اقوال/اقتدار جاوید

افتخار جالب نے تحریر میں جس لسانی تشکیل کا ڈول ڈالا تھا احمد جاوید نے وہی کام تقریر میں جاری کیا۔
موسیقی روح کی غذا اور نصیبو لال کسی بدروح کی غذا ہے۔منٹو کا معاشرہ صرف اس کے افسانوں میں قائم ہوتا ہے۔منٹو کشمیری تھا کشمیری دور سے پہچانا جاتا ہے۔خواہ وہ غنی کاشمیری، آغا حشر کاشمیری، ظہیر کاشمیری، شورش کاشمیری ہو مگر ان میں الیاس کاشمیری بھی تو ہوتے ہیں۔منٹو جتنا شکل و صورت سے نازک تھا افسانے میں اتنا ہی کرخت اور سخت تھا۔تعلیم کا افسانے سے کوئی تعلق نہیں بے شک منٹو کی تعلیم دیکھ لیں اور آج کے افسانہ نگار دیکھ لیں۔
جدید نظم اتنی مشکل بھی نہیں ہوتی جتنی لگتی ہے اور جتنی لگتی ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ثروت حسین نے کہا تھا نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے ضرور اس نے نثری نظم کے بارے میں کہا ہو گا۔آزاد نظم پہلے تو شروع ہی نہیں ہوتی اور شروع ہو جائے تو پتہ ہی نہیں چلتا یہ کہاں ختم ہو۔نظم نگاروں کا بھی کچھ نہ پوچھیں میرا جی کی نظم کلرک کا نغمہ محبت کو اقبال کی نظموں سے بہتر سمجھتے ہیں۔غزل گو خوش نصیب ہیں وہ ایسے کسی بکھیڑے میں پڑتے ہی نہیں۔وہ خود کو ان سے آگے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ یادش بخیر ترقی پسند مرحومیں کو میرا جی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کے لیے ایسے مضامین کی راہ کھولی۔
منٹو بہت چالاک آدمی تھا گنجا کہا بھی تو فرشتوں کو۔کسی انسان کو کہہ کے دکھاتا تو اسے مانتے۔ادیب برادری کسی ادیب سے راضی نہیں رہتی۔ حمید رازی وہ ادیب ہے جس سے ادیب اور غیر ادیب سب راضی ہیں۔کہتے ہیں آپ ہر کسی کو راضی نہیں رکھ سکتے جس نے کہا ہے وہ حمید رازی سے ملا نہیں ہو گا۔ گلزار نے اصل میں ہستی کو گلزار کیا ہوا ہے۔ہوتے جو فلمی دنیا میں ہیں۔جاوید اختر ملحد ہو گیا چلو ملحدوں کو بھی ایک گیت نگار مل گیا۔سسر کے سامنے اس کی شاعری تو چلنی نہیں تھی گیت نگاری خوب چل نکلی۔عورت کو شاعروں سے دور رہنا چاہیے اور عطیہ فیضی کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔اب عطیہ کی شہرت کا سبب صرف شبلی اور اقبال کے خطوط ہیں۔اور عطیہ کی وجہ شہرت یہی رہ گئی ہے۔ اگر کوئی شاعر کسی شاعرہ کو عشقیہ خطوط لکھے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خطوط اس کی شہرت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ شاعر اور غیر شاعر میں فرق جان کر جیو ویسے ادبی جریدوں میں بھی فرق جان کر جیو۔ سو شعرا اور ادبا کو بعض جرائد سے کوسوں دور رہنے کا مشورہ ہے۔جو ادیب ہر پرچے میں شائع ہوتے ہیں اصل میں یہی شعرا کسی جریدے کی ساکھ بننے نہیں دیتے۔جریدے کی ساکھ شعر سے بنتی ہے شاعر سے نہیں۔
ادبی جریدہ صحرا میں اذان سہی مگر مقتدیوں کی وہاں بھی کمی نہیں رہتی۔مسجد میں نمازی کم ہونا ممکن ہے رسالے میں شعرا کم ہوں ناممکن ہے۔ کتابی چہروں کو پتہ ہی نہیں کہ کتاب کی دنیا ان سے ہی آباد ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے آج کل اردو کی کتاب بکتی ہی نہیں ہے اگر کتاب نہ بکتی ہوتی تو کتابوں کا اردو بازار اتنا آباد کیسے رہتا۔انار کلی شعر کی طرح اپنے سادہ حسن کی وجہ سے آباد ہے اور اردو بازار معنی کی طرح پیچیدہ گلیوں سے۔
کلی کھل کر پھول بنتی ہے اور گلی کِھل کر بازار بنتی ہے۔
شاعر کو ہاتھ کی صفائی درکار نہیں ہوتی اس کی کاتب کی ضرورت ہوتی ہے۔
شاعر شعر میں جس مساوات کا رونا روتے ہیں اس کا مطلب وہ شاید یہ لیتے ہیں سب انسان برابر ہیں انسان تو برابر ہو سکتے ہیں مگر خود شاعر برابر نہیں ہو سکتے۔ہر کوئی خود کو دوسرے سے بڑا سمجھتا ہے۔یہ کیسی مساوات ہوئی۔ ایک مصرع دوسرے مصرع کے برابر نہ ہو تو عروضی جان کے درپئے ہو جاتے ہیں۔ عروض کا منطقی تعلق عرض سے بنتا ہے مگر یہ حکم ہی جاری کرتے پائے جاتے ہیں۔الو مشرق میں بیوقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے اسی لیے الو کا پٹھا کی ترکیب ایجاد ہوئی اس کا مطلب ہوا اگر الو نہ ہوتے تو الو کے پٹھے بھی نہ ہوتے۔ سو الووں کا خاتمہ اول ترجیح ہونی چاہیے۔
اقبال کی ساری کتابیں ہی لاجواب اور لازوال ہیں مگر ہماری پسندیدہ کتاب جاوید نامہ ہے۔اس کتاب کے مکمل ہونے کے بعد آپ نے کہا تھا کہ جاوید نامہ نے مجھے تخلیقی لحاظ سے خشک کر دیا ہے۔جو تھوڑی بہت تری رہ گئی تھی وہ جاوید اقبال نے ختم کر دی تھی بیشک جاوید اقبال کی خود نوشت پڑھ لیں۔جاوید اقبال ساری عمر برگد کی چھاؤں کا مزا بھی لیتے رہے اور اپنا قد اونچا نہ ہونے کا سبب باپ کو سمجھتے رہے۔
اقبال خانقاہی نظام کے خلاف تھے خانقاہ کے نہیں۔ہم نے اقبال کا وہ کمرہ دیکھا جہاں وہ دوران ِتعلیم مقیم رہے زمانہ بدلا اور اسی کمرے میں مولانا طارق جمیل بھی قیام پذیر رہے۔
جاوید اقبال جب رات کو بانگ ِدرا کھولتے تو اسے بانگ ِعشا تک ہی پڑھ پاتے۔ بعد میں اپنی یاداشتیں لکھنا شروع کر دیتے۔ رشید امجد کی تحریر کردہ کتاب میرا جی فن اور شخصیت میں میرا جی نے کہیں بھولے سے بھی اقبال کا تذکرہ نہیں کیا۔اصل میں میرا جی کے والد انہیں ہومیو پیتھک ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔اگر وہ ہومیو پیتھ ہو جاتے تو وہ جی بھر کے اقبال کی تعریف کرتے۔قدرت کے اپنے کام ہوتے ہیں۔اس نے میرا جی کی انا اقبال کی خودی سے شاید بڑی بنائی ہوئی تھی۔فیض نے ظفر اقبال کی غزل کی کہیں تعریف نہیں کی اسی لیے ظفر اقبال نے جواباً کہا ٹھس شاعر کو تنقید نگار بھی ٹھس ہی ملا۔ظفر اقبال کا اشارہ فیض اور تنقید نگار آفتاب احمد خان سے کی طرف تھا۔ اگر وہ فیض کو ٹھس سمجھتے ہیں تو ہما شما کو ان کی تعریف کرتے رہنا چاہیے۔
برا شاعر ملحد ہونے کے بعد بھی شاعر برا ہی رہتا ہے۔جاوید اختر کی شاعری اس کی عمدہ مثال ہے۔ملحد ملحد ہی ہوتا ہے خواہ وہ جاوید اختر ہی کیوں نہ ہو۔ فرمان فتح پوری نے اب تک کی اردو شاعری کے پانچ ادوار کا ذکر کیا ہے جن میں میر، غالب، اقبال، فیض اور میرا جی اور آخری دور منیر نیازی کی ہے۔فیض اور میرا جی کو محض عبوری دور کی رُت سے موسوم کیا ہے۔ منیر نیازی کے بعد اگر کسی کو بڑھاپا سجا ہے تو وہ ہمارے ڈاکٹر ضیاالحسن کو سجا ہے ورنہ بڑھاپا تو افضال احمد سید پر بھی کبھی آیا ہی تھا۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply