پردیس میں جب اپنوں سے ہزاروں میل کی دوری ہوتی ہے تو وہاں رہنے والے لوگوں کے ساتھ ہی مل جل کر رہنا پڑتا ہے ہرگیسہ میں ہمارے علاوہ بنگلہ دیشی ڈاکٹرز انڈین سکول ٹیچر مصری سوشل ڈائریکٹر اور کئی اور کمیونٹیز کے مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والے لوگ بھی رہتے تھے ہمارے تعلقات سب سے اچھے تھے لیکن ذیادہ ملنا جلنا بنگلہ دیشیوں سے تھا ایک تو وہ ہم مذہب تھے دوسرے ماضی میں کبھی ہم وطن بھی رہے تھے ہمارے مذہبی تیوہار سانجھے تھے اور وہ سب کافی حد تک اردو بھی بول اور سمجھ لیتے تھے
رمضان کا مہینہ آیا تو افطار دعوتوں کا دور شروع ہوگیا روزانہ کسی ایک گھر میں افطاری کا انتظام ہوتا کھانا ہوتا بعد میں چائے کا دور چلتا بڑی رونق ہوتی۔
ایسی ہی ایک دعوت میں قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ بنگلہ دیشی تھے اور کسی پروجیکٹ میں بڑی اہم پوزیشن پر ہرگیسہ آئے تھے فی الوقت وہ اکیلے ہی ایک بڑے سے گھر میں رہتے تھے باری باری سب گھروں میں افطاریاں چلتی رہیں ہر جگہ قریشی صاحب مدعو ہوتے وہ سب گھروں میں بڑے شوق سے جاتے اور بہت خوش ہوتے کچھ ہی دنوں میں باقی لوگوں کے ساتھ ہمارے بچے بھی ان سے مانوس ہوگئے رمضان کا تیسرا ا عشرہ ختم ہونے والا تھا جب افطار دعوت کی ہماری باری آئی کھانے سے فارغ ہوئے تو قریشی صاحب نے اعلان کر دیا کہ آخری جمعہ کی افطار دعوت میرے ہاں ہوگی میں روزانہ سب کی دعوتیں کھاتا ہوں تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ میں بھی اپنے گھر دعوت افطار رکھوں۔
ان کی بات سن کر ہم خواتین کو تو سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ چھڑے چھانٹ کیا دعوت کریں گے بیوی تو ہے نہیں صومالی ملازمہ کو تو اپنے طریقے کے علاوہ کچھ پکانا نہیں آتا اور اس شہر میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سے کھانے کو کچھ ملتا ہم حیران تھے اسی حیرت کے عالم میں کہہ بیٹھے کہ بھائی صاحب ! ہم سب جانتے ہیں آپ کے گھر میں افطاری کا اہتمام کرنے والا کوئی نہیں تو آپ کیوں تکلیف کر رہے ہیں مسز مرشد نے بھی میری ہاں میں ہاں ملائی قریشی صاحب نے بلا تؤقف ہم دونوں کو پکڑ لیا کہنے لگے کہ آپ میری دو بھابیاں ہیں نا ! جمعہ کو ہمارے گھر آجائیں دعوت کا مینیو طے کر لیں سامان کی لسٹ مجھے بنا دیں میں سب لے آؤں گا بس باقی آپ دونوں مل کر کرلیں
لوجی ! جو بولے وہی کنڈی کھولے والا معاملہ ہوگیا ابھی اس اچانک افتاد سے میں بوکھلائی ہوئی تھی کہ قریشی صاحب بولے کیوں ملک بھائی مرشد بھائی ٹھیک ہے نا ! اور ان دو مردوں نے ہم سے تصدیق کئے بغیر ہی اثبات میں سر ہلا دئیے بیگانے گھر میں مشقت تو ہمیں کرنی پڑنی تھی ان کا کیا جاتا ان کو تو کھانے سے غرض تھی بس
جمعہ کو نماز کے بعد ملک صاحب مجھے اور ڈاکٹر مرشد صاحب اپنی بیگم کو قریشی صاحب کے ہاں چھوڑ آئے ہم دونوں نے مینیو طے کرکے سامان کی لسٹ قریشی صاحب کو پکڑ ائی برتن اور افطاری کی ذیادہ تر چیزیں ہم اپنے گھروں سے لے کر آئی تھیں تین چار گھنٹے کی کڑی محنت سے افطاری اور کھانے کی ڈشیں بنائیں اب باری تھی سویٹ ڈِش کی میں نے سوچا ذیادہ محنت کی بجائے کسٹرڈ بنا کر اسے جیلی اور پائن ایپل کے چنکس سے گارنش کر لیتی ہوں اتنے سارے لوگوں کے حساب سے پاؤڈر دودھ مکس کرکے ابلنے رکھا اور کسٹرڈ کو ٹھنڈے دودھ میں مکس کرکے جیسے ہی ابلتے دودھ میں ڈالا اس کے تو موٹے موٹے ڈھیلے بن گئے جو بہت چمچ چلانے پر بھی ختم نہ ہوئے کسٹرڈ کے ڈبے پر دیکھا کہیں ایکسپائر تو نہیں تھا لیکن ایسا کچھ نہ تھا ایسا تو میرے ساتھ کبھی ہوا نہ تھا میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے سب کے سامنے شرمندگی کے خیال سے ہی دل بیٹھا جارہا تھا سارا مہینہ دوسروں کے گھر اور ہمارے گھر مزے دار کھانے کھا کر اب یہ دلدلی کسٹرڈ کیسے پیش کروں مسز مرشد کھانا پکانے میں پہلے ہی کوئی ماہر نہ تھیں میرے اس بلنڈر کا ان کے پاس بھی کوئی حل نہ تھا اسی شش و پنج میں اچانک ایک خیال سوجھ گیا میں نے کسٹرڈ کے برتن کو دو تین دفعہ پانی میں گھما کر اس کی حرارت کم کی قریشی صاحب کی ملازمہ سے بلینڈر منگوایا ڈبہ بند پائن ایپل کا شیرہ نما پانی کسٹرڈ میں ڈالا پائن ایپل کی قاشیں شامل کرکے تھوڑا تھوڑا کرکے بلینڈر میں ڈال کر اتنا ہی بلینڈ کیا کہ کسٹرڈ کے ڈھیلے مکس ہوگئے اور پائن ایپل کے ہلکے ہلکے ٹکڑے بن گئے چکھ کر دیکھا تو کسٹرڈ بہت کریمی سا اور لذیذ بن چکا تھا وقت تھوڑا رہ گیا تھا اور کسٹرڈ ابھی نیم گرم تھا میں نے شیشے کے پیالوں میں نکالا جلدی میں سٹرابیری اور کریم سے گارنش کیا اور فریج کی بجائے فریزر میں رکھ دیا اور سکھ کی لمبی سانس لی میرے بلنڈر کو بلینڈر نے کور کر لیا تھا۔

کھانے کے بعد جب سویٹ ڈِش کھائی گئی تو اتنی تعریفیں ہوئیں کہ بس کیا کہوں واقعی اس دن جیسا کسٹرڈ مجھ سے پہلے کبھی نہ بنا تھا اپنی عزت رہ جانے پر میں نے اور مسز مرشد نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا شاید پائن ایپل کے تھوڑے سے شیرے اور منہ میں آتی پائن ایپل کی ہوائیوں نے اس میں انوکھا ذائقہ پیدا کردیا تھا اور یہ کسٹرڈ سے زیادہ ونیلا اور پائن ایپل کے مکس ذائقے والی آئسکریم لگ رہی تھی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں