طورخم بارڈر کراسنگ سے اوپر دس یا پندرہ کلومیٹر دور لنڈیکوتل بازار ہے۔ بازار سے ایک رستہ بائیں طرف پشتو کے مشہور شاعر امیر حمزہ بابا شنواری کے مزار کی طرف نکلتا ہے اور دائیں طرف مرکزی سڑک پشاور کی طرف۔ اس سے تھوڑا سا پیچھے سڑک کنارے ایک مسجد موجود ہے جس پر المعروف “مولوی طپونچی” نامی کمانڈر کا قبضہ تھا۔ جیسے ہی میری گاڑی اس مسجد کے پاس پہنچی۔ آس پاس مسجد کے مسلح گارڈز کھڑے تھے۔ ظہر کی جماعت تیار تھی۔ میرے ڈرائیور نے بریک لگا دیئے مگر حفاظت کی خاطر میں نے ڈرائیور کو منع کیا کہ نماز آگے ایوب کلے میں پڑھیں گے۔ ایک تو میرا لباس نامناسب تھا اوپر سے جیب میں امریکی کرنسی تھی۔ جو سب سے زیادہ خطرناک بات تھی۔
اس زمانے میں اس علاقے میں کسی بھی مخالف کو ذبح کرنا ایک عام بات تھی اور مقتول کے سر کو الگ کرکے بیس تیس ڈالر کی کرنسی اس کے منہ میں ٹھونس دی جاتی تھی اور نیچے ایک پرچی رکھ دی جاتی تھی کہ “امریکی جاسوس کا یہی انجام ہے”۔
ڈرائیور نماز سے روکنے پر تھوڑا سا جز بز تو ہوا مگر وہ میرا مطلب سمجھ گیا۔ لہذا انھوں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
ایوب کلے لنڈیکوتل بازار سے تھوڑا آگے پڑتا ہے۔ یہ وہی گاؤں ہے جو پاکستان کے مشہور اسمگلر حاجی ایوب آفریدی کے نام سے موسوم ہے۔ ایوب آفریدی ایک نامی گرامی اسمگلر گزرے ہیں جنہوں نے پاکستان میں ایک افسانوی نام کمایا ہے۔ انھوں نے ایک محل نما گھر بھی اسی گاؤں میں بنایا ہے جو سال 2000 تک ایک سیاحتی جگہ تصور کیجاتی تھی۔ یہاں پہنچ کر مسجد کی تلاش میں ہم نے گاڑی آہستہ کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ چارسُو یہاں بھی مسلح طالبان آزادانہ گھوم رہے ہیں۔
یاد رہے کہ خیبر ایجنسی اس وقت پوری طرح فرنٹیئر کور کے ایک یونٹ “خیبر رائفلز” کے زیر نگرانی تھا۔ جابجا چیک پوسٹ تھے مگر طالبان کی گاڑیوں میں آزادانہ آمدورفت عوام کو ڈرانے کیلئے کافی تھی ۔
اس حادثے سے دو ماہ پیشتر میں کراچی سے آئے ہوئے ایک کاروباری دوست کیساتھ طورخم جارہا تھا۔ دوست کی وضع قطع بالکل پشتونوں جیسی تھی، لہذا خیبر گیٹ پر تعینات عملے سے ساری بات چیت میں نے کی۔ تب طورخم جانے کا پروانہ ممکن ہوسکا تھا۔ جیسے ہی علی مسجد سے پہلے ایک خطرناک موڑ پر پہنچے تو اوپر ایف سی کا چاک و چوبند دستہ تعینات تھا۔ چیک پوسٹ تک پہنچے تو اچانک پانچ چھ ڈبل کیبن گاڑیوں نے زن سے ہماری گاڑی کو اوور ٹیک کیا۔ ان گاڑیوں پر سوار شلوار قمیضوں میں ملبوس مسلح طالبان بیٹھے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں میں جدید آتشیں اسلحہ اور راکٹ لانچرز تھے۔ ان میں کچھ طالبان مسلح لوگوں نے ہاتھ ہلا کر ایف سی والوں کو سلام کیا۔ تھوڑا سا ہم آگے بڑھے تو پیچھے سے ایف سی اہلکاروں نے ہم پر شدید فائرنگ کھول دی۔ میں نے اچانک گاڑی کو بریک لگائے اور سیکنڈوں میں گاڑی سے کود کر روڈ پر چت لیٹ گئے ۔ گولیاں سڑک سے ٹکرا کر ایک وحشتناک “سی سی اور دبی ہوئی سرسراہٹ” کی آوازیں نکال رہیں تھیں۔ میں نے لیٹے لیٹے مہمان کو آواز دی
“باہر نکلو”
مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ وہ بیچارہ سکتے کے عالم میں تھا۔ دو تین منٹ کے بعد فائرنگ رک گئی تو مجھے مہمان کی فکر ہوگئی کہ مبادا اس کو کچھ ہوا نہ ہو۔ چند سیکنڈ کے بعد میں نے سر اٹھا کر مہمان کو دیکھا تو سکون کا سانس لیا۔ فائرنگ مکمل طور پر بند ہوگئی تھی۔ میں اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے ایک اور ڈبل کیبن آکر رک گئی جن پر مسلح طالبان سوار تھے۔ آگے سیٹ پر بیٹھے کمانڈر نے مسکرا کر دعا سلام کی اور خیریت پوچھی۔ ہم نے اپنی سلامتی کا بتایا اور یہ الگ بات کہ طورخم پہنچ کر مطلوبہ کمیشن ایجنٹ دو بھائیوں سمیت ذبح ہوگیا تھا ۔
ہماری گاڑی ایوب کلے نامی گاؤں سے نکل کر علی مسجد کی طرف رواں دواں تھی۔ علی مسجد پشاور جاتے ہوئے ایک چھوٹے سے دائرہ نما موڑ کا نام ہے۔جہاں سڑک کنارے ایک چھوٹی آبادی موجود ہے۔ یہاں فرنٹیئر کور کی چوکی بنی ہوئی ہے۔ جس میں دن رات مسلح اہلکار اس رستے کو محفوظ بناتے ہیں۔ علی مسجد سے آگے جاکر ایک اور چیک پوسٹ تھی اس کے بعد کارخانوں مارکیٹ پشاور تک کم از کم دس چوکیاں قائم تھیں۔
ہماری گاڑی جیسے ہی علی مسجد کی طرف مڑ رہی تھی مجھے اپنی ٹیکسی کے پیچھے ایک کالی رنگ کی ویگو نما گاڑی نظر آئی جو معمول کی رفتار سے تیز دوڑ رہی تھی۔ موڑ کاٹتے ہوئے مجھے گڑبڑ کا احساس ہوا تو میں نے ڈرائیور سے کہا
“چوکی کے قریب گاڑی لیجائیں۔ پیچھے مشکوک گاڑی ہے؟”۔
ڈرائیور نے ایکسلیٹر پر پیر رکھ کر رفتار بڑھا دی۔ مگر آگے پُل کا خطرناک موڑ تھا اس لئے گاڑی تھوڑی سی بے قابو ہوئی۔ مگر گاڑی سنبھل گئی۔ بجائے روکنے کے گاڑی نے قلیل سا پُل عبور کرلیا۔ تبھی پیچھے سے آتے ہوئی گاڑی نے خطرناک طریقے سے ہماری گاڑی کا رستہ رک لیا۔ منہ پر ڈھاٹے باندھے شلوار قمیض میں ملبوس مسلح افراد تیز رفتاری سے گاڑی سے کود کر میری گاڑی کی طرف آگئے۔ ڈرائیور کے اعصاب مضبوط تھے اس نے مقامی لہجے میں ایک طالب سے پوچھا۔
“حاجی ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے؟”
جواب میں ایک ڈھاٹہ بردار مسلح شخص نے ڈانٹ کر اسے خاموش کیا۔
“چپ کر بیٹھے رہو۔ مہمان ہمارے حوالے کردو”۔
میں لہجے سے پہچان گیا کہ پشتو بولنے والے کا تعلق باڑہ آفریدی قبیلے سے ہے۔
میں گاڑی سے ہاتھ اوپر کرکے نکلا۔ آفریدی لہجے میں اسی سے مخاطب ہوا۔
“تروپر کوئی غلط فہمی ہوئی ہے آپ کو؟”۔
یہ کہتے ہی وہ آگے بڑھا اور تیزی سے میری تلاشی لینے لگا۔ میرے جیب میں پندرہ سو ڈالر اور کچھ پاکستانی کرنسی پڑی تھی۔ ڈالر دیکھتے ہی سب چوکنے ہوگئے۔ ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے گھورا اور مجھے دوسری طرف گھما کر دوزانو زمین پر بٹھا دیا۔ جیسے ہی مڑا اس وقت چوکی پر نظر پڑی۔ اس امید پر چوکی پر نظریں جمائیں کہ کوئی ایف سی اہلکار میری مدد کرسکے۔ مگر وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ اس وقت تین چار اور ٹیکسی والے بھی گزر گئے اور دلچسپ نظروں سے تماشہ دیکھنے کیلئے اپنی گاڑیاں آہستہ کیں مگر مدد کیلئے کوئی نہیں روکا۔
مسلح افراد اناڑی تھے۔ اس لئے وہ بغیر کسی خدشے کے روڈ پر تماشا لگائے ہوئے تھے۔ میں تھوڑا سا مطمئن تھا کہ شاید کوئی سرکاری اہلکار یا پٹرولنگ والے آجائیں، مگر چوکی کی طرف سے حرکت نہ ہونا میری مایوسی کو بڑھاوا دے رہا تھا۔
“یہ بھی امریکی دلال نکلا۔۔۔۔”
پیچھے سے ایک آواز آئی۔
“باڈر پر امریکی کیساتھ گلے مل کر تصویریں کھنچوانا ایک بے غیرت کافر ہی کرسکتا ہے”۔
یہ رائے میرے بارے تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ طورخم بارڈر پار میری نگرانی ہورہی تھی۔
“اس کا گلا ابھی کاٹ دیتے ہیں تاکہ لوگ سبق سیکھ جائے۔”
ایک اور نے مشورہ دیا۔
اس وقت میرا دماغ تیزی سے تانے بانے جوڑ رہا تھا۔ کہ ایسے حالات میں اپنا بچاؤ کیسے کیا جاتا ہے۔ میں بھی اسی ادھڑبُن میں مصروف تھا۔ میرے سامان کی تلاشی لی گئی تھی اس دوران کم از کم دس منٹ اس کاروائی کی نذر ہوگئے ہوں گے۔ گاڑیاں زن سے گزر رہی تھیں۔ مگر میں سمجھ گیا کہ کھیل کہاں سے شروع ہوا ہے اور کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ میرے کیمرے کو میرے گلے سے اتارا جاچکا تھا۔ بیگ سے کپڑے نکال کر سڑک کنارے پھیلا دیئے گئے تھے۔ بالآخر ایک بندے نے مجھے کندھے کے پاس زور سے پکڑا اور اٹھنے کا حکم دیا۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ اگر ان کا ارادہ مجھے قتل کرنے کا ہوتا تو اتنی تفتیش پر وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اسی وقت گلا کاٹ دیتے یا گولی مار دیتے۔
دھکا دیکر مجھے ڈالے کی طرف کھینچا جارہا تھا۔ جیسے ہی گاڑی کے فرش پر مجھے بٹھایا گیا تو میری نظریں آگے کی طرف اٹھیں ۔ وہی غیر مقامی بندہ جس کو میں نے بارڈر پر دیکھا تھا وہ گردن موڑے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ہماری نظریں چار ہوگئیں ۔آگے کیبن میں بیٹھے ہوئے کسی بندے نے پیچھے والوں کو آواز دی۔
“مرداگاؤ (بھڑووں) اس کی آنکھو ں پر پٹی باندھ دو اور ہاتھ باندھ دو”۔
جلدی جلدی میں رومال سے مری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور ہاتھ باندھ کر مجھے الٹا فرش پر لٹا دیا گیا۔
افغانستان میں، مَیں اس سے بھی بُرے حالات کا شکار رہا ہوں۔ ایسی صورتحال میں ایک چیز آپ کو بچا سکتی ہے وہ ہے آپ کے اعصاب کی مضبوطی۔
گزشتہ سال اسی خطے طورخم میں افغانستان کی طرف ہماری گاڑی کابل کی طرف رواں دواں تھی۔ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔میں عام سواریوں والی ٹیکسی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک بندہ فرنٹ سیٹ پر براجمان تھا۔ ہم تین پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ کابل طورخم شاہراہ خصوصا ًافغانستان میں یک رویہ سڑکوں پر میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنا زیادہ پسند کرتا تھا۔ کیونکہ ایک تو ان کی گاڑیاں بڑے انجنوں والی جدید گاڑیاں اوپر سے ڈرائیور بھی شوخیاں مارتے تھے۔ ڈبل روڈ پر ایک سو چالیس سے اوپر اسپیڈ بڑھاتے تھے۔ زیادہ تر خوفناک حادثات ایسے ہوتے تھے۔
ہماری گاڑی جیسے ہی مہمند درہ نامی گاؤں پہنچی تو آگے گاڑی کی رفتار کم ہوگئی۔ مہمند درہ ایک خطرناک گاؤں تھا یہاں زیادہ تر سوات کے طالبان ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے جو دریائے کابل کے کنارے آباد ایک گاؤں ہے۔ اس لئے زیادہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی کوشش ہوتی تھی کہ جلد از جلد مہمند درہ سے نکل کر مارکوہ پہنچ جائیں۔ مارکوہ کے بعد افغان طالبان کی اجارہ داری تھی جو غنی خیل گاؤں سے لیکر نجیب زراب ہاؤسنگ سوسائٹی کیساتھ ختم ہوجاتی تھی۔ پاکستانی طالبان زیادہ بدنام تھے کیونکہ یہ عام مسافروں کو لُوٹتے تھے اور باقاعدہ تلاشی لیکر سرکاری اہلکاروں کو اغوا کرتے تھے۔ ان کے بجائے افغان طالبان نرم خو اور عام مسافروں کو پریشان بالکل نہیں کرتے تھے۔ ہماری گاڑی کی رفتار کی اچانک آہستگی کیوجہ سامنے امریکی کانوائے تھی جو طورخم سے کابل جارہی تھی۔ امریکی کانوائے دیکھ لوگ کوفت کا شکار ہوتے تھے کیونکہ گھنٹوں کا سفر ان کیساتھ کبھی کبھار دنوں پر محیط ہوجاتا تھا۔ کوئی گاڑی ان کو پیچھے سے اوورٹیک نہیں کرسکتی تھی۔ ایسی صورت میں وہ مارنے سے بالکل دریغ نہیں کرتے تھے۔ دوسری پریشانی کی بات یہ تھی کہ دوران سفر اگر امریکی اور فرانسیسی کانوائے پر طالبان حملہ کرتے تو ان دونوں ممالک کے فوجی حواس باختہ ہوکر آس پاس ہر زندہ شئے انسان، بچے، عورتیں حتی کہ جانوروں کو بھی بھون کر رکھ دیتے تھے۔ اس لئے امریکی کانوائے کا ہم سفر ہونا بدشگونی سمجھی جاتی تھی۔ ڈرائیور نے بھی ناگواری سے اطلاع دی
“اب آپ لوگ بھول جائیں کہ میں پانچ گھنٹوں میں کابل پہنچاؤنگا۔۔۔ ”
اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ امریکن کانوائے پر آئی ای ڈی ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ ہوگیا۔۔ ۔

جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں