پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے پیکا ( پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) قانون 2016میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت سائبر کرائم سے متعلق مختلف اقسام کے جرائم پر پابندی لگائی گئی، جن میں بغیر اجازت کمپیوٹر سسٹمز تک رسائی، الیکٹرانک فراڈ، سائبر بلنگ اور آن لائن ہراسانی شامل ہے۔2002میں نافذ ہونے والے الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس کے سیکشن 36اور 37کو پیکا قانون میں شامل نہیں کیا گیاتھا۔پیکا کے احکامات پاکستان پینل کوڈ، جرائم کی تحقیقات سے متعلق قوانین اور شہادت قانون کے مطابق نافذ العمل ہیں۔ مزید برآں ڈیجیٹل میڈیا کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے حکومت نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی ( این سی سی آئی اے) کے قیام کا اعلان 3مئی 2024ء کو کر چکی ہے، وفاقی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات ختم کرتے ہوئے این سی سی آئی اے قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب حکومت کا حالیہ اقدام انٹرنیٹ سیکیورٹی نیٹ ورک ’ فائر وال‘ کی تنصیب بھی انٹرنیٹ کی رفتار کو متاثر کرے گی ۔ مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات اور خدشات کے ساتھ ان قوانین کے نافذ پر کئی زوایوں سے تحفظات سامنے آرہے ہیں، جس سے اظہار رائے کی آزادی اور اپنی روزی روٹی کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انحصار کرنے والوں کے معاشی مضمرات کے بارے میں اہم سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی کے باعث پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
2000 کی دہائی کے اوائل سے، پاکستان الیکٹرانک مواصلات کو منظم کرنے کے لیے بتدریج قوانین پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ 2002 کے الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس نے الیکٹرانک دستاویزات اور لین دین کو تسلیم کرتے ہوئے بنیاد رکھی، ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے لیے قانونی فریم ورک فراہم کیا۔ تاہم، یہ PECAتھا، جو 2016ء میں نافذ کیا گیا تھا، جس نے ڈیجیٹل مواد اور آن لائن رویے پر حکومت کے اختیار کو نمایاں طور پر بڑھایا۔ یہ قانون تنازعات کا ایک مرکزی نقطہ رہا ہے، اس کی وسیع اور اکثر مبہم دفعات کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے کہ بہت سے استدلال کو سائبر کرائم کا مقابلہ کرنے کی آڑ میں اختلاف رائے کو دبانے اور آزادی اظہار کو روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ ڈیجیٹل میڈیا میں بعض عناصر کی جانب سے ریاست کے خلاف مذموم مہمات اور سازشوں کا بھی سامنا ہے ، جس کے سدباب کے لئے ان قوانین کے اثرات بہت دور رس ہیں، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بارے میں حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ریاست مخالف حلقوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ریاستی اقدامات کے نتیجے میں عمومی طور پر یو ٹیوب اور ٹک ٹاک جیسی سروسز کو متعدد شٹ ڈائون کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ حالیہ جانچ پڑتال نے X( سابقہ ٹویٹر) کو بھی مسلسل بندش کا سامنا ہے۔ گوکہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف معلومات تک رسائی کو محدود کرتے ہیں بلکہ اہم مسئلہ کے طور پر ان لاتعداد افراد کی روزی روٹی کو بھی براہ راست خطرات کا سامنا ہونے کا احتمال ہے جو کاروبار اور آمدنی کے لیے ان پلیٹ فارمز پر انحصار کرتے ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سیکیورٹی نیٹ ورک ’ فائر وال‘ کی تنصیب کی آزمائش کے بعد مستقل نفاذ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، ان حالات میں ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی اقتصادی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔
آن لائن کاروبار سے وابستہ طبقات سست انٹر نیٹ اور ڈیجیٹل ریگولیشن کے بارے میں حکومت کے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریاست مخالف مہمات پر جہاں حکومت اقدامات ضروری ہیں تو دوسری جانب سوشل میڈیا کے خلاف تعزیری اقدامات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ حکام کو معاشی بدحالی کی بنیادی وجوہ جیسے کہ غربت اور بے روزگاری کو دور کرنے کو بھی ترجیح دینی چاہیے۔ موثر گورننس کا مقصد ایک ایسے ماحول کو فروغ دینا ہے جہاں ڈیجیٹل جدت طرازی پروان چڑھ سکتی ہے، بجائے اس کے کہ ضرورت سے زیادہ ضابطوں کے ذریعے اسے دبایا جائے، یا پھر ڈیجیٹل فتنوں کی سرکوبی میں ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے نقصان کا نشانہ بن جائیں۔ ڈیجیٹل اسپیسز کو کنٹرول کرنے پر موجودہ توجہ آبادی کے ایک اہم حصے کو، خاص طور پر نوجوان، جو کاروباری مواقع کے لیے تیزی سے ان پلیٹ فارمز کا رخ کر رہے ہیں۔ لہذا اس امر پر خصوصی توجہ دینا ہوگی کہ پابندیوں اور انٹر نیٹ کے جدید تقاضوں میں لاکھوں ایسے افراد کچلے نہ جائیں جو ایک با عزت روزگار کے ذریعے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان ڈیجیٹل گورننس کی پیچیدگیوں سے گزر رہا ہے، اور اس امر پر اختلاف بھی نہیں کہ سیکورٹی اور انفرادی حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت حقیقی سائبر کرائمز اور آزادانہ تقریر یا جائز کاروباری سرگرمیوں کے خلاف ورزی جیسے ہیکنگ اور آن لائن فراڈ سے لڑنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ حکومت کو اپنے شہریوں کو درپیش حقیقی مسائل کو حل کرنے کی عجلت پر زور دینا ہوگا۔ عوامی عدم اطمینان اکثر ناانصافی اور عدم مساوات کے تصورات کو ہوا دیتا ہے، اور پابندی والی ڈیجیٹل پالیسیاں ان احساسات کو بڑھا سکتی ہیں۔ پالیسی سازوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مختلف اسٹیک ہولڈرز، بشمول ڈیجیٹل انٹرپرینیورز، سول سوسائٹی اور عام عوام کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہوں، تاکہ ایک زیادہ جامع اور آگے کی سوچ رکھنے والا ریگولیٹری فریم ورک بنایا جا سکے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اپنی ڈیجیٹل اکانومی کو ترقی دینے کی سعی کر رہا ہے، اسے ایسا اس طرح کرنا چاہیے جو اپنے شہریوں کے حقوق کا احترام کرے اور اختراع کی حوصلہ افزائی کرے۔ سوچ سمجھ کر اور جامع پالیسیوں کے ذریعے ہی ملک اپنے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی ڈیجیٹل معیشت کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ایک باریک اپروچ کی ضرورت ہے جو انفرادی آزادیوں کے تحفظ اور معاشی خوشحالی کو فروغ دینے کے ساتھ سیکیورٹی کی ضرورت کو متوازن کرے ۔ ریاست کی سیکیورٹی سر فہرست ہے اور معاشی استحکام لانا بھی ریاست نے اپنی اولین ذمے داریوں میں شامل کیا ہوا ہے، اس سے امید تو یہی ہے کہ مقتدر حلقوں نے اس نازک صورت حال پر بھی غور کیا ہوگا کہ کسی ممکنہ پابندیوں سے قیمتی زر مبادلہ لانے والے اس اہم شعبے اور ملک کے اندر چھوٹے بڑے پیمانے پر روزگار مہیا کرنے والوں کے حقوق اور کڑی محنت کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر تحفظات کو دور کرنے میں سنجیدگی نہ ہوئی تو کئی ایسا نہ ہو کہ ایک نیا بحران کھڑا ہوجائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں