فلسطینیوں کا کڑا وقت/منصور ندیم

فلسطینیوں کے لئے آزمائش کا وقت ہے کہ ان پر ایک ایسا شخص اس جماعت کے سربراہ کی صورت آیا ہے جو نفسیاتی عوارض کا شکار اور فلسطینوں کے لیے ہی جلاد کی صورت رہا ہے۔ “السنوار” جو خود سینکڑوں فلسطینیوں کا قاتل ہے۔ اور فلسطینیوں میں “خان یونس کا قصاب” کے نام سے مشہور رہا۔ السنور غزہ کے جھونپڑیوں کے کیمپوں میں پلا بڑھا اور اس کی تنگ گلیوں میں اس کے خاندان کے افراد “1948 کے نقبہ” کے بعد مجدل شہر سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے، زندگی کی سختیوں اور ظلمتوں میں اس کا حصہ تھا، السنوار نے خان یونس کیمپ کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور پھر اسلامی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی، جہاں سے اس نے عربی علوم میں ڈگری حاصل کی۔ اس نے اپنی سرگرمی کا آغاز اس زمانے میں “اسلامک بلاک” کی چھتری تلے طالب علمی اور تنظیمی کام کے ساتھ کیا، سخت حالات نے اس بچے کے کردار پر اپنے نشان چھوڑے جس نے “1967 کے سانحات” کا مشاہدہ اپنے حساس دنوں میں کیا۔ اس کے بعد ہر گئے سالوں نے اس کے سینے میں غصے اور ناراضگی کی آگ بڑھتی چلی گئی، جو غزہ اور اس کے کیمپوں میں اس کی روزمرہ کی مصیبتوں کی وجہ سے بڑھ گئی تھی، جس نے “انتقام کی فوری خواہش” میں اپنے لوگوں کے لیے جو تکلیفیں چھوڑی تھیں، وہ “طاقت کے توازن میں ایک جھٹکا اور تبدیلی” ضرور ہیں۔

نوے کی دہائی کے وسط میں، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں حماس کی تحریک اور اس کے کارکنوں کو پے در پے دردناک معاملات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں متعدد رہنماؤں کا قتل تھا، جن میں سب سے نمایاں یحییٰ عیاش اور عماد اکل تھے۔ تحریک کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، اور بڑی تعداد میں فوجی سیلوں سے بھاگنے کو ناکام بنانا۔ ان تمام پیش رفتوں نے تحریک کے اندر بڑے جھٹکے محسوس کیے ان واقعات کی وجہ سے تاریخ میں حفاظتی جنون کے مرحلے میں “مجد” نامی ایک گروہ تشکیل دیا، السنوار اس مرحلے کا بانی اور مرکزی چہرہ تھا۔ المجد جلد ہی ایسے لوگوں کو سزائیں دینے کے بارے میں بدنام ہوئی، جن پر اخلاقی جرائم کے الزامات تھے۔ یہ گروہ دکانوں پر چھاپے مارتے ویڈیو کیسٹ پر لوگوں کو سزائیں دیتے، اسرائیل میں نوکری کرنے والے ایسے کسی بھی فلسطینی شخص کو ہلاک کرسکتے تھے جس پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے کا انہیں شک ہوتا۔ متعدد ایسی ’ظالمانہ ہلاکتوں‘ میں السنوار خود ملوث رہا جن میں ہلاک ہونے والوں پر اسرائیل کی حمایت کرنے کا الزام تھا۔ کئی فلسطینیوں کو اس نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ۔ کارکنان اس “مشکل مرحلے” کو یاد کرتے ہیں کہ جس کے دوران وہ حراستی مراکز کے اندر السنوار کے ساتھ سیکورٹی کے فرائض سنبھالتے تھے۔ السنوار کے جنون” کا دائرہ بڑھتا چلا گیا اس نے اپنے ہی ھماس تنظیم کے کارکنوں کو متاثر کیا، وہ تحقیقات اور پوچھ کے نام پر ھماس کے دفاتر کو ٹارچر سیلز میں تبدیل کرچکا تھا۔ خود تحریک پہلے ہی اسرائیل کی طرف سے دراندازی، قتل اور گرفتاریوں سے پریشان تھی کہ اب تحریک سیکورٹی کے نام پر اپنے ہی لوگوں کے اس ظلم کے لئے تیار نہیں تھی۔

سنہء 1980 کی دہائی میں السنوار کو اپنے ہی چار فلسطینی شہریوں کے قتل کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا، اسرائیلی حکام نے اس پر چار “ساتھیوں” کو قتل کرنے کا الزام میں چار بار عمر قید کی سزا سنائی۔ وہ اسرائیلی جیلوں کے درمیان شمال اور جنوب میں منتقل ہوا اور طویل عرصے تک مختلف جیلوں میں رہا۔ بعد میں اس کے بھائی نے ایک اسرائیلی فوجی کو اغوا کیا اور حماس نے اسے 1000 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہائی دی، اسی قیدی تبادلے کے نتیجے میں اس کی رہائی ہوئی۔ اکتوبر کا مہینہ السنوار کی زندگی کی ہی ایک فیصلہ تھا, “ابو ابرا-ہیم،” کے نام سے معروف یہ شخص اب ھماس تحریک کے سربراہ کے طور پر منتخب ہوا ہے۔ اس کے معروف ہونے کی ایک بڑی وجہ اکتوبر والے واقعے کا اصل ماسٹر مائنڈ یہی تھا۔ جس کے اس اقدام کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ دو ہزار اسرائیلی شہری مگر چالیس ہزار فلسطینیوں نے اپنی جان کی قیمت ادا کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : عرب اخباروں میں یہ سب آرٹیکل آج یا کل شائع ہوچکے ہیں یہ سب باتیں اس کے ساتھی، قید رہنے والے خصوصا ڈیمو کریٹک فرنٹ کے عصمت منصور، تحرک الفتح کے عبد الفتاح الدولہ، اس کے ساتھی ھماس کے صلاح الدین طالب کے انٹرویوز کی بنیاد پر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply