قصہ ‘دریدا’ سے آشنائی کا/عامر حسینی

آج محمد خالد فیاض کی ایک پوسٹ پڑھی جس میں انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر خرم شہزاد نے ژاک دریدا کے ایک مضمون کا ترجمہ حواشی کے ساتھ کیا ہے اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک اور ترجمہ اس سے پہلے ہوا تھا – ان کا کہنا تھا کہ آغا صاحب نے پہلے ترجمے کے لفظی ترجمے سے پیدا ہونے والے مبینہ ابہام کو دور کرنے کے لیے اصل متن سے قریب آزاد ترجمہ کیا اور حواشی بھی لگائے –

وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ آزاد ترجمہ بھی خاصا مشکل ہے –

میں ان کی پوسٹ پڑھ کر کافی دیر ہنستا رہا – میری ہنسی کے پیچھے خود میرا اپنا ایک واقعہ ہے – دریدا کے جس مضمون کا یہاں ذکر ہو رہا ہے اس کے ترجمے اور تشریح پر میری اپنی کلاس کے ساتھیوں میں سے دو سے شرط لگی تھی – وہ کہتے تھے کہ اس مضمون کو اس میں موجود موضوعات کو جس نے بھی اردو میں ڈھالا اس نے اردو میں جناتی اسلوب اپنایا جسے دریدا کو انگریزی میں پڑھنے والے بھی نہیں سمجھ سکتے – میں اڑ گیا اور میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے شرط لگا لی – شرط یہ تھی کہ اگر میں اردو میں دریدا کے اس مضمون کو پوری تفہیم کے ساتھ نہ سہی تھوڑی بہت تفہیم کے ساتھ بھی منتقل کر پایا تو وہ مجھے رسل کی دو کتابیں ” مغربی فلسفے کی تاریخ ” اور ” این آوٹ لائن آف فلاسفی ” ( فلسفے کا تعارف ) گفٹ کریں گے اور رات کو مجھے صدر میں ایک ایرانی ہوٹل سے کھانا کھلائیں گے –
میں نے لائبریری سے دریدا کے اس مضمون کی فوٹو کاپی کرائی اور ایک ہفتے کا وقت طے کرلیا – سچ پوچھیں تو مجھے خود بھی یقین نہیں تھا کہ میں دریدا کے اس مضمون کو غیر جناتی اردو میں منتقل کر پاؤں گا اور میں ترجمہ کرنے سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کیے بیٹھا تھا – اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ساختیاتی فلسفے

Structuralism
کی کئی ایک اصطلاحوں کے انگریزی روپ سے واقفیت کے باوجود میں ان کی روح سے ٹھیک ٹھیک آشنا نہیں تھا –

رات کو میں نارتھ ناظم آباد میں ہما جعفری سے ملنے گیا تو نجانے کیوں میں دریدا کے مضمون کی فوٹو کاپی بھی ساتھ ہی لیتا گیا- میں اس کے اسٹڈی روم میں بیٹھا تھا اور اس سے کہہ رہا تھا کہ مجھے ہفتے بعد کچھ پیسے قرض چاہیے اور ساتھ اسے بتایا کہ کیوں یہ پیسے درکار ہیں – اس نے سنا تو پہلے وہ ہنسنے لگی اور پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگی اگر میں تمہاری مدد کروں اس شرط کو جیتنے میں تو تم مجھے بیروت سے چھپی ہوئی نسخ عراقی میں ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ دان کردوگے؟ میں نے فورا ہاں کردی کیونکہ ان دنوں مجھے اس کو پڑھنے کی کوئی چاہ تھی ہی نہیں (ہاں اگر یہ بات وہ مجھ سے ان دنوں کہتی جب میں کوفہ کی سماجی و سیاسی زندگی پر تحقیق کر رہا تھا تو شاید میں ہاں نہ کرتا) –
وہ اسٹڈی روم میں ایک دیوار پر بنے ریک کی کی طرف گئی جہاں فارسی کتب سجی ہوئی تھیں اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک کتاب نکالی اور میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور کہا آو مل کر اس مضمون کا ترجمہ شروع کرتے ہیں – ساتھ ہی اس نے جمیل الدین عالی صاحب کی مقتدرہ قومی زبان سے چھپی انگریزی – اردو لغت رکھی، ویبسٹر مریم کی فلسفیانہ ڈکشنری کو پاس رکھ لیا – اس نے پانچ دنوں میں 10، 10 منٹ کی ٹرنک کال امریکہ کے لیے بک کروائیں اور وہ فون پر اپنے والد سے بات کیا کرتی تھی –
مجھے یاد ہے کہ ہم نے (بلکہ اس نے ) ہی

Strycturality of Structure

کا ترجمہ ساخت کی ساختیت کیا – سائن کا ترجمہ نشان ، سگنیفائر کا ترجمہ نشان دہندہ اور سگنیفائیڈ کا ترجمہ نشان زدہ کیا-
اور ہر پیراگراف کے بعد پیراگراف کی تشریح اور نیچے اس پیراگراف میں استعمال ہونے والی اصطلاحوں کے اردو مفاہیم درج کیے – اور یوں چھٹے دن ہم نے دریدا کے مضمون کا ترجمہ و تشریح مکمل کرلی – (بلکہ یوں کہیں کہ اس میں 60 فیصد حصہ داری ھما جعفری کی تھی ) – میں نے ساتویں روز قریب قریب 30 صفحات پر مشتمل وہ ترجمہ و تشریح اپنے دوستوں کو دکھائی اور اس کی ایک ایک فوٹو کاپی ان کو دے دی – دونوں نے وہ ترجمہ ہمارے استاد پروفیسر سعید عالم مرحوم کو دکھایا تو انہوں نے ترجمے کو جناتی زبان سے کافی حد تک پاک قرار دے دیا بلکہ پیراگراف کی تشریح اور اصطلاحات کی اردو تفہیم کی تعریف بھی کی – میں نے ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ھما جعفری کو دان کردی وہ اسے پاکر بہت خوش تھی – اس نے اس کے مطالعے کے دوران نوٹس بنانے شروع کیے جو چار نوٹس بک کی شکل میں تھے – میں رسل کی مرتب کردہ کتاب تاریخ فلسفہ مغرب اور تعارف فلسفہ کا حقدار ٹھہرا- اور ان دو کتابوں نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا- کلاس میں ، میں اندھوں میں کانا راجا ہوگیا تھا – میں نے ھما جعفری سے نہ صرف دریدا کے فلسفے پر اسباق در اسباق لیے بلکہ بلکہ فوکو سمیت کئی اور ساختیاتی فلسفے کے ماہرین بارے بھی پڑھا – دریدا ایپیستمے

Advertisements
julia rana solicitors london

Episteme
ایک اصطلاح کا ذکر اس مضمون کے دوسرے پیراگراف میں لاتا ہے اور پھر اگلے تین پیراگراف میں اسے لیکر اپنے مافیہ کو بیان کرتا ہے – مجھے ھما جعفری نے کہا کہ اس اصطلاح کی ساختیاتی فلسفے کی روشنی میں اگر گہرا مطالعہ کرنا ہے تو اس پر جو تشریحات اور تصورات فوکو نے بیان کیے ہیں انھیں پڑھنا ہوگا – مرتا کیا نہ کرتا وہ بھی میں نے پڑھے کیونکہ کلاس میں آئے روز کوئی لڑکا یا لڑکی نگوڑے دریدا کی کوئی شئے لیکر میرے پاس آجاتا تھا اور مجھے کوئی بہانہ بناکر اس سے ایک دن کا وقت لینا پڑتا تھا – میں نے سوچا کہ ایسے کب تک چلے گا تو ہر روز شام کو میں نے ھما جعفری سے ایک طرح کی ٹیوشن لینا شروع کردی – اس اللہ کی بندی نے کبھی کلاس میں کسی کو نہ بتایا کہ میرے اندر سے کون بولتا تھا –
مجھے یہ باتیں ابن حسن کی کتاب پڑھ کر بھی بڑی یاد آئیں – میں نے آج تین گھنٹے لگاکر دریدا کے اس مضمون والے رجسٹر کو پرانے کاغذات میں تلاش کرلیا اور اس کے پانچ صفحات کمپوز بھی کرلیے – اگر یونہی لگا رہا تو ایک ہفتے میں اس کو کمپوز کرلوں گا اور یہ آن لائن پڑھنے کو دستیاب ہوگا – دریدا نے اس مضمون میں نطشے ، فرائڈ اور لیوی سٹراس کی جانب سے مابعد الطبعیات کی ردتشکیل پر مبنی
Destructive discourses
کی ردتشکیل کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ردتشکیل ایک طرح سے ناکامی پر منتج ہوئی تھیں – اور ساخت کے مرکز کی رد مرکزیت پر جو باتیں اس نے کی تھیں ان کی تشریحات سن کر میں پھڑک اٹھا تھا اگرچہ مجھے لوکاش نے ساختیات اور مابعد ساختیات کی مارکسی تنقید نے بعد ازاں وہ راستا سجھایا تھا جس سے میں مثالیت پسند فلسفوں کی دلدل میں دھنسنے سے بال بال بچ گیا تھا وگرنہ دریدا سے بچنا کوئی آسان کام نہیں تھا – ہمارے ہاں بہت سارے سابق مارکسی ماہرین تنقید ادب دریدا کے سہارے جدلیاتی مادیت پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے “مہا بیانیہ ” قرار دینے پر زور لگاتے ہیں اور سرمایہ داری کے ناگزیر حتمی فاتح ہونے کا بار بار اعلان کرتے ہیں تو مجھے لوکاش کی یاد آتی ہے ان میں سے کئی ایک نے دریدا پر ان کے معاصر مارکس وادی فلسفیوں کی تحریروں کا سرے سے مطالعہ ہی نہیں کیا – ویسے بھی ہمارے ہاں فلسفے اور ادبی تنقید کے میدان میں مغربی فلسفے بطور فیشن زیادہ اپنائے جاتے ہیں- مجھے مارکس وادی دانشوروں میں بھی سوائے ابن حسن مرحوم اور ان کے شاگردوں کے کوئی اس راہ کا سچا مسافر نہیں ملا –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply