سفر” سفریلا “سا (1)- کبیرخان

وہ کسی سیانے کا “بیت” تو آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ:

بے کار مباش ، کچھ کیا کر

کپڑے ہی ادھیڑ کر سِیا کر

ہم نے کپڑے تو کامیابی کے ساتھ ادھیڑ رکھے لیکن سینے کا مرحلہ آیا تو سوئی میں دھاگا ڈالنا دشوار سے دشوار تر ہوتا گیا۔ ڈیڑھ دو گھنٹےکی مسلسل ناکامی کے بعد نصف درجن چِلّی مِلّی اور تین” گھڑچکر”(سواری) کے عوض میڈم باوری سے مُک مُکا ہوگیا ۔ میڈم نے پہلی ہی کوشش میں سُوئی دھاگےمیں پرو ڈالی۔ معہود شرائط پر حرف بحرف عمل کرنے کے بعدہم نے پسینو پسینی اپنی لگ لڑ میں ڈاکٹر شماری شروع کر دی۔ کرتے کرتے اپنے گھر تک آئے تو حیران رہ گئے کہ ہمارے خاندان میں اس وقت تک حاضر اسٹاک میں خیر سے تین سالم ڈاکٹر اور ایک نیم حکیم موجود ہے ۔سنیارٹی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو پہلے نمبر پرمرحب قاسمی اکنامکس کی ڈاکٹر ، دوسرے پرصغیر خان اُردو کا طبیب ، تیسرے درجہ پر طوبیٰ بیٹی دانت دکھانے کی سرجن ہے ۔ اورچوتھی “مِس پھِرکی ” پاگل سی ہے، یقیناً  فلاسفی میں ڈاکٹریٹ کر مارے گی۔(طبّی اصطلاح میں اسی کو “ڈاکٹر ٹُو بی” کہتے ہیں)۔ درجہ بدرجہ دیکھا جائے تو گھر کے ڈاکٹروں میں پہلے نمبر پر پروفیسر مرحب قاسمی آتی ہیں ، موصوفہ اکنامکس کی سرجن ہیں ۔ان کے پیروں میں پہلے دن سےبِلّی بندھی ہے، “ٹھُکّ ” سے نہیں بیٹھ سکتیں ، آج یہاں ہیں توکل وہاں۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ اُردو میں بھی سفر کرتی ہیں ، انگریزی میں بھی سفر۔ جب زیادہ تھک جائیں تو نیم کے پیڑ تلے بیٹھ کر کاغذ پر تھکن اُتار لیتی ہیں ۔ پھر اچھے موڈ میں ہوں تو اسی اُتری ہوئی تھکن کو کاٹ چھانٹ کر چھنکنے والاسفرنامہ بھی کر ڈالتی ہیں ۔ کیا کیجئے ، خراش بھی اُن کی، ،تراش بھی اُن کی ۔ مال بھی اُن کا، مآل بھی اُن کا۔

میرے لفظ ہیں ، تم کو کیا تکلیف ان سے

جوبھی لکھوں میں،جسے سناوں میری مرضی

اپنی مرضی کی مالکن ہونے کے باوجود موصوفہ ہیں بھلی مانس ۔ (جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کا نشانہ بہت کمزور ہے ، وار اِدھر کرتی ہیں ،چپل تیس ڈگری “آوٹ آف رینج” آم کے پیڑ پر جا “وجتا” ہے۔ پھر تب تلک وہیں بیٹھی کُڑھتی رہتی ہیں جب تلک گھر کا کوئی فرد چپل لِتّر لا پیش نہ کر دے۔ ۔  سپردم بتوخویش را ، توُدانی حسابِ کم وبیش را ۔ قبول فرمائیے ۔۔۔اور مکرّر ارشاد ہو۔ مگر وہ بھلی مانس زیادہ ہیں یا کپتّی ۔۔؟ ، اس امر پر ہنوز کوئی فیصلہ کُن بیٹھک ہوئی نہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ وہ گھر والی جتنی دلفگار ہیں ،اُتنی ہی عمدہ سفر نگاربھی ہیں ۔ یہ الگ بات کہ کبھی اپنی آنی پر آجائیں تو آنکھیں بند کر کے ہمارے لیکھے لیک کر پرے دھردیتی ہیں :

“۔۔۔۔ یاد ہے ، تم نے لاریب والے سال لارا لگایا تھا کہ مجھے چاند کی سیر پر لے جاؤ گے۔ لیکن بیٹا جوان ہو گیا،چاند کُجا تم اِتّے چھوٹے سے ستارے تک بھی نہیں لے گئے۔ گھر بیٹھے بٹھائے تارے توڑ توڑ کر میری جھولی بھرتے رہتے ہو۔بیٹے کی طرف دیکھو،شادی کے ساتویں روز وہ ناصرف طوبیٰ بیٹی کو ساتھ دُبئی لے گیا بلکہ پہنچتے ہی ،پانچ منٹ میں اُس کے لئے “آیا”(اک جہانِ دیگر) کا مستقل پاسپورٹ بھی بنوا لایا ۔اب جب من کرتا ہے ،سات آسمان اُوپر کی سیر کر آتے ہیں۔ اور تم ابھی تلک مجھے “بائیسکوپ” میں منہ ڈال کر پچھلا زمانہ دیکھنے کی ترغیب دیتے رہتےہو۔ ۔”۔ وہ تو اللہ بھلا کرے جاناں کا، اکثر مشکل وقت میں فون کر دیتی ہیں ۔ڈیڑھ دو گھنٹے کی ہلکی پھلکی اورمختصر سی گفتگو کے بعد بڑے بڑوں کے چَیتے بِسر جاتے ہیں ۔ آج کی آئی گئی ہو جاتی ہے، کل کی کل دیکھی جائے گی۔ ”

( ویسے موصوفہ آٹھ دس سال ہمارے این ۔او۔سی پر ہی لاریب کی معیت میں امریکہ پھرنے گئی تھیں۔لیکن گنتا کون ہے)

اُن دنوں ہم یو اے ای کی فضائیہ میں فوجی مشقیں کر رہے تھے۔ بیگم نے ابوظبی کے ہوائی اڈّے سے بذریعہ فون “ٹا ٹا ، بائی بائی” پھینکی اور ایک گھنٹے کے اندر اندر پُھر سے اُڑ گئیں ۔تیسرے دن اطلاع ملی کہ محترمہ ہالی وُڈ کے گیٹ پر پہنچ چکی ہیں ،اور لائن کٹ گئی ہے۔ ہم سمجھ گئے کہ کسی پروڈیوسر کی نظر پڑگئی ہو گی،وِلن یا کریکٹر ایکٹر کے رول کے لئے منتخب کر لیا ہوگا۔ لیکن یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ محترمہ کو تو ہلکی پُھلکی مظہرشاہیاں کرنا بھی نہیں آتا، اڈّی مار کے دھرتی ہلانا پڑ گئی تو اڈّی ماریں گی کیسے؟دھرتی ہلائیں گی تو کیوں کر ؟،پنسل ہیل سے تو آج کل نازک سے نازک رُخسار پر معمولی سا ڈِمپل تک نہیں ڈالا جا سکتا،بڑے بڑے ” کھوبے ٹوبے” کاڑھنا گئے زمانوں کے کھیل تھے۔ وہ ویلے بِسر گئے۔ہم نے سوچا۔ اور ایسا سوچ کر خفیف بھی ہوئے۔ (خِفّت کا سبب کچھ اور سا تھا، کبھی فرصت میں بیان کریں گے)۔ کوئی دو تین ایّام کے بعد طیؔور کی زبانی معلوم ہوا کہ ہالی ووڈ کا ایک سلطان راہی سرسوُں کے ساگ کو تڑکا لگا رہاتھا

کہ ایک عدد میٹھی چھینک آ کر ناک کے اندر بیٹھ سی گئی۔وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔۔، آتی ہے کم بخت نہ جاتی ہے۔ ہالی ووڈ والوں نے سمجھا کہ محترمہ نکّ چڑھی ہیں۔اتنی سی غلط فہمی پر کُٹّی ہو گئی۔ محترمہ نے طیّور کی زبانی ہالی ووڈ کو تیاگ پتر بھیج دیا۔۔۔ تم اپنے وہیڑے، ہم اپنے گھر۔ اس کے بعد اُنہوں نے بہنوں کے بچّوں سے ملنے کا پروگرام بنایا ۔ معلوم ہوا ہر بچّہ آٹھ آٹھ دس دس گھنٹوں کی نان اسٹاپ فلائٹ کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ سُن کر ہی”کاکا” تھکن سے چوُر ہوکر بیٹھ رہیں۔ بیٹھے بیٹھے خیال آیا، اُنہی قدموں اُٹھیں،جامجسمہ آزادی کے پیر پکڑ لیئے۔۔۔۔ ہے اَن داتا! قرنوں دوُر سے چرنوں کو چھونے آئی اِس کالسری کو شما کر دے۔۔۔۔،تیرے درباریوں نے جو صحیفہ تھمایا ، وہ کسی اجنبی زبان میں ہے،اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ ایک بھلے مانس کو دکھایا، بولا ” بی بی! ہم خود خیر سے اُمّی ہیں،چھوُت چھات سے پرہیز کرتے ہیں۔ میری مانو تو بابے پر ڈالیں چڑھانے کی بجائے دوُر پرےباوقار فاصلہ سے سلام پیش کرو اور پتلی گلی سے نکل لو۔ ہم نے اُلٹے پیروں قریبی ساحل سے سیپیاں چُنیں کہ گھرجا کر دو چار کنٹھے بنالیں گے۔ایک خود ڈالیں گے، ایک میاں کی گردن پر چڑھائیں گے۔۔۔۔ کیا جانیئے میاں جی کو عقل آ جائے۔ “چارے قضا” کچھ نہ ہوا تو ثواب کا ثواب ، فیشن کا فیشن۔اللہ اللہ خیر سلّا۔کنٹھا بچا رہا تو قرآن پاک والے طاقچہ کے ساتھ اگزیبٹ نمبر ونّ کے طور پر لٹکا رکھیں گے۔ جمعرات کے جمعرات اگر بتّیوں کی دھونی دیتے رہیں گے۔ پھر “ستّے خیراں”۔

ایک دن موڈ میں دیکھ کر بیگم جان سےبرسبیل تذکرہ “جہیڑا” کیا۔۔۔ سُنا ہے امریکہ میں غربت بہت ہے، چنگی بھلی بِیبیاں ستر بےمہار پھرتی ہیں ۔۔۔؟ ۔ تڑخ کر بولیں : :”بیبیاں ہی نہیں بابے بھی ۔ لیکن وہ ننگے نہیں ، نانگے ہیں نانگے، سادھو ۔ تمہاری طرح نہیں کہ جمعرات کے جمعرات سرپر رومال کی دھجی باندھی اور مسجد مندر، شہر بازار میں صندوقچیاں کھڑکاتے پھریں ۔۔۔ جو دے اُس کابھلا، جو اور دے اُس اور بھلا۔ چھی چھی چھی۔ ارے بابا وہ ہیٹ فُٹ پاتھ پراُلٹا رکھ کر کنارے ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ “چینج پلیز”۔ یہ نہیں کہ “چھُٹّا سخیا ! تیرا اللہ بوٹا لاوے گا”۔ مہذّب دُنیا ہاتھ نہیں ، ہیٹ پھیلا کر باوقار فاصلے پر بیٹھ جاتی ہے۔ نادہندگان کے کپڑے نہیں پھاڑتی۔۔۔سمجھے؟؟؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply