سات اکتوبر سے جاری غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 300 دن پورے ہوگئے۔ 299 ویں روز پر بدھ کو ایرانی دارالحکومت تہران کے شمالی علاقے میں واقع ایک کمپلیکس پر میزائل حملے میں حماس کے سیاسی دفتر کے سر براہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت ہوئی ۔ جبکہ اس سے چند گھنٹے قبل لبنانی دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ کے ایک اہم ذمہ دار کمانڈر فواد شکر کو بھی اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل نے رسمی سطح پر پچاس گھنٹے گزرجانے کے باوجود بھی اسماعیل ہانیہ کے مارنے کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم اسرائیلی وزراء اور عبرانی میڈیا نے اسماعیل ہانیہ کےقتل کو اسرائیلی کارروائی قراردے دیا ہے۔
تاہم دوسری جانب عبرانی میڈیا نے خدشہ ظاہر کردیا ہے کہ مشرق وسطی کے حالیہ حالات کے پیش نظر لگ یہی رہاہے کہ مشرق وسطی ایک بہت بڑی اور فیصلہ کن جنگ کا میدان بننے جارہاہے۔ یہ معرکہ مشہور معرکہ ہرمجدون (Armageddon)ہوسکتا ہے۔ جس کا تذکرہ تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت میں موجود ہے۔
ایسے تو دنیا کے خاتمے اور فیصلہ کن جنگوں کی پیشنگوئیاں وقتا فوقتاً ہوتی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں کہیں بھی کوئی بڑی تبدیلی ہو اس کے بارے سازشی تھیوریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ بالخصوص مشرق وسطی جسے تینوں آسمانی مذاہب کے سرچشمے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں رونما ہونے والی ہر تبدیلی کو اس نوعیت کے پُراسرار عنوانات دیے جاتے ہیں۔ تاہم فرق یہ ہے کہ ماضی میں اس نوعیت کی پیشنگوئیاں کرنے والے عام طور پر مذہبی افراد ہوا کرتے تھے۔ جبکہ عصری اور تکنیکی تعلیم سے روشناس افراد اور ماہرین اس نوعیت کی پیشنگوئیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
لیکن اس مرتبہ منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ حال ہی میں آکسفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مارک المونڈ نے تہران میں غزہ کی مقاومتی تنظیم حماس کے سربراہ کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ حالات تباہ کن معرکہ ہرمجدون کی جانب ہمیں دھکیل رہے ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے القدس العربی نے اپنی رپورٹ میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطی کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خرابی کی جانب جارہے ہیں۔
رواں برس جنوری میں برطانوی جریدے ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سات اکتوبر سے جاری جنگ کے بعد اسرائیل کے بہت سے باشندے شدید تناؤ اور اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ کیونکہ اسرائیلی آرمی اس وقت جنوب میں غزہ اور شمال میں لبنان کے محاذ پر لڑرہی ہے۔
برطانوی جریدے کے سینئر رائٹر اور نامہ نگار رابرٹ مینڈک نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی آبادی خوفزدہ ہے اور محسوس کرتی ہے کہ صورت حال ناگوار ہے، اور ان میں سے کچھ کا یہ بھی ماننا ہے کہ “تیسری عالمی جنگ ” شروع ہو چکی ہے۔
ٹیلی گراف نے اس جنگ کو تاریخی معرکہ ہرمجدون کے ساتھ ملاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چہ یہ متوقع معرکہ دور دکھائی دے رہا تھا تاہم موجودہ جنگی حالات جس تھیور کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حالات ہر مجدون معرکہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
فلسطین کے شمال میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے میں جنین شہر کے مغرب میں ہر مجدون یا تل مجدون نامی جگہ واقع ہے۔ جو ایک سر سبز ٹیلہ نماں زمین ہے۔ یہ عبرانی زبان کے دو لفظوں ہار اور مجدون سے مرکب ہے۔ جس کے معنی تل مجدون ہے۔ ٹیلی گراف کے مراسل نے اس علاقے کا دورہ کیا ہے ۔جس کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے باسیوں میں غیرمعمولی پریشانی اور تناؤ کی کیفیت دیکھی جارہی ہے۔
جریدے کے مطابق جنگ سے قبل آر مجدون سیاحوں کی مقبول ترین جگہ تھی۔ جہاں روس اور یوکرائن جنگ چھڑنے کے بعد سینکڑوں روسی یہودی بھی آئے تھے۔ یہ علاقہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ مگر سات اکتوبر کے معرکہ کے آغاز کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے آر مجدون پر خوف وہراس کے سائے پھیلائے ہیں۔ جس کے باعث یہودی اور عیسائی سیاحوں نے اس علاقے سے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہوئی ہے اور علاقہ سنسان پڑا ہے ۔تاہم کچھ ایسے یہودی بھی ہیں جو جنگ میں شدت اور طول آنے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک سے صرف اس جگہ کو دیکھنے کی خاطر جمع بھی ہوئے ہیں ۔ روس سے تعلق رکھنے والے ایک 62 سالہ یہودی شخص بوزانوف اپنی اہلیہ کے ساتھ آر مجدون نامی علاقہ دیکھنے آیا تھا۔
فروری 2019ء میں آر مجدون عالمی سطح پر سماجی رابطوں کی سائٹ ٹویٹر پر”ہرمجدون قریب آگیا” کے نام سے ایک ہیش ٹیگ چلی تھی ۔
یہودیت کے عقیدے کے مطابق ہرمجدون کے وقت تمام یہودی اسرائیل میں جمع ہو جائیں گے۔ جبکہ ان کا نجات دہندہ آئے گا اور مردوں کو زندہ کردیا جائے گا۔ یہ دنیا کے خاتمے کا معرکہ ہوگا۔
عیسائیت کے مطابق اس معرکے کے وقت مصائب اور جنگیں شروع ہوں گی۔ نیک لوگوں کو اوپر اٹھایا جائے گا۔
جریدے کے مطابق اس وقت متعدد ایسے سائنسدان جن میں نوبل انعام یافتہ بھی ہیں ، اس پر متفق ہیں کہ ہر مجدون کا معرکہ قریب آنے کا وقت ہے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ، ناقابل بیان گرمیاں ، جنگلات میں لگنے والی خوفناک تباہ کن آگ اور بارشیں، سیلاب اور تباہی کن زلزلے اسی خوفناک انتہاء کی علامات ہوسکتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق غزہ کی جنگ کے 300 دن پورے ہوگئے مگر جنگ کے خاتمے کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ اوپر سے اسرائیل نئے محاذ بنارہا ہے جبکہ امریکی حکام مختلف ذمہ داروں کی زبانی بار بار یہ یقین دہانی کروارہی ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی محاذ پر تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ وہ کوئی بھی قوت ہو۔ رپورٹ کے مطابق تین سو دنوں کے اندر غزہ میں مارے جانے والے بچوں کی تعداد 16 ہزار جبکہ خواتین کی تعداد 10 ہزار 980 ہوگئی ہے۔ اسرائیلی فورسز غزہ میں اب تک 3457 مجزرے (قتل عام) کا ارتکاب کیا یے۔ جس کے نتیجے میں 49 ہزار 480 فلسطینی جانیں ہار گئے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں