دریدا کے بھوت سے ذہنی مباشرت/عامر حسینی

کسی بھی کمیونٹی (چاہے وہ نسلی شناخت کی بنیاد پر کمیونٹی بنی ہو یا مذھبی بنیاد پر یا کہیں کہیں یہ دونوں بنیادیں ‘شناخت’ کا بنیادی حوالہ بنیاد جاتی ہیں) میں ایسے مہا ذہین جنم لیتے رہتے ہیں جنھیں اس کمیونٹی کی اسٹبلشمنٹ ( اس سے مراد مذھبی، ادبی ، سیاسی ہر طرح کی اسٹبلشمنٹ ہے) سب سے پہلے تعذیب /پرسیکوشن کے عمل سے گزارتی ہے اور ریاستی تعذیب کا مرحلہ بعد میں آتا ہے- تعذیب سے پہلے یہ اس کمیونٹی کی سماجی زندگی کی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے ذہنی اور جسمانی اخراج

Intellectually and physical exclusion
کے عمل سے گزرتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں ریاستی سطح پر ان کے اخراج کا مرحلہ آتا ہے – اور ایسا صرف ان کمیونٹیز میں ہی نہیں ہوتا جن سے ریاست کے حکمران ظالم طبقات کا تعلق ہوتا ہے بلکہ ان کمیونٹیز میں بھی ہوتا ہے جو اپنی نسلی و مذھبی شناخت کے سبب کسی دوسری کمیونٹی کے حکمران ظالم طبقات کی طرف سے ظلم، جبر، تشدد اور مہاجرت کو برداشت کر رہی ہوتی ہیں –

یہودی کمیونٹی کی اسٹبلشمنٹ نے اپنی کمیونٹی کے کئی اہم ترین ناموں کو تعذیب اور اخراج کے عمل سے گزارا اور وہ بعد ازاں مورخین کی نظر میں

Non Jewish Jewish
کہلائے –
ان میں سرفہرست کارل مارکس اور سگمنڈ فرائڈ تھے –
برصغیر ہند میں سنی کمیونٹی میں داراشکوہ سمیت کئی ایک وحدت الوجودی دانشور تھے جنھیں سب سے پہلے سنی کمیونٹی کی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے اپنی کمیونٹی سے خارج کیا اور پھر ریاست نے انھیں معتوب اور مرتد قرار دے ڈالا-

نوآبادیاتی دور میں شیعہ کمیونٹی سے کئی ایسے دانشور نکل کر سامنے آئے جو سب سے پہلے اپنی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے نزدیک مردود ٹھہرائے گئے اور پھر ریاست ان کے درپے آزار ہوئی –

سبط حسن ، سجاد ظہیر ، سردار جعفری، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی، سلطانہ جعفری ، عصمت چغتائی ، امام علی نازش وہ چند ایک نام ہیں جنھیں ہم

Non-Shia Shia
کہہ سکتے ہیں – جنھیں ان کی کمیونٹی کی مذھبی اسٹبلشمنٹ نے تعذیب کے عمل سے گزارا اور پھر وہ نوآبادیاتی اسٹبلشمنٹ کی نظر میں بھی معتوب و مقہور ٹھہرے – انھیں اردو اسپیکنگ کمیونٹی کی لسانی اسٹبلشمنٹ جو اردو کو اسلام اور پاکستانی قومیت سے جوڑ کر دیکھتے تھے کمیونٹی سے خارج کردیا –

منٹو ، عصمت چغتائی کی تعذیب تو اس سے بھی بڑی تھی کہ وہ اپنی مذھبی اور نسلی کمیونٹی سے ہی خارج نہیں ہوئے بلکہ ان کے ادب کی ساخت انھیں ان کی نئی کمیونٹی یعنی ترقی پسند کمیونٹی سے بھی خارج کرا گئی اور انھیں ایک طرح سے اینٹی اسٹبلشمنٹ ادبی کمیونٹی کی اسٹبلشمنٹ نے اپنے دائرے اور حلقے سے بھی خارج کردیا اور وہ
Non Progressive Progressive
قرار پائے –
مظلوم و مقہور، مجبور کمیونٹیز کے آزاد اور مجتھدانہ صفت دانشوروں کی پہلی ذہنی ہجرت اور تعذیب
Intellectual exodus and persecution
ان کی اپنی کمیونٹی کی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ ان کا فہم اور دانش پہلی ردتشکیل خود اپنی کمیونٹی کی اسٹبلشمنٹ کی ساخت /سٹرکچر کی کرتا ہے اور پھر وہ اس کمیونٹی پر ظلم اور جبر روا رکھنے والی۔ کمیونٹی کے حاکم اور ظالم طبقات کی ردتشکیل کرتی ہے – ان کے ہاں پہلی پہل ذہنی جلاوطنی
Intellectual diaspora
خود ان کی اپنی کمیونٹی کی اسٹبلشمنٹ کے منفی فریب حواس
Negative Hallucination
سے جنم لیتی ہے جو ان کی موجودگی
Presence
کی نفی کرتی ہے کیونکہ وہ معنی سے انکار کرتے ہیں کہ مطلق سچائی اور صداقت صرف ان کی کمیونٹی میں پائی جاتی ہے لیکن وہ اپنی کمیونٹی کے اندر عوام کے مجبور و محکوم ہونے کی نفی نہیں کرتے اور وہ دوسری کمیونٹیز کے اندر مجبور و محکوم پرتوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں مظلوم و محکوم
Oppressed and suppressed
دوسری کمیونٹیز میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہ اس قدر خطرناک سوچ ہوتی ہے کہ خود ریاستی اسٹبلشمنٹ بھی اس قسم کی دانش کی نسل کشی
Intellectual Genocide
کرنے لگتی ہے –
ریاستی حکمران طبقہ ایسی دانش کو جو اس طبقے کی کمیونٹی کے مجبور و محکوم سیکشنز اور پرتوں کے مظلوم و محکوم کمیونٹیز کے پسے ہوئے اور کچلے جانے والے گروہوں اور پرتوں سے اتحاد کی ادبی مزاحمت کو تشکیل دیتی ہو اسے مزاحمت کی بجائے ‘دہشت گردی’ قرار دیتی ہے اور آج کل ایسی دانش کا ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے فروغ “ڈیجیٹل دہشت گردی” کہلاتا ہے-

جو دانش جبر کی ساخت کی ردتشکیل کرتی ہو اور جابر، ظالم کے چہرے پر پڑے ترقی، اصلاح جیسے نقاب نوچ ڈالتی ہو اسے مافیا قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی-

julia rana solicitors london

ان مقدمات کی روشنی میں اگر آپ پاکستانی ریاست کے حکمران طبقات اور ان کے ہمنواؤں کے علوم کے کلامیے
Discourse of knowledge
کی ردتشکیل
Deconstruction
کریں گے تو آپ کو ظالم اور مظلوم، جابر اور مجبور ، قاہر اور مقہور کے درمیان امتیاز اور فرق کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی اور کسی بھی سماج کا مین سٹریم میڈیا اور اس کے سلیبریٹیز اسی امتیاز کو دھندلانے
Obfuscation
میں دن رات مصروف رہتے ہیں –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply