• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بابر اعظم، ارشد ندیم اور کالے شیشوں والی مہران/ثاقب لقمان قریشی

بابر اعظم، ارشد ندیم اور کالے شیشوں والی مہران/ثاقب لقمان قریشی

کرکٹ اور سیاست ایسے کھیل ہیں جن پر ہمارے ملک میں ہر بندہ تبصرہ کرنے کو تیار ہے۔ تندور، نائی کی دکانوں سے دفاتر اور سوشل میڈیا ہر طرف انہی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پڑھنے والوں کیلئے میری تحریر اس لیئے دلچسپ ہونے جا رہی ہے۔ کیونکہ آج کھیلوں پر ایسا بندہ اپنی رائے دینے جا رہا ہے۔ جو خود ویل چیئر پر ہے۔ ویل چیئر پر بیٹھ کر وہ چیزوں کو کس طرح دیکھ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے سب اس تحریر میں ملے گا۔

ہمارے بچپن میں کرکٹ اور ہاکی ملک کے مقبول ترین کھیل ہوا کرتے تھے۔ جس دلچسپی سے آج لوگ کرکٹ کے میچ دیکھا کرتے ہین  ہم لوگ اسی طرح ہاکی کے میچ دیکھا کرتے تھے۔ قومی ٹیم کی جیت پر خوشیاں منانا، ہارنے پر اداس ہو جانا۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کل ہارنے پر قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں، انکے خاندان اور بورڈ پر جس قسم کے الزامات لگتے ہیں ایسا پہلے نہیں تھا۔ ہارنے پر جس قسم کا شدید ردعمل آج دیکھنے کو ملتا ہے پہلے نہ تھا۔

ہاکی کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلی محلے کی کرکٹ بیٹ اور بال کے ساتھ کھیلی جاتی ہے جبکہ ہاکی کھیلنے کیلئے ہر بندے کے پاس ہاکی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اسی کی دہائی میں گلی، محلوں، سکولوں اور کالجوں میں لوگ ہاکی کھیلتے نظر آتے تھے۔ ہر گھر میں کم از کم ایک ہاکی ضرور ہوتی تھی۔
جس دور میں جہانگیر خان اور جانشیر خان سکوائش کے ٹائٹل اپنے نام کر رہے تھے۔ ہاکی کی ٹیم بھی اچھی کارگردگی کا مظاہر کرتی تھی۔ اس دور میں بھی عمران خان اور جاوید میاں داد ہی کی بلے بلے تھی۔

ہمارے بچپن میں راولپنڈی کا ماحول گاؤں جیسا ہوا کرتا تھا۔ ہر طرف کھیت اور مال مویشی گھومتے نظر آتے تھے۔ کھیلوں کے بہت سے میدان تھے جہاں لوگ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال وغیرہ کھیلتے نظر آتے تھے۔ آج راولپنڈی بنگلوں، فلیٹس، دفاتر اور بازاروں کا قبرستان بن چکا ہے۔ جسمانی سرگرمی کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ جہاں نوجوان نسل دشمن قوتوں کے بچھائے جال پر کھیلتی ہے۔

کھیلوں کی بات کریں تو میں کھیل کو پڑھائی سے ذیادہ اہم سمجھتا ہوں۔ کھیل بچے کو ٹیم ورک، منصوبہ سازی، فیصلہ سازی، برداشت، صحت مند زندگی جینے کے طریقے، ذمہ داری کا احساس وغیرہ جیسی چیزیں سکھاتا ہے۔ میں ہر جاننے والے کو بچوں میں جسمانی سرگرمیوں کے فروغ کی تلقین کرتا ہوں۔

چائنہ نے نوئے کی دہائی سے ملک میں کھیلوں کے فروغ پر بھرپور توجہ دی۔ موجودہ اولمپکس میں چائنہ میڈلز کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ انڈیا پانچ سلور اور چھ برونز میڈلز جیت چکا ہے۔ کھیل اور تعلیم کا فروغ نوجوان نسل کی انرجی کو درست سمت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیل اور تعلیم کی اہمیت جانتے ہوئے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک انہی کے فروغ پر کام کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔

کرکٹ ٹیم کی مایوس کن پرفارنامنس پر میں ہمیشہ سے یہی کہتا آیا ہونکہ اس کا ذمہ دار ہمارا موجودہ سیاسی اور عدالتی نظام ہے۔ ہم کوئی ایسا کھیل نہیں جیت سکتے جس میں ٹیم ورک ہو۔ ہماری سیاسی تقسیم، مذہب کا چورن، عدل کے نظام کی ناانصافیاں اس کھیل میں ضرور دکھائی دیں گی۔

ہماری موجودہ ٹیم نیچرل ٹیلنٹ سے بھری پڑی ہے لیکن ہمارے نظام کی کمزوریوں کے آگے نیچرل ٹیلنٹ ہار مان جاتا ہے۔ اقتدار کی جنگ، مذہب کا چورن، پسند نا پسند، گروپ بندی جیسی چیزیں سیاست کی طرح کرکٹ ٹیم میں بھی نظر آتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ نوئے اور دو ہزار کی دہائی کے کھلاڑیوں کی انگریزی اچھی نہیں تھی۔ جبکہ آج ہمارا ٹیلنٹ اتنا را ہے کہ اسے ٹھیک سے اردو بھی بولنا نہیں آتی۔ کھلاڑیوں کو ملک کا سفیر کہا جاتا ہے۔ جبکہ موجودہ ٹیم کا کوئی کھلاڑی الفاظ اور حرکات کی سفارتکاری سے واقفیت تک نہیں رکھتا۔ بیسویں صدی میں ٹیلنٹ کو کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ جبکہ اکیسویں صدی ٹیلنٹ اور کھیل کی سائنس کا ملاپ ہے۔ سائنس کے بغیر کسی کھیل میں کامیابی ناممکن ہے۔ کھیل کی سائنس کو سمجھنے کیلئے تھوڑی بہت تعلیم ضروری ہے جسکی ہمارے پاس کمی پائی جاتی ہے۔

ہمیں کرکٹ کے ساتھ دوسرے کھیلوں کے فروغ پر بھی کام کرنا ہوگا۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ مختلف قسم کی جسمانی سرگرمیاں فروغ پائیں گیں۔ قوم کے کرکٹ کے بخار میں کمی واقع ہوگی۔ نوجوان نسل کو جسمانی سرگرمیوں میں ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے گا۔ برداشت اور روشن خیالی کو فروغ ملے گا۔ سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کنٹرول کرنے والی طاقتوں کی سازشوں سے نجات ملے گی۔

کل شام میں نے دفتر سےگھر واپسی کیلئے رائڈ بک کروائی۔ ٹوٹی پھوٹی گاڑی میں ایک نوجوان نمودار ہوا۔ کہنے لگا میں آپ کو تیسری مرتبہ لینے آ رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ ایسی خستہ حالت گاڑی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ لڑکا کہنے لگا کہ پیسوں کی ضرورت تھی اسلیئے پہلی گاڑی بیچ دی۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ خدا نے اسے بیٹی کی نعمت سے نوازا تھا۔ چھ ماہ کی عمر میں اسے پھیپھڑوں کا مرض لاحق ہوا۔ بچی کے علاج کیلئے گاڑی اور جمع پونجی بیچنا پڑی لیکن بچی صحت یاب نہ ہوسکی اور اللہ کو پیاری ہوگئی۔

آجکل یہ بتیس سال پرانی خستہ حالت گاڑی چلا رہا ہے۔ بکرا منڈی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ والدین بھی ساتھ رہتے ہیں۔ باتیں ابھی چل رہی تھیں کہ راولپنڈی کچہری کے پاس کھڑی ٹریفک پولیس کی فوج نے گاڑی کو روک لیا۔ وارڈن کہنے لگا کہ لائسنز لے آؤ۔ کاغذات پورے ہونے کے بعد کہنے لگا کہ پچھلے شیشے کالے کیوں ہیں۔ ڈرائیور کہنے لگا کہ میں ابھی سٹیکر اتار دیتا ہوں۔ وارڈن کہنے لگا اب تو چالان ہوگا۔ ڈرائیور نے منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا۔ ڈرائیور نے کہا آپ کے سامنے بے شمار کالے شیشوں والی بڑی گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ ان کا بھی چالان کریں۔ وارڈن بولا منہ بند کرو اور دفع ہو جاؤ۔

گفتگو کے دوران میں نے بہت سی کالے شیشوں والی گاڑیاں گزرتی دیکھیں۔ میں حیران تھا کہ پولیس کے یونیفارم میں ملبوس یہ دس نوجوان صرف چھوٹی موٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے دھڑا دھڑ چالان کر رہے تھے۔ کالے شیشوں والی، اشارہ توڑتی بڑی گاڑیوں سے ایسے انجان تھے۔ جیسے انھیں وہ نظر ہی نہ آرہی ہوں۔

تھانوں، کچہریوں، عدالتوں، سڑکوں پر روزانہ ہزاروں لوگ سرکاری افسران کی  زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ لوگ کیسے ملک سے پیار کریں کیسے اپنے بچوں کو ملک کی خدمت کی تلقین کریں گے؟
ارشد ندیم چند دنوں یا مہینوں میں ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ عوام کے دلوں پر بابر اعظم ہی حکومت کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply