• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بھارت-پاک سفارتی تعلقات کی کہانی، پاکستان میں بھارت کے آخری ہائی کمشنر کی زبانی(2،آخری حصّہ)- افتخار گیلانی

بھارت-پاک سفارتی تعلقات کی کہانی، پاکستان میں بھارت کے آخری ہائی کمشنر کی زبانی(2،آخری حصّہ)- افتخار گیلانی

پاکستان میں اب ایک نئی جمہوری حکومت وجود میں آچکی تھی۔ راجیو گاندھی کے سفارتی مشیر، رونن سین، دسمبر 1988 کی ایک صبح سارک سربراہی اجلاس کے لیے اپنے باس کے دورے کی تیاری کرنے کے لیے اسلام آباد آپہنچے۔ کراچی میں پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کی ایسی ملاقات ہوئی، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ جب رونین سین نے کسی حساس معاملے پر بات چیت شروع کی، تو بے نظیر نے ہونٹوں پر انگلی اٹھا کر ایک کاغذ کی پرچی پر لکھا کہ کمرہ بگ ہو سکتا ہے۔ دونوں نے کاغذ کی پرچیوں کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھایا۔
سین پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔ بے نظیر نے ان کو بتایا کہ یہ فوج کے زیر تصرف ہے اور ان کو اس بارے میں علم نہیں ہے۔ بے نظیر نے کہا کہ سارک کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ تعلقات رکھنا ان کے لیے زیادہ آسان ہوگا۔ جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی، بے نظیر نے سین سے کہا کہ وہ اپنے ریمارکس کو ریکارڈکا حصہ نہ بنائیں۔ بے نظیر نے بھی راجیو کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے خصوصی ایلچی اقبال آخوند اور ایک پاکستانی پارسی معتمد ہیپی من والا کودہلی بھیجا۔
وہ واضح طور پر اپنے وزیر خارجہ یعقوب خان پر بھروسہ نہیں کرتی تھیں، جنہیں انہوں نے پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان کے مشورے پر برقرار رکھا تھا۔
سن1991 کو وزیر اعظم چندر شیکھر کی نئے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ جے این دکشت کے مطابق، نوازشریف نے چندر شیکھر کو مشورہ دیا کہ ان کی حکومت کو وادی میں رائے شماری کی اجازت دینے پر ‘سنجیدگی سے غور’ کرنا چاہیے، تاکہ ہندوستان لداخ اور جموں کو اپنے پاس رکھ سکے، جبکہ پاکستان اپنے حصہ والے کشمیر کو اپنے پاس رکھے۔ وادی بعد میں پاکستان میں شامل ہو جائے گی۔
ستیندر کمار لامبا جنہوں نے اب 1992 میں ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا، پایا کہ بے نظیر بھٹو اب ایک بدلی ہوئی شخصیت تھیں۔ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں اب مزید دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ لامبا کو ملاقات کے لیے وقت بھی نہیں دیتی تھی۔
بساریہ کے مطابق، وہ لامبا کو اپنے سیاسی حریف اور پیش رو نواز شریف کا دوست سمجھتی تھی۔اپنی دوسری مدت میں بے نظیر کا بھارت کے تئیں رویہ کیوں سخت ہوگیا تھا، ہنوز ایک معمہ ہے۔ ستیش چندرا نے 1995 میں ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا اور جلد ہی دونوں فریقوں کے درمیان خفیہ ‘بات چیت کے دور شروع ہوئے۔ اس گفتگو میں چار سفارت کار شامل تھے: بھارت کے خارجہ سکریٹری سلمان حیدر اور پاکستان کے نجم الدین شیخ، ہائی کمشنر ستیش چندرا اورریاض کھوکھر۔ان کی پہلی ملاقات دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں دوپہر کے کھانے کے دوران ہوئی۔ان کی ملاقاتوں کے نتیجے میں 1997میں مربوط مذاکرات کے میکانزم کا قیام عمل میں آیا۔
جب اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا، تو وہ فوراً ہی یعنی اپریل 1998 میں جوہری دھماکے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن صدر کے آر نارائنن لاطینی امریکہ کے دورے پر جا رہے تھے۔ یہ دھماکہ واجپائی کے لیے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ بساریہ جو واجپائی کے پرسنل سکریٹری بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ 11 مئی کو، واجپائی نے ریس کورس روڈ نمبر 5 کے بنگلہ کے ایک کنٹرول روم کابینہ کے اپنے چنندہ ساتھیوں کے ساتھ انتظار کر رہے تھے کہ چار بجے کے آس پاس ان کے سائنسی مشیر عبدالکلام نے فون کیا۔ اس کو واجپائی کے پرنسپل سکریٹری برجیش مشرا نے اٹھایا اور ان کو کامیاب جوہری دھماکوں کی نوید سنائی۔
ادھر اسلام آباد میں27 مئی کی رات گئے 1 بجے ہندوستانی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا۔ سکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے ان کو بتایا کہ کہ پاکستان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے والا ہے اور اس کے لیے چنئی کے ہوائی اڈے ایف سولہ طیارے تیار کرائے جا رہے ہیں۔
جب ہائی کمشنر نے نشاندہی کی کہ ہندوستان کے پاس اس طرح کے طیارے نہیں ہیں، تو احمد نے کہا کہ ہوائی جہاز اسرائیلی ہو سکتے ہیں۔ گو کہ بساریہ نے ان کے ہدف کی نشاندہی نہیں کی ہے، مگر لگتا ہے کہ ان کا ہدف چاغی کا میدان تھا،جہاں اگلے روز پاکستان دھماکے کرنے والا تھا۔
بساریہ کا کہنا ہے کہ آگرہ کے سربراہی اجلاس کے دوسرے د ن پاکستانی صدرپرویز مشرف نے ہندوستان کے بڑے اخبارات اور ٹی وی نیکس کے ایڈیٹرز کے ساتھ ناشتے کے دوران گفتگو کی۔ اس تقریب کو این ڈی ٹی وی نے فلمایا، پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ بظاہر سمجھوتہ تھا کہ اس پروگرام کو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائے گا۔
تاہم، این ڈی ٹی وی نے جلد ہی پوری گفتگو ٹیلی کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔”ہوٹل میں ہمارے عارضی پی ایم او میں، برجیش مشرا اور میں نے اس انٹرویو کو دیکھا۔ مشرا میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ پی ایم کو اس پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ میٹنگ روم کے باہر ہونے والی ہر بات سے غافل مشرف کے ساتھ بات چیت میں بیٹھے تھے۔مشرا نے چند سطریں لکھیں۔ میں نے انہیں جلدی سے ٹائپ کیا، اور کمرے کے اندر چلا گیا۔“
نوٹ میں بنیادی طور پر کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کی ایک پریس کانفرنس ٹیلی کاسٹ کی جا رہی تھی، جہاں انہوں نے اپنے سخت گیر موقف کو دہرایا ہے۔اس کمرے میں واجپائی اور مشرف کے علاوہ دو نوٹ لینے والے بیٹھے تھے۔ مشرف بات کر رہے تھے اور واجپائی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کاغذ باس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ میرے کمرے سے نکلنے کے بعد، واجپائی نے کاغذ پر نظر ڈالی اور پھر اس میں سے مشرف کو پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ان کا رویہ بات چیت میں مددگار نہیں ہے۔
بساریہ کا کہنا ہے دسمبر 2001 کو جب پارلیامنٹ پر حملہ ہوا تو واجپائی اس کی زد میں آسکتے تھے۔ وہ تقریباً 11.10 بجے ریس کورس روڈ سے پارلیامنٹ جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ رہے تھےکہ انہوں نے ٹی وی پر دیکھا کہ ہنگامہ کی وجہ سے لوک سبھا کی کارروائی ملتوی کی گئی ہے۔ میں نے جاکر ان کو بتایا کہ پارلیامنٹ کی کارروائی ملتوی ہو گئی ہے اس لیے بہتر ہے کہ جو فائلیں کئی دنوں سے پڑی ہیں، ان کو نمٹایا جائے۔
واجپائی گاڑی سے نیچے اترے اور فائلیں طلب کیں۔ جب ان کے ایک اور پرسنل سکریٹری آر پی سنگھ ان کو ایک ایک فائل کے بارے میں بتا رہے تھے کہ پارلیامنٹ سے فون آیا کہ وزیر اعظم کو روک دوں کیونکہ وہاں گولیاں چل رہی ہیں۔ بعد میں وزیر اعظم کی سیکورٹی نے بساریہ کا شکریہ ادا کیا۔
بساریہ کا کہنا ہے آگرہ کے برعکس واجپائی کے 2004 کے دورہ اسلام آباد کی بھر پور تیاریاں کی گئیں تھیں۔ واجپائی کے دورہ کے دروان ان کے داماد رنجن بھٹاچاریہ اسلام آباد کے مشہور گولف کلب میں گولف کے ایک راؤنڈ میں حصہ لینے کے لیے پہنچے۔ کورس میں، کوئی اور گولفرز نہیں تھا۔ اچانک، مسلح سیکورٹی اہلکار درختوں کے جھرمٹ کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور ان کو گھیر کر کہا کہ جلدی بھاگ جاؤ۔ ”واجپائی کا داماد کھیلنے آ رہا ہے۔“
واجپائی نے اپنے قابل اعتماد پرنسپل سکریٹری، برجیش مشرکومئی 2003 میں اسلام آباد بھیجا تھا، جہا ں اس نے اپنے نئے نامزد ہم منصب طارق عزیزکے ساتھ ایک تعلق قائم کیا۔جب لامبا کو 2005 میں پی ایم او میں خصوصی ایلچی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، تو انہوں نے برجیش مشرا کی سعی کو آگے بڑھایا۔ منموہن سنگھ نے ان کو مینڈیٹ دیا تھا کہ سرحدوں کو دوبارہ کھینچنے کے بغیر انسانی بنیادوں پر جو حل نکل سکتا ہے اس کی کوششیں کی جائیں۔
جب نومبر2008 میں ممبئی میں حملہ شروع ہوا تو ہائی کمشنر ستیہ برتا پال پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ دہلی میں موجود تھے۔ قریشی خود سی این این آئی بی این کو پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک کی رہائش گاہ، پر انٹرویو دے رہے تھے، جو کبھی نشر نہیں ہوا۔ ویسے تو ایسے موقعوں پر بات چیت کے بعد عشائیہ میزبان دیتا ہے مگر پر اسرار طور پر وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے پہلے ہی اس دورہ کی تفصیلات طے کرنے کے وقت ہی عشائیہ کی میزبانی سے معذوری ظاہر کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان وزیر کو آنے والی چیزوں کے بارے میں کوئی سن گن تھی۔
تاہم، مکھرجی نے اگلے دن چنڈی گڑھ میں قریشی کے ساتھ لنچ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اگلی صبح، مکھرجی نے چندی گڑھ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا، لیکن قریشی نے جے پور، اجمیر اور چندی گڑھ کے لیے اپنے طے شدہ پروگرام کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ دہلی کے ویمن پریس کلب میں 27 نومبر کو قریشی کی پریس کانفرنس تھی کہ پاکستانی ہائی کمشنر شاہد ملک کے فون کی گھنٹی بجی۔ یہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی تھے، جو صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے ناراض تھے، جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کوہندوستان بھیجنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
میڈیا میٹنگ کے دوران ملک کو ایک اور کال موصول ہوئی۔ اس بار، یہ پرنب مکھرجی تھے، جنہوں نے قریشی کو بتایا کہ وہ فی الفور ہندوستان چھوڑ دیں۔ اگلی صبح 4 بجے پاکستان ایئر فورس کا ایک طیارہ وزیر کو گھر لے جانے کے لیے دہلی آگیا۔شاید پہلی بار کسی ملک کے وزیر خارجہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دےکر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہو۔
خیر جب منموہن سنگھ دفتر چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے، نواز شریف تجارتی ایجنڈے کے ساتھ مضبوطی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ پاکستان نے مارچ 2014 میں کابینہ کے اجلاس میں ہندوستان کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔اس کا نیا نام این ڈی ایم اے (مارکیٹ تک غیر امتیازی رسائی)رکھا گیا۔ ایک نئے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے مارچ میں نئی دہلی میں عہدہ سنبھالا اور یہ معاملہ ان کی میز پر آ گیا۔
پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے جنوری میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان جلد ہی این ڈی ایم اے کو ہندوستان تک توسیع دے گا۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہندوستانی ہم منصب آنند شرما جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے بے حد خواہشمند تھے، جب ان کے دورہ پاکستان کی تاریخوں پر کام ہو رہا تھا، تو باسط کو دہلی میں آنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی افراد نے بتایا کہ اس قدم کو الیکشن ختم ہونے تک موخر کریں۔
چونکہ اگلی حکومت بی جے پی کو بنانی ہے، دونوں ممالک کے لیے یہ اعلان ایک اچھا اسٹارٹ ہوگا۔ 2015 میں کرسمس کے دن، اسلام آباد میں ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کوخارجہ سکریٹری ایس جے شنکر کی طرف سے صبح 8 بجے ایک کال موصول ہوئی۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وزیر اعظم کے استقبال کے لیے تیار رہیں۔ جب راگھون نے پوچھا کہ کیا نواز شریف واقعی اس دن اپنے مہمان کا استقبال کرنے کے لیے اسلام آباد میں ہوں گے، تو سکریٹری خارجہ نے چند منٹوں کے بعد واپس فون کیا کہ دونوں رہنما چند گھنٹوں میں لاہور میں ملاقات پر راضی ہو گئے ہیں۔صبح 10 بجے تک راگھون موٹر وے سے لاہور کی طرف روان تھے۔
ایئر پورٹ کے بجائے وہ سیدھے رائیونڈ شریف کی رہائش گاہ پہنچے۔مودی نے بعد میں کہا کہ انہوں نے کابل سے نواز شریف سے فون پر بات کرنے کے بعد لاہور میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر بساریہ کے اس بیان کے مطابق لگتا ہے کہ اس کی تیاری صبح دہلی میں کئی گئی تھی۔
اس کتاب کا نہایت قلیل حصہ ہی اجے بساریہ کی اپنے دور کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کو 2017 میں بطور ہائی کمشنر نامزد کر دیا گیا۔ اس دوران پلوامہ، بالاکوٹ اور پھر کشمیر کی داخلی خود مختاری کو ختم کرنے کے واقعات ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیرکی طرف سے ان کو واضح پیغام تھا کہ پاکستان عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جموں و کشمیر میں مزید دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوں گے، سرحد پار سے دراندازی نہیں ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ ایک پاکستانی واقف کار، جو فوج اور سویلین حکومت دونوں کے قریب تھا، نے ان کو یقین دلایا کہ جیش محمد کے 1800 ارکان کو گرفتار کیا جائے گا۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ ان کے واقف کار نے ان کو رات کو فون پر بتایا کہ القاعدہ کشمیر میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انہی دنوں کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ترال قصبے میں القائدہ سے تعلق رکھنے والے ذاکر موسیٰ کو مارا گیا تھا۔ اور القاعدہ بظاہر موسیٰ کے قتل کا بدلہ لینے والی تھی۔ اس وقت عاصم منیر آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے۔ پتہ چلا کہ یہ ایک سچی اطلاع اور ایک غیر معمولی ان پٹ تھا جو پاکستان ہندوستان کو دے رہا تھا۔
کشمیر میں اگست 2019 سے کے اقدامات سے قبل بساریہ سے ان پٹ لیے گئے تھے کہ پاکستان کیا کچھ کرسکتا ہے؟
انہوں نے ہندوستانی لیڈروں کو مشورہ دیا کہ پاکستان کے ردعمل سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دی کہ پاکستان اس وقت سب سے کمزور پوزیشن میں ہے اور کشمیر پر کسی فوجی مہم جوئی کا خطرہ مول نہیں لے گا اور اس کا پورا زور بیان بازی پر ہی مرکوز ہوگا۔
بساریہ کا کہنا ہے کہ ان کو کشمیر پر آنے والی کارروائی کا اندازہ تھا، مگر مخصوص ٹائم فریم کا علم نہیں تھا۔
بہر حال دونوں ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے عوام کے تحفظ اور خوشحالی کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ دیرینہ تنازعات کو حل کریں۔
جو ممالک لچک اور تخلیقی صلاحیتیں اپناتے ہیں، وہی اپنے عوام کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے 2 ارب باشندوں کی خوشحالی کا ضامن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پائیدار رشتوں کی بقاء میں ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ دی وائر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply