389 ملین انسان بے گھر ہوکر نقل مکانی پرمجبور ہوگئے۔
عرب اسپرنگ کا سب سے بڑا حامی اور نشریاتی معاون سمجھے جانے والے میڈیا ادارے الجزیرہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ عرب اسپرنگ تباہی کے سوا کچھ نہیں لائی۔ نومبر 2018ء میں الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ لیبیا میں چار برس کے دوران عرب اسپرنگ کے دوران 58ہزار انسان مارے گئے۔ شام میں4 لاکھ 70 ہزار اوریمن میں 58 ہزار انسان مارے گئے جبکہ کئی ملین انسان بے گھر ہوگئے ۔
اس وقت مشرق وسطی میں دو بڑی لڑائیاں جاری ہیں۔ جس میں پہلے نمبر پر سوڈان میں سرکاری آرمی اور ریپیڈ فورسز کے درمیان جاری خانہ جنگی ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر غزہ پر اسرائیلی جارحیت ہے۔ 15 اپریل 2023ء کو شروع ہونے والی سوڈانی خانہ جنگی کوئی نسلی، یا فرقہ وارانہ لڑائی نہیں ہے ۔اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین نے رواں برس اپریل میں بتایا کہ سوڈانی خانہ جنگی دنیا کے پیچیدہ ترین اور خطرناک مسائل میں سے ایک ہے۔ اب تک 85 لاکھ سوڈانی نقل مکانی کرگئے ہیں۔ جن میں 18 لاکھ لوگ سوڈان چھوڑ کر باہر نکلے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق سوڈان کے 19 ملین بچے تعلیم سے محرومی کا شکار ہیں۔
سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کا دائرہ سکڑنے کے بجائے گزرتے وقت کے ساتھ مزید وسیع ہورہاہے۔ یمن،شام اور لبنان میں اسرائیلی حملوں سے ہونے والی تباہی اور وہاں پیدا ہونے والی صورتحال سے ایک بار پھر مشرق وسطی کے متعلق اس دیرینہ اسرائیلی اور امریکی منصوبہ تازہ ہوگیا ہے۔ اور ان دنوں عرب اور عبرانی میڈیا میں زیر بحث ہے۔
جدید مشرق وسطی میں اسلامی اور عربی تہذیب کو نشانہ بنانے اور ان ممالک میں امن وامان کی صورتحال کو سبوتاژ کرنا اولین ہدف ہے۔
عرب خطے کے امور پر نظر رکھنے والے متعدد ماہرین نے کہاہے کہ مشرق وسطی میں جاری حالیہ واقعات تیسری جنگ عظیم کا حصہ ہے۔ امریکی وژن کے مطابق تیسری جنگ عظیم سوویت یونین کے سقوط پر شروع ہوئی تھی اور مشرق وسطی کے عرب ممالک کے سقوط اور ٹکڑوں میں تقسیم کے منصوبے پر اختتام کو پہنچے گی۔
یہ وہی منصوبہ ہے جس کو بن گوریان نے جدید مشرق وسطی کا نام دیا تھا۔ سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس، سابق امریکی صدر جارج بش، شمعون پیریز اور دیگر متعدد اسرائیلی اور عالمی صہیونی تحریک سے وابستہ ماہرین اور ذمہ دار پیش کرچکے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے خطرناک تحریر سابق امریکی جنرل رالف پیٹرز کی ہے۔ جون 2006ء میں امریکی افواج کے میگزین آرمڈ فورسز جنرل نے” بلڈ بارڈرز “کے عنوان سے یک آرٹیکل شائع کیا۔ جو آرٹیکل نہیں بلکہ اصل میں ایک مضبوط عسکری اسٹرٹیجک اسٹڈی تھی۔ 1952 میں پیدا ہونے والے رالف پیٹرز، امریکی فوج میں بطور افسر کام کرتے رہے ۔ اور ترقی کرتے ہوئے محکمہ دفاع میں امریکی ملٹری انٹیلی جنس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے عہدے تک پہنچے تھے۔ رالف نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ مشرق وسطی کا نیا منصوبہ بہت صورت تکمیل کو پہنچے گا۔ یہ منصوبہ مکمل طور پر نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر مشتمل ہوگا۔ جس کے باعث اس کی تکمیل میں لاکھوں انسانوں کا خون بہے گا ۔ اسی وجہ سے اس منصوبے کو خونی سرحدوں کا نام دیا گیا ہے۔ رالف کے اسٹرٹیجی میں کہا گیا ہے کہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی سرحدیں “دنیا کی سب سے زیادہ من مانی والی، مسخ شدہ اور غیر منصفانہ بین الاقوامی سرحدیں ہیں۔
عراقی ماہرین کا ماننا ہے کہ عراق کے تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ شروع ہوگیا ہے اوراس حوالے سے سات اکتوبر کے عد کچھ خاص پیش قدمی ہوئی ہے۔ جبکہ لبنان، شام اور یمن سے غزہ تک کی تازہ صورتحال مشرق وسطی کے حوالے سے بیرونی قوتوں کے عزائم کی سنجیدگی کی جانب اشارہ کررہی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں