بارسلونا کے پاکستانی(3)-محمود اصغر چوہدری

برطانوی شہروں کے  بعد اگر یور پ کے کسی ایک ہی شہر پر پاکستانیوں نے مقامی بزنس پر قبضہ کر لیا ہے تو وہ یقیناًبارسلونا ہی ہیے،امید ہے کہ بہت جلد لوگ برطانیہ کی نہیں بلکہ بارسلونا کی مثال دیا کریں گے ۔ بارسلونا میں موجود پاکستانیوں نے اپنی انتھک محنت، لگن اور باہمی اخوت سے وہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ اب اگر آپ نے کوئی ٹیکسی لینی ہے, شوارما کھانا ہے ، کسی گروسری شاپ سے ایسے اوقات میں شاپنگ کرنی ہے جب دوکان کھلنے کا وقت ہی نہیں، اگر آپ نے سبزی خریدنی ہے تو آپ کو ہسپانوی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی آپ آرام سے ایسی کسی بھی شا پ میں داخل ہوجائیں آپ کو وہاں پاکستانی مل جائیں گے ۔ بارسلونا میں پاکستانیوں نے مقامی بزنس پر اس طرح قبضہ کیا ہے کہ دیگر کمیونیٹیز کو پچھاڑ دیا ہے ۔

غیر ملکیوں میں تعداد کے لحاظ سے بارسلونا میں پاکستانی تیسرے نمبر پر آتے ہیں لیکن بزنس کی دنیا میں یہ مکمل طور پر سرائیت کر گئے ہیں ۔یورپ میں ہماری سب سے بڑی پریشانی حلال کھانوں کی ہوتی ہے ۔ بارسلونا پہنچا تو مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اب وہاں بھی بہت سے مقامی ریستورانوں میں مجھے حلال کا اسٹیکر جگمگاتا نظر آیا ۔ رامبلہ کا بازار ہو ، پیاسا کاتولونیا یا ساحل سمندر پر موجود ریسٹورنٹس وہاں کام کرنے والے اکثر ویٹر مجھے پاکستانی نظر آئے ۔ میں نے جہاں سے بھی کھانا کھایا خوش قسمتی سے ہر دفعہ مجھے حلال ریسٹؤرنٹ مل گیا ۔ رامبلہ میں تو ایک گلی ہے جس کی  تقریبا ً سبھی دوکانیں پاکستانیوں نے لے لی ہیں ۔ ایک ہسپانوی کاتالونین جرنلسٹ مارتی ایسٹریچ ایکسمیکر نے تو اپنی ایک رپورٹ میں پاکستانیوں کو دی بگ پاکستانی فیملی کا نام دیا ہے اوراس نے لکھا ہے جس طرح یہ لوگ پنجاب میں برادریوں پر یقین رکھتے ہیں ایسی ہی ایک برادری انہوں نے بارسلونا میں بھی بنا لی ہے۔

بارسلونا میں پاکستانی برادری کیا ہے اور وہ بارسلونا کی بزنس کی دنیا میں کیسے کامیاب ہوئے ۔ یہ ماڈل بہت دلچسپ ہے اگر دیگر ممالک میں رہنے والے پاکستانی بھی اس ماڈل کو اپنالیں تو وہ بھی کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ بارسلونا میں پہلا پاکستانی 70کی دہائی میں آیا ۔زیادہ تعداد سن 2001ء سے سن 2005ء کی امیگریشنوں میں بارسلونا منتقل ہوئی ۔ شروع میں یہ معمولی نوعیت کے کام کرتے تھے یعنی انڈسٹری وغیرہ تھی نہیں تو بار ریسٹورنٹس میں پھول بیچنا یا پھر مختلف بلڈنگنر میں گیس سلنڈر پہنچانے جیسی سخت جان مشقت لیکن بھر یہ آہستہ آہستہ ٹیک اووے ، فوڈ اور ٹیکسی بزنس میں آئے ۔ جو ماڈل اپنا نے والا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ۔ ایک دوسرے پر اعتماد کیا اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ۔ مثلاً ٹیکسی سیکٹر میں ایک لائسنس ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ یورو میں آتا تھا ۔ پاکستانیوں نے اس کا انتظام اتفاق میں ڈھونڈا انہوں نے ایک یونین بنائی اور جو بھی شخص ٹیکسی حاصل کرنا چاہتا وہ اسے خود ہی رقم جمع کرکے قرض حسنہ دے دیتے اس طرح پاکستانی ٹیکسی کی لائین میں ایسے آئے کہ سب کا صفایا کردیا اب پاکستانی بارسلونا میں ٹیکسی سیکٹر پرایسا ہولڈ کرچکے ہیں کہ وہاں پر وہ اوبر اور بولٹ کی بھی پھٹکنے نہیں دے رہے ۔ شہزاد اکبر وڑائچ ٹیکسی یونین کے بانی ہیں اور ا ن کی بہت محنت ہے اسی طرح گروسری اسٹور سے لیکر ٹیک اووے فوڈ اسٹور ہوں یا موبائل شاپس یا پھر دیگر بزنس پاکستانیوں نے ایک دوسرے کو سہارا دیا اور اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کی ۔

بارسلونا کی مقامی سیاست یا مقامی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بات کریں تو حافظ عبدالرزاق صادق اور محمد اقبال جیسی شخصیات ہیں سوشلسٹ پارٹی کے سنئیر راہنماؤں میں شامل ہوچکے ہیں اسکے علاوہ خالد شہباز چوہان   کنسٹرکشن کے میدان میں چودھری عزیز امرہ ،اورچوہدری امتیاز لوراں جیسے کئی پاکستانی اپنی کنسٹرکشن کمپنیاں بنا چکے ہیں ۔ صحافت کی بات کریں توشاہد احمد شاہد، جاوید مغل ، ڈاکٹر قمر فاروق ، راجہ شفیق کیانی اور مرزا ندیم بیگ اور اخبارات میں پل پل کی خبریں شئیر کر رہے ہیں ۔ اگر کنسلٹنسی اور سروسز مہیا کرنے کی بات کریں تو ملک عمران خان ، نوید احمد اندلسی اور عمیر ڈار سمیت کئی پاکستانی اپنے ہم وطنوں کی راہنمائی کر رہے ۔ گروسری اسٹؤرز کی دنیا میں چوہدری سلیم لنگڑیا ل ایک جگمگاتا نام ہے ۔ اسی طرح سیاست کی بات کریں تو ن لیگ کے حاجی راجہ اسد حسین ، پیپلز پارٹی کے حافظ عبدالرزاق صادق اور پی ٹی آئی کے شہزاداصغر بھٹی پاکستانی سیاسی جماعتوں کی بھر پور نمائندگی کر رہے ہیں۔

بارسلونا کے پاکستانیوں کی دوسری خاصیت جو انہیں یورپ بھر میں ممتاز کرتی ہے وہ ہے ان کی مہمان نوازی ۔ برطانیہ میں مشہور ہے کہ اگرآپ سڑک کنارے جارہے ہیں تو دوسری طرف سے آنے والا پاکستانی آپ کو دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لے گا کہ کہیں اسے چائے نہ پلانی پڑجائے ۔ بارسلونا میں مہمان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کا پیچھا کیا جاتا ہے ۔ بارسلونا میں مشہور ہے کہ مہمان اسپین پہنچ جائے تو اسے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کا اصلی میزبان کون ہے کیونکہ ہر پاکستانی اسے دعوت کے لئے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا میری فلائٹ بارسلونا اتری تو چودھری ندیم اختر گاڑی لیکر مجھے لینے پہنچے ہوئے تھے ۔چودھری صاحب کا تعلق حالانکہ بورے والا سے لیکن انہوں نے فوڈ چین کے بزنس میں اپنا نام بنایا ہے ۔ ابھی ہوٹل پہنچا ہی  تھا کہ پیپلز پارٹی کے حافظ عبدالرزاق کا ویلکم کا میسج جگمگا رہا تھا ۔ ادارہ منہاج القرآن کے صدر محمد اقبال صاحب کی دعوت آئی ہوئی تھی ۔ شہزاد اکبر وڑائچ صاحب کی دعوت والا پیغام بھی موبائل سکرین پر نمایاں تھا ۔ چونکہ میرا یہ دورہ خالصتاً سیر کا تھا اور میں کسی سے ملنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس طرح کھانوں اور اعشائیوں کے چکر میں آ پ کا سار ا وقت ضائع ہوجاتا ہے ۔ لیکن ان لوگوں نے اتنا اصرار کیا ۔ دن میں تین تین چار دفعہ کال کر کےاپنے خلوص کا اظہار کیا جو اس بات کی نشانی تھی کہ ان کا اصرار محض دکھاوا نہیں تھا ۔

جب محمد اقبال اور حافظ عبدالرزاق نے کتاب یارب کی تقریب پذیرائی کی بات کی تو میں انکار نہ کر سکا، اور مجھے ان سے کہنا پڑا کہ آپ ایک پروگرام رکھ لیں جس میں سب اکٹھے ہوجائیں ، میری کتاب یارب کے حوالے سے عمیرڈار کئی مہینوں سے مجھے کہہ رہے تھے کہ اسپین میں وہ اس کی تقریب پذیرائی کروانا چاہ رہے ہیں لیکن ہمار ا پروگرام میری مصروفیات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہورہا تھا ۔ لیکن اب میں اسپین پہنچا تو وہ پاکستان میں تھے ۔ خیر محمد اقبال صاحب راہنما سوشلسٹ پارٹی وسنئیر نائب صدر ادارہ منہاج القرآن اسپین اور حافظ عبدالرزاق صادق سیکرٹر ی نشر واشاعت پاکستان پیپلز پارٹی یورپ و سنیئر راہنما سوشلسٹ پارٹی اسپین نے بہترین تقریب کا اہتمام کیا ۔ جس میں بارسلونا کی علمی و ادبی شخصیات ،سنئیر صحافیوں اور سیاسی راہنماؤں نے شرکت کی ۔ جن میں بارسلونا کونسل سے ایوارڈ یافتہ صحافی جاوید مغل ، ادبی سرگرمیوں کے روح رواں راجہ شفیق کیانی ، معروف امیگریشن ایڈوائزر نوید احمد اندلسی ،سنئیر صحافی سماء نیوز ڈاکٹر قمر فاروق، سوشل میڈیا وی لاگر و صحافی مرزا ندیم بیگ ، معروف تجزیہ نگار قدیر حسین چودھری ، راہنما مسلم لیگ ن حلیم بٹ ، راہنما پاکستان تحریک انصاف شہزاد بھٹی اور معروف صحافی رضوان کاظمی سمیت شہر کے اہل قلم نے بھرپور شرکت کی ۔

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت مرزا ندیم بیگ نے حاصل کی ۔ نقابت کے فرائض حافظ عبدالرزاق صادق نے ادا کئے ۔کتاب یارب پر گفتگو کرتے ہوئے سنئیر صحافی جاوید مغل، چودھری قدیر احمد ، راجہ شفیق الرحمن ، شہزاد اصغر بھٹی ، ڈاکٹر قمر فاروق اور میزبان محمد اقبال کا کہنا تھا کہ محمود اصغر چودھری اپنے کالموں سے یورپ بھر میں مقیم پاکستانیوں کی راہنمائی کرتے ہیں اب ان کی یہ کتاب یارب حجاز مقدس کا سفر کرنے والوں کے لئے بھی ایک گائیڈ بک ثابت ہوگی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ سفر نامہ حج یارب پڑھتے ہوئے قاری خود کو وہیں محسوس کرتا ہے ۔ تجزیہ کار قدیر حسین چودھری کا کہنا تھا کہ اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا انداز تحریر آپ کا رابطہ روحانیت کے ساتھ ساتھ زمین سے بھی منسلک رکھتا ہے ، یہ کتاب سفر کی صعوبتوں اور انسانی و روحانی جذبات کی بہترین عکاسی کرتی نظر آتی ہے ۔

میری کتاب کی تقریب پذیرائی بارسلونا میں اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے   کہ بارسلونا ہی وہ شہر ہے جس نے دنیا کو ورلڈ بک ڈے کا تحفہ دیا ہے ۔ 23اپریل کو بارسلونا میں یہ دن اس طرح منایا جاتا ہے کہ مرد حضرات اپنی پارٹنر خواتین کو پھولوں کا تحفہ دیتے ہیں اور عورتیں مردوں کو کتابوں کا تحفہ دیتے ہیں ۔

بارسلونا کے پاکستانیوں سے ملنے والی اس محبت کو میں ہمیشہ یاد رکھوں گا

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply