جہانِ دانش اور ماں کی محبت/سراجی تھلوی

ڈھلتی شام،  پھیلتی تاریکی ،شہر کا  شور و غل ،طبیعت میں ایک اُداسی کی کیفیت  ،دل بوجھل ،مزاجِ آوارہ بجھا بجھا سا تھا۔

رہ رہ کر ناصر کاظمی کا یہ شعر یاد آرہا تھا۔
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

مغرب و عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر “قوت لایموت”زندگی کی گاڑی کو چلانے کےلیے دسویں منزل سے لفٹ میں بیٹھ کر گراؤنڈ فلور پر  آیا اور شکمِ گُرسنہ کےلیے کچھ اکل و شرب مہیا کیا۔تاکہ اس خاک و خوں سے مخلوط جسمِ ناتواں میں کچھ رمق باقی رہے۔اس خالق و مالک مطلق کا شکر ادا کیا کہ روسیاہ و خطاکار ہونے کے باوجود رزق و روزی سے محروم نہیں رکھا۔پھر پیٹ بھر کر کھانے کی طاقت و توفیق دی۔اہل مطالعہ جانتے ہیں کہ دنیا میں کتنے نامور ،کتنے دولت ِقارون کے مالک ،کتنے جاہ و   حشم کے مالک صرف پھیکا قہوہ پینے پر مجبور ہیں۔سب کچھ میسر ہو کر بھی انکی صحت انکو اجازت نہیں دیتی کہ کچھ من بھر کر لذیذ و مرغن غذا کھائیں ۔اے مالک و مختار کسی منہ سے کس زباں سے شکر ادا کروں ،صحت و سلامتی کی نعمت عظمی سے نوازا ،رزق و روزی کی فراوانی دی۔

اکل و شرب سے فراغت پا کر پانچویں  منزل پر موجود اپنے کمرے میں چائے کی پیالی پُر کرکے شاعر مزدور احسان علی دانش کی خود نوشت کتاب “جہانِ دانش جلد اوّل”پڑھنا شروع کی۔
سطر سطر سے “ہے مشق سخن جاری چکی کی مُشقت بھی”کی آواز بُلند ہو کر سینے کی کوٹھڑی میں بند دل کی دُنیا میں اودھم مچا رکھا تھا۔شاعر مزدور کی ماں اس کہنہ و بوسیدہ حویلی میں شب کی تاریکی میں چکی پیستی تھی اور چکی کا  شور سُن کر یہ بیچارہ خرد سال شاعر نیند کی دنیا سے باہر آتا تھا۔اور اپنی غُربت دیکھ کر گھر کی خستہ حالی دیکھ کر دل میں درد کی ٹیس ،آنکھوں سے لہو برستا  تھا ۔نہیں معلوم شاعرِ مزدور پر یہ سطریں لکھتے ہوئے کیا حالت و کیفیت طاری تھی شاید آنکھیں پُرنم ،دل بوجھل تھا،شاید ایام رفتہ کی دردناک ،اذیت ناک یادیں لمحہ موجود میں بھی سکون سے رہنے نہیں د ے رہی تھیں ۔ ناصر کاظمی کی زبانی ؛
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی

ماں کی محبت کو لفظوں میں  سمو نا جوئے شِیر لانے کے  مترادف   ہے۔کوہ ہمالہ سے بلند ماں کی مُحبت ،مُوئے سر سے نازک نوکِ قلم میں کہاں طاقت کہ صفحہِ قرطاس پر مُحبت کو لائے۔یہ ایک عجب مُحبت ہے جو اہل دل ہی سمجھ سکتا ہے۔ورنہ محبت پر شاعری کرنا آسان ہے۔لیکن فرہاد بننا ہر کسی کے  بس کی   بات نہیں۔ تنہا ماں کی شخصیت وہ ذات ہے۔جو اپنے بچوں،اولاد  کےلیے کوہ ہمالہ کا سینہ چیر کر جوئے شیر لانے کی طاقت رکھتی ہے۔

“جہانِ دانش “صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ،صرف ایک شخصیت کی عکاسی نہیں کرتی،صرف ایک شاعر کی خود نوشت نہیں ،بلکہ جہانِ دانش”جہانِ درد،جہانِ عشق و محبت،جہانِ جنون و لگن،جہانِ جہد مسلسل ،سطر سطر غم کی تصویر ،زمانےکے  بے رحم تھپیڑوں کی تعزیر ,جامِ احساسات و جذبات سے لبریز یہ کتاب جہانوں کا مجموعہ ہے۔ویسے تو یہ کتاب پڑھتے ہوئے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے خستہ حال مکانوں ،سرمایہ داروں کی مادہ پرستی کا رجحان،مزدروں کے چہرے پر پھیلی ہوئی مایوسی و نامیدی ،کسانوں کے پھٹے میلے کپڑے ،ہاتھوں کے چھالے آنکھوں کے سامنے رقصاں ہو کر بار بار مطالعے کی رفتار میں ٹھہراو ،بعض وقت آنکھیں پُرنم ہونے،سانسیں رکنے ،اور آہیں بھرنے کا باعث بن رہی تھی۔

“ایک حادثہ”کے عنوان سے شاعر مزدور لکھتے ہیں؛

کہ ہمیں کاندھلے سے نہایت دھوم دھڑکے سے جانے والی ایک بارات میں جانا تھا۔جس میں والد ،والدہ ،بہن کی شرکت لازم تھی۔والد کے شدید تقاضے پر میری والدہ ،اور ہمشیرہ اپنے میلے کچیلے برقعے  اوڑھے میرا ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں سوار ہوگئیں۔جب شام ڈھلنے لگی۔”سورج کی تپتی ہوئی سنگینیں ٹھنڈی پڑنے لگیں،لو  ء کی نیم مُردہ تپش معتدل جھونکوں میں تبدیل ہوتی جارہی تھی۔”میں نے والدہ سے کہا کہ میں اسباب کے چھکڑے پر بیٹھوں گا۔والدہ منع کرتی رہی لیکن والد صاحب نے “یہ کہہ کر”کہ کیا ہرج ہے ہوشیار اور زیرک ہے ،نہیں گرے گا۔اور چھکڑے رکوا کر مجھے اوپر بٹھا دیا ۔کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے غنودگی سی آچلی تھی۔اور شیشم کی شاخیں مرے سر کو چُھو چُھو کر گزر رہی تھی۔اتنے میں ایک کیکر کی شاخ اسباب کے ذرا اوپر تیرتی ہوئی آئی اور میری آنکھ میں خراش دیتی ہوئی گزر گئی۔میں نے چیخ ماری اور دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر اسباب پر گر گیا۔آنکھ سے خون بہتا دیکھ کر والد نے کہا اوہو!آنکھ تو گئی۔اتنے میں پردے کی  اوٹ سے میری والدہ کی چیخ سُنی اور کچھ دیر کےلیے سناٹا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد والدہ کو ہوش آیا تو ہم واپس گھر کو چلے آئے ۔

آگے لکھتے ہیں؛کہ جب یہ خبر محلے میں پھیل گئی تو ہمسایہ عورتوں کا ہجوم ہوگیا۔کافی دیر بعد اسی محلے کی ایک ہندو بیوہ “منوہری”آئی ۔اور والدہ سے معذرت  کی کہ دیر ہوگئی۔اس ہندو بیوہ نے کہا کہ بہن میں ایک دوا بتاؤں؟ تو میری ماں نے کہا کہ جلدی بتاؤ بہن، میری  تو جان حلق میں آگئی ہے۔تو اس ہندہ بیوہ نے کہا کہ اس کی آنکھ میں خون ڈالو خون ۔

آگے لکھتے ہیں۔۔کہ اس رات مجھے درد کی ٹیسوں کے باعث بڑی دیر سے نیند آئی۔صبح کو ابھی سو ہی رہا تھا کہ کسی نے کوئی سیال چیز  آنکھ میں ڈال دی۔
شاعر مزدور لکھتے ہیں؛”دیکھا تو میری والدہ نے اپنی انگلی کے دو پور ڈورے سے جکڑ کر لہو اکٹھا کرکے شگاف دیا ہوا تھا۔مرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔میں نے کہا امی یہ انگلی تم نے کیوں کاٹ لی ہے۔؟اُس پیکر محبت نے ہنس کر کہا “بیٹا اس میں تکلیف ہی کیا ہوتی ہے۔آخر دو چار بوندیں ہی تو ہیں۔”

یہ چند سطر پڑھ کر مجھ سے آگے پڑھا ہی نہیں گیا۔میں پیالی میں چائے بھر کر ایک سپ لیا ۔اور کرسی پر کمر سیدھی کرکے گھڑی دیکھی تو رات  کا ایک بج رہا تھا۔گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز کے علاوہ آفس میں صرف میں اور خاموشی تھی۔ہم پرائے دیس میں رہنے والے حساس لوگوں کےلیے ماں کی محبت سے کوسوں دور اجنبی شہر ،اجنبی لوگوں کے درمیاں رات کی خاموشی میں اس طرح محبت آمیز اور درد سے مرقع کتاب پڑھنا نہایت مشکل ہے۔

زنان مصر نے حضرت یوسف کے  عشق میں اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں ۔اور خون کی مہندی سے اپنے ہاتھوں کو رنگا  تھا ۔ادھر ماں نے  اپنے بیٹے کےلیے انگلیوں کو کئی جگہوں سے  کٹ لگا کر خون اکٹھا کیا ۔اور ہنس کر کہا کہ چند بوندیں ہی تو ہیں اس میں کیا تکلیف ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے پانچوں منزل پر موجود اپنے آفس کی کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو خیابان مدرس ایران مشھد کی  سڑک پر کچھ گاڑیاں چل رہی تھیں۔میں “جہانِ دانش “پڑھنے کے بعد ایک بے چینی کے عالم میں چائے پہ چائے انڈیل رہا تھا۔اسی بے چینی کے عالم میں قرطاس و قلم سنبھال کر کچھ احساس لکھنے کی کوشش کی ہے۔اب قارئین ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس تحریر میں دُکھ ،درد اور احساس کی آمیزش ہے یا نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply