سیلون کے ساحل ۔ہند کے میدان( باب نمبر2/ لاہورسے سری لنکا جانے کی روداد)-سلمیٰ اعوان

باب نمبر:۲ نگمبو

۱۔ شہر میں بکھرے تعمیراتی حُسن کے نادر نمونے اعتراف تھے کہ ان چور اُچکی ےُورپی قوموں نے جنوبی ایشیائی ملکوں کو اگر لوٹا ہے تو کچھ دیا بھی ہے۔
۲۔ جب اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا تو پھر احتجاجی تحریکیں اور گولی کی سیاست رواج پکڑتی ہے۔
۳۔ سری لنکا مذہبی لحاظ سے چار خانوں سنہالی(بدھ)،تامل(ہندو)، مسلمان اور عیسائیوں میں بٹا ہوا ہے۔

پروٹوٹا رو ڈ پر چنسری جم اور جیولرز کا بورڈ دیکھ کر کیسے ممکن تھا کہ مہر النساء اندر نہ جاتی۔ پانچ مرلے کا گھر جس میں رہائش اور کاروبار دونوں زوروں پر تھے۔ برآمدے میں دُبلی پتلی عورت لوہے کے سٹینڈ پر Chess کی گوٹوں جیسی چیزوں اور پنوں کے ساتھ پون انچ چوڑی لیس بنانے میں مصروف تھی۔ لیس کا ڈیزائن اور نفاست دونوں ہی پھڑکانے والے تھے۔ بھاؤ تاؤ پچیس اور پندرہ روپے فی گز کی بحث و تکرار کے بعد بیس پر فائنل ہو گیا۔ سارا ایٹرن ہی خالی ہو گیا تھا۔
مہر انساء خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی کہ اُسنے ایسی شاندار ہینڈ میڈ چیز کوڑیوں کے مول خرید لی ہے۔سوٹ پر لگے گی تو وہ لشکارہ پڑے گا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں تو بس پہلے ہلّے میں ہی زخمی ہوجائیں گی۔’’
لہجے میں فاتحانہ غرور کا جوش غالب تھا۔تبصرہ فضول تھا۔اب بھلا مجھے کیا ضرورت تھی کہ میں اُسے اپنے رازوں میں شریک کرتے ہوئے کہتی کہ ایسی چیزیں تو ہمارے صدر کے لنڈے بازار میں ٹکے ٹوکری مل جاتی ہیں۔مزے سے اُسکا کھیسہ ہلکا ہوتے دیکھتی رہی۔ہنستی رہی۔دل میں خود کو شاباشی دیتی رہی کہ دیکھو کیسی سیانی ہوں؟
پھر یوں ہوا کہ جیسے ہی اُس عورت نے ملحقہ چھوٹے سے کمرے میں سری لنکا کی کانوں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں کو سونے اور کوپر جیسی دھاتوں کی آمیزش سے ملا کر بنائے گئے زیورات کے چند نمونے دکھائے تو آنکھیں تو گویا پھٹنے والی ہو گئی تھیں۔ ایسے سُبک اور منفرد کہ جو ہاتھ میں پکڑو اُسی پر دل مچل مچل جائے۔ ایسے ہنر مند ہاتھ کہ جنہوں نے ایک تولہ سونے کو گلے ہاتھ اور کانوں کی زینت بنا ڈالا تھا۔
اسی (80 ) ہزار روپے کا سن کر دھیرے سے اپنے ہاتھ میں پکڑا آرٹ کا شاہکار بریسلٹ مجھے خوش رنگ، خوشنما کوبرا سانپ جیسا لگا تھا۔ ڈبے میں فوراً رکھ دیاتھا کہ معاملہ خطرناک ہے۔ میرے سوال پر خاتون نے بتایا تھا کہ اُسکا شوہر بناتا ہے۔
‘‘ اﷲ ایسے آرٹسٹ کے تو ہاتھ چومنے چاہئیں۔ ’’عورت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
ہمارے دائیں ہاتھ بے حد مختصر سا کچن تھا۔ ایک نو عمر سی لڑکی ایک چھوٹی سی مشین پر کچے ناریل کو کش کر رہی تھی۔ اندر جانا اور وہاں کھڑے ہو کر پکنے والی چیزوں کا مشاہدہ نہ کرنا کتنی غلط بات تھی؟ سو سب سے پہلے تو چولہے پر رکھی اُس مٹی کی ہنڈ کُلیا کا ڈھکن اُٹھایا جس کے نیچے ابھی آگ نہیں جلی تھی۔ اندر گول گول پتلے پتلے کٹے ٹینڈے گولائی میں قطار در قطار رکھے ہوئے تھے۔ درمیان میں نمک مرچ ہلدی پیاز ٹماٹر اور میتھرے کا آمیزہ رکھا ہوا تھا۔ یہ سبزی ناریل کے دودھ میں پکنی تھی۔ اُبلے ہوئے چاول کے ساتھ ناریل کے دودھ میں پکنے والی سبزیوں کا سالن مقامی زبان میں ہوٹ کہلاتا ہے۔
ایک چھوٹے سے سٹول پر چھلے ہوئے نیم پختہ آموں کی لمبی لمبی قاشوں کی صورت والا آمیزہ پلیٹ میں دھرا رکھا تھا۔ جس کے بارے میں خاتون خانہ کا کہنا تھا کہ ناریل کے دودھ میں بقیہ مسالوں کے ساتھ پکنے والی یہ ڈش امبا مولیواکہلاتی ہے۔ یہ کلاسیکل سنہالی ڈش ہے جو پانچویں صدی میں سگریا کے بادشاہ شاہ کسیاپا کے دسترخوان کی زینت بنتی تھی۔
‘‘اﷲ اب بھلا ایسے شہنشاہی سالن کی اجزائے ترکیبی جاننا کتنا ضروری تھا؟ سو فوری طور پر یہ کام کیا۔
پتہ نہیں کیسے یہ بات میرے اندر سے نکل کر میرے ہونٹوں پر آگئی۔ میں نے دوپہر کا کھانا انکے گھر اُنکے ساتھ کھانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اسکے لیے پے منٹ کی پیشکش بھی کی۔ دراصل میں معاشرتی تہذیب کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھنے کی خواہشمند تھی۔ کاروباری عورت تھی ۔ چند لمحوں کی سوچ کے بعد سر اثبات میں ہلا گئی۔
پر مہر النساء نے ہی ایڑی نہ لگنے دی۔
‘‘ ارے کیا باؤلی ہو گئی ہو ۔ انکی ان ہنڈکلیوں میں پکا ہوا کھانا ۔ کیا ننگی نہائے اور کیا نچوڑے گی والی بات ہو گی۔ ہمارا تو حلق تالو بھی نہ گیلا ہو گا کہ انکی یہ مُنی مُنی سی ہانڈیاں خالی بھی ہو جائیں گی۔’’
اُسکی بات دل کو لگتی تھی۔چلو خیر پھر کہیں اور سہی۔
اب ظہر کی نماز پڑھنی تھی۔ مسجد کے بارے میں جانکاری ہو چکی تھی کہ کہاں ہے؟ دھوپ کے جوبن کا یہ عالم تھا کہ اگر پل بھر کے لیے ہوا رُک جاتی تو یوں لگتا جیسے کسی تنور میں گر پڑے ہیں۔ چلتے چلتے ہانپنے لگے جب کہیں مسجد کی صورت نظر آئی۔
اجنبی جگہوں پر سجدوں کے لیے میں ہمیشہ مری جاتی ہوں۔ شاید نہیں یقیناً نئی جگہ پر جسم کو خم دیتے ہی سریرکیا روح بھی مکمل سپردگی کی مہکتی لپیٹ میں آ کر عبودیت اور عجز کے ایک ایسے فیز میں داخل ہوتی ہے جہاں آنکھوں سے بہتے آنسو اندر کا گند دھو کر وجود کو ہلکا کر دیتے ہیں۔
ہلال کے چمکتے نشان، مینار اور پُر شکوہ سی اس سفید عمارت کو دیکھتے ہی اندر سے اپنایت کے سوتے اُبل پڑے۔ صحن سے برآمدے میں آئے جس کے ایک طرف پانی سے لبا لب بھرا تالاب تھا۔ یہی وضو کے لیے جگہ تھی۔ وضو میں کچھ ایسا ہی اہتمام تھا جیسے دھوبی گندے کپڑوں کی پھینٹائی سے قبل اُنہیں سوڈے کے کھارے پانیوں میں ڈبوتا ہے۔
پر جب پٹڑے پر چڑھنے لگے تو روک دئیے گئے کہ دو لمبی داڑھیوں والے راستے میں حائل ہوگئے تھے۔
‘‘آپ لوگ عورتیں ہیں ۔اندر نہیں جا سکتیں۔’’
‘‘انہیں مسئلہ کیا ہے؟’’مہرانساء تلملانے لگی۔
‘‘عورتیں ہی ہیں نا بھئی۔ کوئی نجس چیز تو نہیں ۔آپ کے اور ہمارے نبی کی پسندیدہ مخلوق ۔’’
مجھے بھی سخت تپ چڑھی تھی جو میرے منہ سے گرم اور زہریلی سی پھنکار کی صورت باہر نکلی تھی۔
ُُ‘‘کہا نا آپ اندر نماز نہیں پڑھ سکتیں۔’’معمر مرد نے ذرا ترشی سے کہا۔
‘‘دین کی یہ ٹھیکیداری کن لوگوں نے آپ کو دی ہے یا یہ خدمات آپ خود ہی انجام دینے لگے ہیں۔خدا تو اپنے گھر میں کُھلے عام سب کو دعوت دیتا ہے۔آپ پابندیاں لگاتے ہیں۔ہاں نماز تو ہم نے یہیں پڑھنی ہے۔’’
اشارہ مسجد کے اندر کی جانب تھا۔
ہمارے ہٹیلے پن نے بیچارے کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا تھا۔
بڑے جزبز ہوئے تھے ۔تاہم پھر اشارہ کیا کہ اسطرف برآمدے میں پڑھ لو۔
‘‘چلو خیر۔’’
زیادہ تکرار ہم نے بھی فضول سمجھی۔ تاہم طبیعت سخت مکدّر ہوئی۔
برآمدے کی بیرونی دیوار کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے سمندر کے اوپر سے تیر کر آتی ہواؤں کے بُلّھوں نے لُطف دیا اور سر جھُکانے کا مزہ آیا۔
اب بھوک کے مارے بلبلاتے پیٹ کو بھرائی کی ضرورت تھی۔ رکشے میں بیٹھے۔ کیا مزے کا رکشہ تھا۔ ڈیزائن تو قدرے ہمارے ہاں جیسا ہی تھا پر سیٹیں کیسی کشادہ اور آرام دہ ، چاہے ٹانگیں پسارو ،چاہے سمیٹو۔ چھت بھی مضبوط کینوس کی تھی۔
کچھ کچھ پگوڈا سٹائل کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر چائینز چکن رائس اُڑایا۔چکن وکن تو کہیں نظر نہ آیا۔ ہاں البتہ ذائقہ ٹھیک ہی تھا۔
ساری سہ پہر اور شام پُرتگیزوں کی یادگاروں کے نظارے کرتے گزاری۔ ایک پرانے کھنڈر بنے ڈچ فورٹ اور نہایت خوبصورت ،شاندار رومن کیتھولک چرچوں کو دیکھنے اُن میں عبادت کرتے لوگوں کو سُننے، کو لونیل دنوں کو یاد کرتے اور اِن سب کے پس منظر کے تناظر میں خود سے کہتے کہ یارا دامن دل کو کھینچتی ان شاندار عمارات اور گرجا گھروں کی رعنائیاں و زیبائیاں بتاتی ہیں کہ مغربی اقوام کی ان چور اُچکّی ولندیزی پرتگیزی اور برطانوی قوموں نے جنوبی ایشیا کے ان ملکوں کو اگر لوٹا ہے تو کچھ دیا بھی ہے۔
کہیں رات ڈھلے واپسی ہوئی۔
رات کو جب سونے کے لیے لیٹے تو جہاں پروردگار کے حضور اس بات کی شکر گزار ی تھی کہ اُس نے رات آرام کے لیے بنادی ہے۔ وہیں ٹانگوں میں اینٹھن بار بار اس غلطی کا احساس دلاتی تھی کہ زبردستی ان بے چاریوں سے انکی اوقات سے زیادہ مشقت لی گئی ہے۔ پر اب اسکا کیا کیا جائے کہ آنکھ پھر بھی نور پیر کے تڑکے ہی کھُل گئی تھی اور میں بھی ڈھیٹ ہڈی کہ اُسی وقت باہر جانے پر آمادہ کہ ناشتہ بھی کہیں کسی دوسری جگہ ہی ہو۔
مہرالنساء چیخی تھی۔
‘‘کمبخت تیرا کونساکڑ وں پر مکھن سُوکھ رہا ہے۔ کہیں حاضری دینی ہے تو نے۔ چائے کے بغیر میری تو ہڈیاں نہیں ہلنے کی۔ چپکی بیٹھو۔ تفریح کے لیے آئے ہیں جان کو عذاب میں ڈالنے نہیں۔’’
اب چڑیوں کی چہچہاہٹ سُنتے تھے۔ ہُد ہُد کی آوازیں دل کو زیر و زبر کرتی تھیں۔ بستر پر آنکھیں بند کر کے فراغت سے تھوڑی دیر لیٹنا اور ذہن کو ہر قسم کی سوچ سے خالی کرنا بھی خاصی بڑی عیاشی ہے سو ہم نے پورا ڈیڑھ گھنٹہ یہ عیاشی کی۔
خاصے بھاری بھرکم ناشتے کے بعد اپنے اندر جس توانائی کا احساس ہوا تھا اُس پر یقیناً مہرالنساء داد کی مستحق تھی۔
بس نے ہمیں نگمبو سٹی کے آخری سٹاپ پر اُتارا۔ وسیع و عریض جھیل پر اُسوقت سناٹا سا تھا۔ کشتیوں اور لانچوں میں شام والی چہل پہل مفقود تھی۔ کشتی رانی سے خوب جی بھر کر لطف اندوز ہوئے۔ اور جب مہرالنساء دوکانوں میں مقامی مصنوعات دیکھتی تھی۔ملحقہ کشادہ گلیوں نے جیسے مجھے آواز دی۔
‘‘آؤ نا کچھ گپ شپ ہمارے باسیوں کے ساتھ بھی تو ہو۔’’
خوشدلی سے لبےّک کہا۔فٹ فٹ دبیز پیازی رنگت والی کہیں کہیں جگنوؤں جیسے لشکارے مارتی ریت سے بھری گلیاں خاصی کشادہ تھیں۔اِن میں چلتے ہوئے مجھے اپنا وہ شاعر یاد آیا تھا جس نے اپنے محبوب کو اپنے گھر آنے کی دعوت بڑے رکھ رکھاؤ اور وقار سے دیتے ہوئے کہا تھا۔
انہی پتھروں پر چل کر اگر ہوسکے تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میں نے سوچا تھا کیا سنہالی یا تامل زبانوں کے کسی شاعر نے بھی اپنے محبوب کو کوئی ایسی ہی دعوت دیتے ہوئے کہاہے کہ میرے گھر آنے کیلئے تو تمہیں کبھی تپتی،کبھی بھیگی اور کبھی ڈوبی ریت کے میدانوں سے گزر کرہی آنا پڑے گا۔
بہرحال اِس رتیلے سمندر میں دھنستی دھنساتی چلتے چلتے ایک ایسے گھر کے سامنے جاکھڑی ہوئی جس کے دروازے شاید میرے انتظار میں ہی کھُلے ہوئے تھے۔ گھر نچلے متوسط طبقے کا نمائندہ تھا۔ چھوٹے سے صحن سے آگے کشادہ سا پکا کمرہ تھا جس کے پلاسٹک کی شیٹ بچھے فرش پر ایک نوجوان نیم دراز ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا۔
ایک اجنبی عورت جو یقینا کسی دوسرے دیس سے بھی تھی کو دیکھ کر پہلے قدرے حیرت زدہ اور پھر یک دم سیدھا ہو بیٹھا۔ تعارف وغیرہ کے مراحل طے ہوئے۔ یہ ایک ہندو گھرانہ تھا۔ لڑکا سجیواکمار کمپیوٹر سائنسز میں گریجوایٹ تھا۔چنائے یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کیلئے درخواست دینے کے بعد وہاں سے بُلاوے کا منتظر تھا۔چھوٹے موٹے کام بھی ساتھ کرتا رہتا تھا۔
دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میں نے و جہ جاننا چاہی لڑکا تو جیسے غبارے کی طرح بھرا بیٹھا تھا۔میرے سوال کی سوئی کیا چُبھی ایک دھماکے سے جیسے پھٹ پڑا۔مہذب سی گالیاں بھی جیسے تیز بوچھاڑ کی صورت برسیں۔
جب اکثریتی لوگ اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں گی اور اُنہیں اپنا غلام بنانے کی پوری پوری کوشش کریں گے تو ذرا بتائیے کہ پھر احتجاجی تحریکیں نہیں بنیں گی اور گولی کی سیاست نہیں چلے گی تو کیا امن کے پھریرے لہرائیں گے۔
میری معلومات کے مطابق اکثریتی گروپ سنہالی بدھ مت کا پیروکار، طبعاً شریف اور امن کا پرچار قبیلہ ہے۔سو اسی روشنی میں یہ جواب تھا۔
سجیوا تو جیسے بھڑک اٹھا ۔ناک کو سکوڑتے ہوئے نفرت بھرے لہجے میں بولا۔
‘‘کیا بات ہے اُن کی امن پسندی کی۔ایک تو آپ سیاح اور صحافی لوگ اونگیاں بونگیاں بڑی مارتے ہیں۔حقائق کا آپ کو علم نہیں ہوتا۔ایک دو لوگوں سے بات کی اور رائے قائم کرلی۔’’
‘‘چلو تو تم کچھ بتاؤ۔’’
‘‘اِس قوم میں اب انتہا پسندی کا رحجان بہت زیادہ ہوگیا ہے۔بدھا کی تعلیمات بس اب پڑھنے پڑھانے کی خیالی باتیں ہیں۔عملی زندگی میں ان کے رویے یکسر مختلف ہیں۔ 1954 کی پارلیمنٹ نے سنہالی کو سرکاری زبان قرار دیا۔بھلاکیوں آخر؟’’
‘‘ارے بیبا حقائق کو کیوں مروڑتے ہو۔70% آبادی بھلا اپنی زبان کی حوصلہ افزائی نہ کرے گی تو آٹھ نو فی صد بولنے والی تامل کو پروموٹ کرے گی۔’’
‘‘نہ کرے پر اُسے اُس کا جائز مقام تو دے۔ہاں یہاں میں آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔’’
میرے لئیے یہ مقام حیرت تھا کہ جب اندر سے ایک سیدھی سادھی خاتون جس کے بالوں کا کس کر بنا ہوا جوڑا اس کے ماتھے کی کشادگی کو کچھ زیادہ ہی نمایاں کرتا تھا ہمارے پاس آکر بیٹھی اور اُس نے یہ بات نہایت شُستہ انگریزی لہجے میں کی۔میں اندر بیٹھی آپ لوگوں کی باتیں سُن رہی تھی۔میں کولمبو یونیورسٹی میں سنہالی زبان کی اُستاد ہوں۔دراصل ساری بات رویوں کی ہے۔سنہالی اکثریتی طبقہ جس سیاسی،معاشی اور آئینی قدم کو اپنے مفادات کے ساتھ ٹکڑاتا ہوا دیکھتا تھا۔اس پر پرتشّدد رویے کا اظہار کرتا۔سالومن بندرانائیکے جیسے متوازن سوچ رکھنے والے ایک ہر دلعزیز لیڈر کو انہی بدھ انتہا پسندوں نے قتل کیا۔
عورت سجیوا کی کی بھاوج تھی۔ساتھ والے گھر میں رہتی تھی۔جونہی وہ خاموش ہوئی۔سجیوا نے اِس بار ذرا متانت سے بات کی۔
زبان کا مسئلہ تو ایک چھوٹا ایشو ہے۔سماجی سطح پر جب برتر اور کمتر والا طرز عمل ہوگا۔سیاسی سطح پر نمائندگی سے محرومی ہوگی۔تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے چانس نہیں ہوں گے۔یہی بندرانائیکے ،میتھو،سوریا مارکر جیسے خاندان غریبوں کے مونڈھوں پر سوار اور پردھان منتری بنے رہیں گے تو پھر یہی کچھ ہوگاجو ہورہا ہے۔
مجھے لگا جیسے میرے ملک کا کوئی غریب بلوچی،سندھی یا پختون اِن چیموں،چٹھوں ،ملکوں ،زرداریوں کا ستایا ہوا ہاری اپنے دل کا زہر اُگل رہا ہے۔
تیسری دنیا کے خوفناک المیے۔
لڑکا پکّاپکّا مجھے علیحدگی کا حامی اور سنہالیوں کا بیج مار دیا جانا چاہیے جیسی آرزو کا پالنے والا جان پڑا۔تھوڑی سی ماضی کی جانکاری سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں نسلی گروہوں کا تعلق بنیادی طور پر ہندوستان سے ہے۔سنہالی شمالی ہندوستان سے کوئی چھٹی صدی میں جزیرے پر آئے جبکہ تامل جنوبی حصّوں سے تین صدی قبل مسیح کے یہاں ڈیرے ڈال بیٹھے تھے۔سنہالی عقیدے کے اعتبار سے بدھ جبکہ تامل ہندو تھے۔دونوں گروہ غلبے کیلئے ہمہ وقت جنگ و جدل میں جُتے رہتے تھے۔
پہلے پرتگالیوں نے پھر ڈچ قوم نے اور اس کے بعد انگریزوں نے جزیرے کو غلام بنا لیا۔1948میں آزادی کے بعد اقتدار کی رسہ کشی پھر شروع ہوگئی۔
سری لنکا پر ہلکی پھلکی باتیں ہونے لگی تھیں۔ مذہبی لحاظ سے یہ چار خانوں میں بٹا ہوا ہے۔ بدھ۔ ہندو۔ عیسائی اور مسلمان۔ سرکاری مذہب بدھ ہے۔ تامل اور سنہالی اہم زبانیں ہیں تاہم انگریزی ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ مسلمان آبادی کا تقریباً 10% ہیں۔ اور خاصے با اثر ہیں۔
مقامی لوگوں کے لباس بھی تقریباً ان کے مذہبی عقائد کے مطابق ہیں۔ بُدھ عورتیں عام طور پر اپنی قومی ائیر لائن کی ائیر ہوسٹس جیسا ٹخنوں کو چھوتا تنگ سا کسی قدر ساڑی نما پہناوا پہنتی ہیں۔ عیسائی عورتیں بلاؤز اور سکرٹ ۔ ہندو عورتیں ساڑھی اور مسلمان عورتیں شلوار قمیض اور حجاب ۔ ہندو عورت کی ایک واضح نشانی اسکی بندیا بھی ہے۔ جو بدھ عورت نہیں لگاتی۔
نگمبو میں بوڑھے لوگوں کی اکثریت پیدل چلتی دیکھنے میں آئی تھی۔ اسکے بارے میں پوچھا کہ یہ کسی مذہبی عقیدے کے مطابق ہے یا اسکی وجہ غربت ہے۔
‘‘کہہ لیجیے تھوڑی سی عادت اور کہیں تھوڑا سا عقیدہ ۔’’
چائے آ گئی تھی اسکی پیشکش میں گھر کی معمر عورت کی محبت شامل تھی جس نے زبردستی بسکٹ کھلائے اور میرے نہ نہ کرنے پر بھی ڈیڑھ کپ چائے پلا دی۔
مجھے خاصی دیر ہو گئی تھی۔ اجازت لے کر سڑک پر آئی یہ بھی مقام شکر تھا کہ مہر النساء دُکانوں میں ہی گھومتی پھر رہی تھی۔
لنچ کا صرفہ مارا۔ بس گولڈن ناریل کے پانی اور اُبلے ہوئے سٹے پر خود کو ٹرخایا۔ پھر بس میں بیٹھ کر نگمبو سٹی سے کوچیکیڈ تک گئے۔ ساری شام ساحل کی نذر کی۔ سورج کا الوداعی نظارہ کس قدر حیرت انگیز تھا۔ سبز درختوں میں جیسے آگ سی دہک اُٹھی تھی۔ کرنوں نے پانیوں پر جو زرفشاں بکھیری اس منظر نے آنکھوں کو ساکت کر دیا تھا۔
ڈنر شاندار تھا۔ سی شیل ہوٹل کے ٹیرس پر سمندر کو دیکھتے ہوئے دوپہر کی بچت شام کی نذر کی ۔
سری لنکن حکومت سیاحت کیلئے بڑی مستعد اور فعال نظرآتی تھی۔ہر چھوٹے بڑے ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی میز پر ڈھیروں ڈھیر بروشرز اور معلوماتی کتابچے دھرے ہوتے تھے۔ٹورسٹ گائیڈ پارٹیاں سیاحوں کے تعاقب میں کچھ اسی طرح اُنہیں پھانسنے کیلئے بھاگی پھرتی تھیں کہ جیسے ہمارے ہاں کے لونڈے لپاڑے خوبصورت لڑکیوں کے تعاقب میں چکریاں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
آج کی یہ چوتھی پارٹی تھی جو اپنی چرب زبانی سے ہمیں ہوٹل سے اٹھانے اور اپنے ہیڈ کواٹر لے جانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔یہاں ایک کمرے میں چٹائیوں پر بیٹھے چند نوجوان بھاؤ تاؤ کرنے میں مصروف تھے۔پیکج کچھ معقول لگا تھا۔ڈرائیور، گاڑی ،چار دن کینڈی ،نویرا علیہ اور آدم پیک کے درمیان میں آنے والے قابل ذکر شہروں کے علاوہ کینڈی کا وہ شہرہ آفاق ڈانس بمعہ ٹکٹ اور نویرا علیہ میں چائے کے باغات کے علاوہ بوٹینکل گارڈنز سب شامل تھے۔

julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply